کربلا کی جنگ اہداف اور نظریات کی جنگ تھی! (نواب علی اختر)

محرم کی دس تاریخ (عاشورہ) کو جب کربلا کی تپتی زمین پر خانوادہ رسولؐ نے اسلام کی حیات کے لئے اپنی زندگیوں کے چراغ ایسے گل کئے کہ ان کی روشنی ہر اندھیرے میں حق کی تلاش کرنے والوں کو آج بھی راستہ دکھاتی ہے۔ ضرورت اگر ہے تو صرف نیک نیتی اور یقین کامل کی۔ آج ہم اپنے چاروں طرف جو آگ اور خون کے سمندر دیکھ رہے ہیں اور مسلم امہ مجموعی طور پر جس تضحیک کا نشانہ بنی ہوئی ہے، اس کی ایک وجہ تو قرآنی تعلیمات اور عملی اسلام سے دوری ہے، اور دوسری بڑی وجہ پیغام کربلا اور فکر حسینؑ کو فراموش کرنا ہے۔ ہم روایات و رسومات میں اپنا تشخص کھو چکے ہیں اور ہماری سوچ پر جیسے جمود طاری ہے اور علم سے جیسے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ جمود بھی ایسا کہ نہ تو اسے کربلا کا پیغام حریت و انقلاب توڑ پا رہا ہے اور نہ ہی استغاثہ حسینی کی صدا اس پر کچھ اثر انداز ہو رہی ہے۔

ہم مسلمانوں کی زندگیاں دو قربانیوں کے درمیان جیسے محصور ہو گئی ہیں۔ ایک قربانی حضرت ابراہیمؑ اور دوسری نواسہ رسول امام حسینؑ کی۔ یہ دونوں عظیم قربانیاں جس میں اطاعت کا پہلو بھی ہے اور شجاعت کا بھی، صبر کا عنصر بھی ہے اور جہاد کا بھی، استقامت کا درس بھی ہے اور وفاداری کا بھی لیکن پھر بھی مسلمان ان تمام اوصاف سے عاری نظر آتا ہے اور یہی سب سے بنیادی وجہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی مسلمان اور اسلامی حکومتیں اپنے محور سے دور بھٹکتی نظر آ رہی ہیں۔ حالانکہ منزل بھی واضح ہے اور اس تک پہنچنے کا ذریعہ بھی۔ وہ ذریعہ ہے کربلا اور عزاداری سید الشہداء۔ امام خمینی نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایسے ہی نہیں کہا تھا کہ ہمارے پاس آج جو کچھ بھی ہے وہ عزاداری سید الشہداء کی وجہ سے ہے۔ اسی چیز کو اقبال لاہوری کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم

نہایت اس کی حسینؑ ،ابتدا ہے اسماعیلؑ

یہ دونوں عظیم قربانیاں اپنی اپنی جگہ ذبح عظیم ہیں اور دونوں دین برحق کی شہادت کی امین بھی ہیں اور حق کی فتح کی ضامن بھی۔ کربلا کی جنگ جسموں اور ظاہری انسانوں کے درمیان نہیں تھی بلکہ یہ جنگ اہداف و نظریات کی جنگ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یزید ہار گیا اور امام حسینؑ شہید ہونے کے بعد بھی کامیاب و کامران ہوگئے۔

سیدالشہداء اور آپ کے انصار و اعوان کی مظلومانہ شہادت نے پورے اسلامی معاشرے میں بیداری کی لہر پیدا کر دی۔ اسلامی رگوں میں تازہ خون گردش کرنے لگا، مظلوموں اور ستم دیدہ لوگوں پر چھایا ہوا سکوت توڑ دیا، ظالموں اور جابروں کے خلاف آوازیں بلند کرنے کی ہمت ملی، لوگوں کے ذہنوں کو بدل ڈالا اور ان کے سامنے حقیقی اورخالص اسلام کا تصور پیش کیا۔ یہ تصادم اور یہ جنگ اگرچہ ظاہری طور پر ایک ہی دن میں تمام ہو گئی لیکن طول تاریخ میں ہمیشہ اس کے ایثار و برکات ظاہر ہوتے گئے اور جوں جوں تاریخ آگے بڑھتی گئی اس کے نتائج سامنے آتے رہے۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیتؑ اطہار کی شناخت اس امت کے مثالی رہبر کے عنوان سے ہوئی۔ پیغمبر اسلام کے بعد اگرچہ مسلمانوں کی تعداد کئی گنا زیادہ بڑھ گئی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمان اصل اسلام سے دور ہوتے گئے۔ مفاد پرست حاکموں نے اپنے ذاتی منافع کے تحفظ کی خاطر حلال محمد کو حرام اور حرام محمد کو حلال قرار دے دیا اور اسلام میں بدعتوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ رسول کی رحلت کے 52 سال بعد جب امام علیؑ نے نماز پڑھائی تو لوگوں نے بہت تعجب سے کہا کہ آج ایسا لگا کہ جیسے رسول خدا نے نماز پڑھائی ہو۔ ایسے میں پیغمبر اکرم کے حقیقی جانشین نے میدان کربلا میں تیروں، تلواروں اور نیزوں کی بارش میں، تیروں کے مصلے پر نماز قائم کر کے اپنی صالح رہبری اور اسلام دوستی کا ثبوت دے دیا اور یہ واضح کر دیا کہ اسلام کا حقیقی وارث ہر وقت اور ہر آن اسلام کی حفاظت کے لئے ہر طرح کی قربانی دے سکتا ہے۔

کربلا حریت پسندی، جوانمردی، شجاعت اور حق کی نصرت کا درس دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گروہ جو استبدادی فکر و فلسفہ کے حامل ہوتے ہیں وہ کربلا اور درس کربلا سے خوف میں مبتلا رہتے ہیں، کیونکہ کربلائی فکر ان کے استبدادی نظام کو ڈھا سکتی ہے۔ جب بھی کوئی کربلا و حسینیت کو اساس بنا کر ظلم اور استبداد کے خلاف اٹھے گا، کامیابی اسکے قدم چومے گی۔ لیکن وائے ہو ان مسلمانوں پر جن کی تعداد تو بہت ہے لیکن وہ نہ تو کربلا سے کوئی درس لیتے ہیں اور نہ ہی عاشورہ ان میں حرارت پیدا کرتا ہے۔ وہ صرف تماشائی بنے ہوئے ہیں، ان کو بھیڑ بکریوں کی طرح جو بھی چاہتا ہے اور جس طرف چاہتا ہے، ہانک کر لے جاتا ہے۔

میں کوئی عالم، مذہبی رہنما، کسی تحریک کا رکن یا کوئی نام نہاد دانشور نہیں، ایک عام آدمی ہوں اور ایک عام آدمی جو سوچتا ہے وہ کہہ نہیں سکتا یا پھر لکھ نہیں سکتا، اسی کی بات لکھ رہا ہوں۔ میرے لئے تو یہ غم اور دکھ اتنا ہی کافی ہے کہ بکھرے ہوئے قبیلوں اور قوموں کو ایک تسبیح میں پرونے والے آخری نبی کی امت خود فرقوں میں بٹ چکی ہے اور استعمار کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہوئی ہے۔ قوم، مذہب، زبان کی بنیاد پر مسلمانوں کی طاقت کو تقسیم کیا جا رہا ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنہیں خدا نے تمام عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا تھا، ان کی ذات کو محدود سے محدود تر کیا جا رہا ہے، تاکہ ان کی تعلیمات سے فائدہ نہ اٹھایا جا سکے، اب تو کچھ جاہل یہ دعویٰ بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ نعوذ بااللہ روز محشر پہلے رسول خدا کا حساب ہو گا۔خدا کی لعنت ہو ان پر جو رحمت اللعالمین کی ذات پاک پر انگلیاں اٹھانے کی جرأت کر تے ہیں۔

ہم نے ان لامحدود ہستیوں کو محدود کرنے کا اور ان کو ان کے مقام سے کمتر حیثیت پر رکھنے کا جو جرم کیا ہے، ہماری مغفرت نہ ہونے کے لئے یہی جرم کافی ہے۔ حسینیت اور کربلا کو مسلمانوں سے دور کر دینا یا ان کے درمیان فاصلے پیدا کر دینا، گناہ کبیرہ سے کم نہیں، حسین سب کا ہے، کربلا کا پیغام سب کا ہے،یہ وہ چشمہ ہے کہ جس سے ہر کوئی سیراب ہو سکتا ہے، کسی کو حق نہیں کہ کسی کو بھی اس سرچشمے سے دور کرے۔کیا کربلا کسی مسلک کی تھی، کیا حسینؑ کسی ایک خاص فرقہ کا ہے؟ نہیں! امام حسینؑ اور رسول کے خانوادے کا صرف اسلام پر نہیں پوری کائنات پر حشر تک کے لئے احسان ہے۔ ورنہ غریب زندہ نہ رہتا اور ملوکیت ہر عہد میں اپنا خراج وصول کرتی رہتی۔ 10 محرم 61 ہجری کو کربلا ختم نہیں بلکہ شروع ہوئی تھی اور آج بھی ہر وقت کے یزید کو شکست دینے کے لئے حوصلہ ہمیں کربلا سے ہی ملتا ہے۔ کربلا جس نے قلت و کثرت کے معنی بدل دیئے، جس نے حق و باطل کا معیار طے کر دیا اور جس نے بے زبان کو زبان دی اور کربلا پر جو جان دیتا ہے کربلا اس کو تاابد زندہ جاوید رکھتی ہے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں