نواب اکبر خان بگٹی! “دوسرا حصہ” (راؤ محمد نعمان)

26 اگست 2006 کو کوہلو کے علاقہ تراتانی کے پہاڑی سلسلہ میں فوجی آپریشن کے ذریعے پاکستان کے سابق وزیر دفاع اور داخلہ جبکہ بلوچستان کے سابق گورنر اور وزیراعلٰی نواب اکبر خان بگٹی صاحب کو ان کے سینتیس(37) ساتھیوں اور پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کے اکیس(21)(سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سات{7}) اہکاروں سمیت مروا کر رقبہ کے لہاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ کو ایک فوجی افسر کیپٹن حماد کی غیر انسانی حرکات اور ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی جھوٹی اناً پر قربان کر دیا گیا۔

نواب اکبر خان بگٹی پر الزام لگایا گیا کہ یہ بھارت کے ساتھ مل کر بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنا چاہتے ہیں جبکہ تاریخ میں ہمیشہ موجود رہے گا کہ جب 27 مارچ 1948کو بلوچستان پاکستان کا باقائدہ حصہ بنا تو وہ جس ریفرینڈم کی بدولت تھا اس ریفرینڈم میں سوال یہ تھا کہ بلوچستان بھارت میں شامل ہو یا پاکستان میں نواب اکبر خان بگٹی صاحب نے نہ صرف خود پاکستان میں شمولیت کیلئے ووٹ دیا بلکہ بلوچستان کو پاکستان میں شامل کروانے میں اہم کردار بھی ادا کیا۔ اس مقصد کیلئے قائداعظم محمد علی جناح اور دیگر قائدین پاکستان بھی نواب اکبر خان بگٹی سے ملتے رہے۔ اس لحاظ سے ان کا شمار بانیان پاکستان میں ہونا چاہیے تھا مگر یہاں دو بدکردار افسران ساری تاریخ اور ملک پر احسانات سے بھاری نکلے اور نواب صاحب اور ان کے ساتھیوں کو غدار ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی جو آج تک جاری ہے۔

ان کے مطالبات کی مختلف شکلیں سامنے لائی گئی اور ان مطالبات کی منظوری کی صورت میں ملک کا ٹوٹنا یقینی کہا گیا جبکہ چند سال بعد 27 فروری 2012 کو پاکستان کے اس وقت کے وزیر داخلہ عبدالرحمان ملک نے یہ بیان دیا کے نواب اکبر بگٹی نے پرویز مشرف حکومت سے جو مطالبات کئے تھے ان تمام مطالبات پر سو فیصد عمل درآمد کر دیا گیا ہے۔ یہ بیان پرویز مشرف اور اس کے حواریوں کے منہ پر طمانچہ تھا کیونکہ ان تمام مطالبات کے تسلیم ہونے پر بھی ملک سلامت رہا۔

نواب اکبر خان بگٹی صاحب پر یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ غیر بلوچ افراد کے بلوچستان میں آنے یا کام کرنے کے مخالف تھے۔ جبکہ حقیقت میں ان کے ریاست(جو اسوقت فرد واحد کے قبضہ میں تھی) سے آخری تنازع کی اصل وجہ 2 اور 3 جنوری 2005 کی درمیانی رات ہونے والا سانحہ تھا جس میں ایک غیر بلوچ خاتون ڈاکٹر شازیہ خالد (جو پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کے سوئی میں واقع ہسپتال میں ڈیڑھ سال سے خدمات انجام دے رہی تھیں) سے ایک فوجی افسر کیپٹن حماد کی جانب سے کی گئی جنسی زیادتی تھی۔

ڈاکٹر صاحبہ نے جب پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ میں شمولیت اختیار کی تو انہیں یقین دلوایا گیا تھا کہ ان کے شوہر خالد امان صاحب (جو پائپ لائن انجینیر تھے) کو بھی پی پی ایل میں ملازمت دے دی جائے گی مگر ایسا نہ ہو سکا اور وہ اس سانحہ کے وقت لیبیا میں ملازمت کر رہے تھے۔ شروع میں یہ واقعہ دبانے کی کوشش کی گئی مگر جب ڈاکٹر صاحبہ نے انصاف کیلئے آواز اٹھائی تو انہیں کراچی میں دو مہینے کیلئے نظر بند کر دیا گیا۔

ڈاکٹر صاحبہ نے ایک خط کے ذریعہ سارا واقعہ ایک ٹی وی پروگرام کے میزبان ڈاکٹر شاہد مسعود تک پہنچا دیا جو خود انہی کے شعبہ اور شہر سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے براہ راست ٹی وی پروگرام میں یہ خط پڑھ دیا۔ جب اس سانحہ کی اطلاع نواب اکبر خان بگٹی صاحب تک پہنچی تو انہوں نے اس بربریت کو برداشت کرنے سے انکار کر دیا اور ہر صورت ان خاتون کو انصاف دلوانے کا عہد کیا۔

سانحہ کی تحقیقات شروع ہی ہوئی تھی کہ پرویز مشرف نے کیپٹن حماد کو بے گناہ قرار دے دیا ساتھ ہی نواب صاحب کو دھمکی لگائی کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا کہ ان پر کس ہتھیار سے وار کیا گیا ہے۔ جب ملک کی صدارت پر قابض آرمی چیف کسی کی بے گناہی کا اعلان کر دے تو عام سے تفتیشی پولیس اہلکاروں یا فرانزک ماہرین تفتیش کے مطابق اسی شخص کو کیسے قصوروار قرار دے سکتے ہیں حلانکہ وہ اس واقعہ کی تصدیق پہلے ہی کر چکے تھے۔

ڈاکٹر شازیہ خالد صاحبہ نہ بلوچستان کی رہنے والی تھیں اور نہ ہی کسی بلوچ خاندان سے ان کا کوئی تعلق تھا۔ پھر بھی نواب اکبر خان بگٹی صاحب کا ان کی حمایت میں تمام دنیاوی قوتوں سے ٹکرا جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ نواب صاحب غیر بلوچوں کے بلوچستان میں آنے اور وہاں خدمات انجام دینے کے مخالف نہیں تھے۔ ان کا اصل مطالبہ یہ تھا کہ بلوچستان میں جب کسی منصوبہ پر کام ہو تو عام مزدور مقامی علاقہ سے لیے جائیں یا ان کو ترجیع دی جائے ایسا ہی دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے مطالبہ میں تکنیکی مزدور یا ماہرین کا کبھی ذکر نہیں کیا تھا۔

دیگر مطالبات میں صوبائی خود مختاری، قدرتی وسائل پر صوبائی حکومت کی ملکیت، صوبہ میں بننے والے چھوٹے بڑے منصوبوں کے انتظامی و مالی معاملات پر صوبائی حکومت کے اختیارات اور سب سے اہم مطالبہ بلوچستان میں نئی بننے والی فوجی چھاونیوں کی تعمیر روک کر اس مقصد کیلئے حاصل شدہ اراضی کی اصل مالکان کو واپسی اور ریونیو ریکارڈ کی درستگی کا تھا۔ فوجی چھاونیوں کی تعمیر روکنے والے مطالبہ کی بنیاد کیپٹن حماد کی حرکت اور اس طرح کے واقعات کی آئندہ کیلئے روک تھام تھی۔

ان مطالبات کا جواب 17 مارچ 2005 کو ڈیرہ بگٹی میں نواب اکبر بگٹی صاحب کے گھر اور باقی شہر میں گن شپ ہیلی کاپٹروں سے بمباری سے دیا گیا جس سے ستر (70) کے قریب افراد اپنی جان سے گئے جن میں اکثریت ہندو بچوں اور خواتین کی تھی۔ بمباری کے وقت نواب صاحب بی بی سی کو انٹرویو دے رہے تھے۔ بمباری سے نواب صاحب محفوظ رہے مگر اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ علاقہ میں خفیہ اہلکاروں نے جابجا بارودی سرنگیں بچھا دی اور ان کا الزام بھی نواب صاحب پر لگا دیا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں، صحافی اور حکومتی وفود جس نے بھی نواب صاحب سے ملاقات کی خواہش کی نواب صاحب نے اس دوران بھی انکار نہیں کیا اور اپنے زیر استعمال غاروں تک مہمانوں یا مذاکرتیوں کے سفر کا انتظام بخوشی کیا۔ حکومتی وفد سمیت جو بھی ان سے مل کر آیا اس نے نواب صاحب کو ہی حق پر بتایا۔ ایک وفد وفاقی حکومت کی جانب سے بھی ان سے ملا جس میں چوہدری شجاعت حسین، مشاہد حسین سید، شیری رحمان، نثار اے میمن اور دیگر ممبران سینٹ و قومی اسمبلی شامل تھے۔ جب نواب صاحب سے بات چیت جاری تھی تو سینٹر نثار اے میمن نے ان سے ایک لڑکی کیلئے اتنی سختی دکھانے کی وجہ پوچھی یا اس سے روکا تو نواب اکبر بگٹی صاحب نے فرمایا کہ وہ بگٹی نہیں تمہاری میمنی تھی تم مجھے اس لڑکی کی عزت کے سودا کرنے کا کہتے ہو۔ میں اسے لڑکی نہیں بیٹی کہتا ہوں۔ انہی وفود کے ساتھ خفیہ اہلکار بھی نواب صاحب کی جاسوسی کرتے رہے۔

بالآخر 26 اگست 2006 کو کوہلو کے علاقہ تراتانی کے پہاڑی سلسلہ میں ایک حملہ کیا گیا جس کا آج تک نہیں پتہ کے یہ حملہ کس اوزار سے کیا گیا یہی دھمکی جنرل پرویز مشرف نے لگائی تھی۔ نواب اکبر بگٹی صاحب اصولوں پر قربان ہو گئے انہوں نے سر جھکانے سے سر کٹوانے کو ترجیع دی۔ پہلے دن حکومت اور فوج نے اس سانحہ کو اپنی کامیابی گنوایا۔ تین دن بعد فوجی ترجمان میجر جنرل شوکت سلطان نے پریس کانفرنس کی جس سے ریاست کا کردار اس واردات میں مزید عیاں ہو گیا انہوں نے کہا کہ فوجی اہلکار ایک مقامی مخبر کی اطلاع پر غار میں گئے تھے کہ دھماکہ سے غار بیٹھ گئی جس سے اکبر بگٹی اپنے ساتھیوں سمیت ہلاک ہو گئے ان کے قبضہ سے اہم کاغذات، دس (10) کروڑ روپے، چھیانوے (96) ہزار ڈالر، دو سیٹلائٹ فون، آٹھ کلاشنکوف اور راکٹ بھی ملے۔ جاں بحق فوجی اہکاروں کی میتیں پورے اعزاز کے ساتھ دفنا دی گئی ہیں جبکہ اکبر بگٹی کی میت کی تلاش میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔ کاغذات، کرنسی، ٹیلی فون، اسلحہ اور اہلکاروں کی نعشیں نکل سکتی ہیں مگر نواب صاحب کی نعش کی تلاش میں مشکلات ہیں؟ بعد میں وزیر اعلیٰ بننے والے سردار ثناﷲ زہری صاحب نے حکومت پر الزام لگایا کہ اس نے نواب صاحب پر حملے میں کمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے اسی لیے لاش حوالے نہیں کی جا رہی کیونکہ پوسٹ مارٹم میں اس کے شواہد مل جائیں گے۔ جبکہ موجودہ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور تب کہ جمہوری وطن پارٹی کے ترجمان امانﷲ کنرانی صاحب نے کہا کہ تمام حکومتی اہلکار جھوٹ بول رہے ہیں جو علاقہ بتایا جارہا ہے وہاں کوئی غار نہیں تھے اور نواب صاحب کی لاش کوئٹہ کے فوجی ہسپتال میں موجود ہے۔ ابھی یہ سوال اٹھ ہی رہے تھے کے31 اگست کو میجر جنرل شوکت سلطان نے نعش کے ملنے کی اطلاع دی اور یہ بتایا کہ لاش ایک بڑے پتھر تلے دبی ہوئی تھی اور لاش کی حالت بڑی خراب ہے۔

یکم ستمبر 2006 کو ایک سے زیادہ تالے لگے ہوئے صندوق(پیٹی، ٹرنک یا بکسہ کے الفاظ بھی اس کیلئے استعمال کئے جا سکتے ہیں) کو پندرہ بیس افراد کو کھڑے کرکے جنازہ کروا دیا گیا۔ یہ جنازہ مولوی محمد ملوک بگٹی نے پڑھایا ڈی سی او عبدالصمد لاسی نے اس بند صندوق کو فوری دفنانے کا حکم دیا اور کہا کہ چہرہ دکھانے کی ضرورت نہیں۔ میت کی ٹانگیں سلامت ہیں جبکہ دھڑ بھاری پتھر تلے دب کر خراب ہو گیا ہے۔ جبکہ نواب صاحب کی انگوٹھی، گھڑی، چھڑی اور عینک درست حالت میں مل گئی ہیں۔ حکومتی اہلکاروں کے ان بیانات نے ان سولات کو جنم دیا جن کے جوابات بھی یہ ساتھ ہی بیان کر گئے مگر بیان نہ ہوسکے۔

چند ماہ بعد ہی جنرل پرویز مشرف کا زوال شروع ہوا اور وہ اسے سانحہ کے دو سال کے اندر ہی فوجی وردی اتار کر اور پھر صدارت کو چھوڑ کر تب بھاگا جب اس کا مواخذہ یقینی تھا۔ آج اس سانحہ کو تیرہ (13) سال ہو گئے ہیں۔آج پاکستان ریلوے کی ویب سائٹ کھولیں تو سب سے پہلے جس ٹرین کا نام آئےگا اس ٹرین کا نام نواب اکبر خان بگٹی صاحب سے منسوب کر کہ اکبر بگٹی ایکپریس رکھ دیا گیا ہے۔

آج کوئی ایک بھی سیاست دان یا دانشور نواب صاحب کے خلاف یا پرویز مشرف کے حق میں گفتگو کرنے کو تیار نہیں۔ تب طاقت اور نا جانے کس کس نشہ میں دھت جنرل پرویز مشرف اب مفرور اور اشتہاری مجرم ہے۔ اس کی اور اس کے ضمانتیوں کی بھی جائیدادیں ضبط کرنے کے احکامات عدالتوں سے جاری ہو چکے ہیں۔ اس کے وکیل ہر سماعت پر نیا جھوٹ بول کر اسے بچانے کی کوشش کرتے ہیں ایک بار تو پرویز مشرف نے خود ہی کہہ دیا تھا کہ اسے وہ بیماری ہے جو اور کسی کو نہیں۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں