حملہ ہوا تو ٹیپو سلطان ورنہ بہادر شاہ ظفر! (انشال راؤ)

یہ کوئی چونکا دینے والی بات نہیں، ساری دنیا اس راز سے بخوبی واقف ہے کہ بھارت پاکستان کو تباہ کرنے پہ تُلا ہے اور ایک طویل و مسلسل غیر اعلانیہ جنگ جاری رکھے ہوے ہیں، اس ضمن میں سفارتی ہو یا علاقائی، معاشی ہو یا کلچرل، نظریاتی ہو یا اخلاقی یا پھر امن و امان کی صورتحال الغرض ہر میدان میں پاکستان کو بھارتی منظم و سوچی سمجھی جارحیت کا سامنا ہے، جب سے اکیسویں صدی کے ہٹلر نریندر مودی کی قیادت میں ہندوتواکریسی و سیفرون ازم Saffronism بھارتی اقتدار پہ برا جمان ہوا ہے تو اس جنگ میں بھرپور شدت آگئی ہے، بھارت نے کشمیر میں ظلم و ستم کے ساتھ ہی پاکستان میں کراس بارڈر دہشتگردی کو بھی تیز کردیا ہے جس کے نتیجے میں بلوچستان و خیبر پختونخواہ میں متعدد دہشتگردانہ بم دھماکوں و ٹارگٹ کلنگ کا ایک بار پھر سے ہوگیا ہے، دوسری طرف بھارتی آبی جارحیت معاہدوں کے باوجود جاری ہے، مکار ہندوتوا مائنڈسیٹ کے نزدیک کوئی اخلاقی معیار نہیں، بھارت تمام تر معاہدوں و عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوے اپنے مذموم منصوبوں پہ عمل پیرا ہے جبکہ جوابی کارروائی کرنے والوں کے عمل و حکمت عملی سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نیچے سے اوپر کی سطح تک سب کے سب بھارتی پاکٹ یونین ہیں یا ان کو قومی مفادات سے کوئی دلچسپی نہیں، اس ضمن میں محترم ضیا شاہد کو سرخ سلام ہے کہ جو کام متعلقہ افسران کا تھا جن کو عوام کے خون پسینے سے کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں انہوں نے کبھی نہیں کیا جبکہ ضیا شاہد صاحب نے تحقیقی کاوشوں سے بھارت کے ساتھ آبی معاہدوں کی اصل حقیقت کھول کر رکھدی ہے جسکا فائدہ اٹھانا حکومت کا کام ہے المیہ یہ ہے کہ ابتک پاکستان صرف اتنے پہ اکتفا کیے ہوے کہ یہ کوئی چونکا دینے والی بات نہیں، ساری دنیا اس راز سے بخوبی واقف ہے کہ بھارت پاکستان کو تباہ کرنے پہ تُلا ہے اور ایک طویل و مسلسل غیر اعلانیہ جنگ جاری رکھے ہوے ہیں، اس ضمن میں سفارتی ہو یا علاقائی، معاشی ہو یا کلچرل، نظریاتی ہو یا اخلاقی یا پھر امن و امان کی صورتحال الغرض ہر میدان میں پاکستان کو بھارتی منظم و سوچی سمجھی جارحیت کا سامنا ہے، جب سے اکیسویں صدی کے ہٹلر نریندر مودی کی قیادت میں ہندوتواکریسی و سیفرون ازم Saffronism بھارتی اقتدار پہ براجمان ہوا ہے تو اس جنگ میں بھرپور شدت آگئی ہے، بھارت نے کشمیر میں ظلم و ستم کے ساتھ ہی پاکستان میں کراس بارڈر دہشتگردی کو بھی تیز کردیا ہے جس کے نتیجے میں بلوچستان و خیبرپختونخواہ میں متعدد دہشتگردانہ بم دھماکوں و ٹارگٹ کلنگ کا ایک بار پھر سے ہوگیا ہے، دوسری طرف بھارتی آبی جارحیت معاہدوں کے باوجود جاری ہے، ایک طرف تو ہندوتوا ایکٹیوسٹ پاکستانی دریاوں کا پانی روک کر پاکستان کو بنجر بنانے پہ تیزی سے عمل پیرا ہے تو دوسری طرف وقتاً فوقتاً بلا اطلاعات ایک ساتھ بھاری مقدار میں پانی چھوڑ کر پاکستان کو شدید مشکلات میں مبتلا کرتے ہوے بھاری جانی و مالی نقصان پہنچاتا آرہا ہے ایسی ہی ایک سازشی کوشش کے تحت لداخ ڈیم کے پانچ میں سے تین سپل ویز کھول کر کی ہے اور ساتھ ہی بغیر شیڈول کے الچی ڈیم سے بھاری مقدار میں پانی چھوڑ دیا ہے اس کے علاوہ دریائے ستلج میں بھی پانی کا بہت بڑا ریلہ چھوڑ دیا ہے نتیجتاً پاکستان میں شدید سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور ممکنہ طور پر شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، مکار ہندوتوا مائنڈسیٹ کے نزدیک کوئی اخلاقی معیار نہیں، بھارت تمام تر معاہدوں و عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوے اپنے مذموم منصوبوں پہ عمل پیرا ہے جبکہ جوابی کارروائی کرنے والوں کے عمل و حکمت عملی سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نیچے سے اوپر کی سطح تک سب کے سب بھارتی پاکٹ یونین ہیں یا ان کو قومی مفادات سے کوئی دلچسپی نہیں، اس ضمن میں محترم ضیا شاہد کو سرخ سلام ہے کہ جو کام متعلقہ افسران کا تھا جن کو عوام کے خون پسینے سے کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں انہوں نے کبھی نہیں کیا جبکہ ضیا شاہد صاحب نے تحقیقی کاوشوں سے بھارت کے ساتھ آبی معاہدوں کی اصل حقیقت کھول کر رکھدی ہے جسکا فائدہ اٹھانا حکومت کا کام ہے، المیہ یہ ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں پانی کو محفوظ کرنے کے لیے کوئی بڑے یا چھوٹے ڈیم نہیں، قدرت والے نے کالاباغ جیسے قدرتی ڈیم کی نعمت سے پاکستان کو نوازا ہے مگر جب بھی اس کے مکمل کرنے کی بات کی جاتی ہے تو چند سیاستدانوں کو شدید پیٹ میں مروڑ اٹھتا ہے جبکہ آج تک ان کو کشن گنگا ڈیم، بگلیہار ڈیم و دیگر بھارتی ناجائز منصوبوں پر کبھی تکلیف نہیں ہوئی، اس کے علاوہ دریائے کابل جس سے صوبہ خیبر پختونخواہ کے تین اضلاع پشاور، چارسدہ، نوشہرہ کی زراعت وابستہ ہے بھارتی سازش کے تحت اب اس کا پانی بھی افغانستان میں کنٹرول کیا جارہا ہے، اس ضمن میں امریکہ کی معاونت سے بہت سے منصوبے مکمل ہوچکے ہیں جبکہ اب بھارت صرف دریائے کابل پر ایک درجن سے زائد منصوبوں پر کام کررہا ہے جس کے بعد ممکنہ طور پر خیبرپختونخواہ میں صحرائی صورتحال پیدا ہوجائیگی، رونا کس کس بات کا رویا جائے یہاں تو ابتری ہی ابتری ہے جنگلات کی غیرقانونی کٹائی کا حال سب پہ عیاں ہے اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ سالہا سال سے پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا پوری ذمہ داری کے ساتھ رپورٹنگ کرتا آرہا ہے مگر یہ المیہ دیکھیں کہ کبھی کوئی دیانتدارانہ کاروائی نظر نہ آئی، بھارتی آبی جارحیت کا حل کسی معاہدے سے نہیں نکل سکتا، جب تک جموں و کشمیر پہ بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے تب تک اس کی سازشی تھیوری یوں ہی عملی طور پر چلتی رہے گی اب سے پہلے بھارتی جارحیت و کشمیر کے مسئلے پر سابقہ پاکستانی حکمرانوں نے ہمیشہ بہادر شاہ ظفر رہنے پہ ہی اکتفا کیے رکھا جو موجودہ حکومت میں تبدیل ہوکر چلیں اس حد تک تو آیا کہ “اگر حملہ ہوا تو ٹیپو سلطان ورنہ بہادرشاہ ظفر ہی ٹھیک ہیں” ایک لمحے کو سوچئے اگر پاکستان نیوکلیئر پاور نہ ہوتا تو ہندوتوا نے ہمارا کیا حال کرنا تھا، ماضی کی طرح وہ پہلے حملہ کرتے اور بعد میں بیان دیتے، یہ منظم و مضبوط دفاع و فوج ہی کا ثمر ہے کہ ہندوتوا مائنڈسیٹ بھی براہ راست حملے کی جرات نہیں کرپارہا، سب کچھ دیکھتے ہوے موجودہ حکومت کو اب سمجھ آجانی چاہئے کہ عالمی قوتوں کے نزدیک ہماری سفارتی کوششوں اور امن کی آشا کی کوئی قدر و قیمت نہیں، یہاں جو طاقتور ہے وہی سب کچھ ہے اس لیے اب آدھا بہادرشاہ ظفر آدھا ٹیپوسلطان بننے کی بجائے مکمل ٹیپوسلطان بنا جائے تو ہی بہتر ہے کیونکہ بھارت تو کب سے حملہ آور ہے سیاسی، معاشی، سفارتی، ثقافتی، نظریاتی ہر سطح پہ حملہ آور ہے لہٰذا دفاعی پوزیشن کیساتھ ساتھ جارحانہ پوزیشن بھی لی جائے یا کم از کم ہندوتوا کو ضرور اکسایا جائے جو وہ غلطی در غلطی کا مرتکب ہو، اس کے علاوہ سفارتی محاذ کے ساتھ ساتھ داخلی محاذ پہ بہت زیادہ اور عمرفاروقؓ کی سی سختی برتنے میں ہی آفیت ہے، حکومت کی جانب سے اس بات کا عندیہ دیا جارہا ہے کہ “کشمیر کی طرف سے مہاجرین کی آمد کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے” یعنی کہ بھارت کو تو فقط کشمیر چاہئے نہ کہ کشمیری مگر یہ ہجرت اس بار بھی انشاءاللہ باعث رحمت ثابت ہوگی، چودہ سو سال پہلے مکہ سے مدینہ ہجرت ہوئی تو نتیجے میں خالق کائنات نے ریاست مدینہ کی جھولی میں مکہ کو ڈال دیا، بھارت سے ہجرت سے ہوئی تو پاکستان کا انعام ملا، افغانستان سے ہجرت شروع ہوئی تو سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور اب کشمیر سے ممکنہ ہجرت کشمیر کی آزادی کا سورج ثابت ہوگی۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں