جوان اور محنت (آصف اقبال انصاری)

انسان کی زندگی طفولیت، شبابیت، ادھیڑ عمری اور بڑھاپے کی حدود اربعہ کے درمیان مغلق ہوتی ہے۔
اس زمانہ حیات میں “زمانہ شباب” نہایت ہی قابل قدر اور گراں قدر زمانہ ہوتا ہے۔ جس میں انسان کی قوت جسمانی، صلاحیتِ ذہنی، دانش مندی، بصیرت و دانائی، ہمت، وسعت نظر، آرزوئیں، تمنائیں، جذبات اور امنگیں بے پناہ عروج پر ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رب تعالیٰ کل بروز قیامت جن پانچ امور مہمہ سے متعلق سوال فرمائیں گے، ان میں ایک سوال یہ بھی ہوگا کہ “ہم نے جوانی دی تھی کہاں صرف کی؟”

انسانی زندگی کا یہ حصہ اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ کہا جاتا ہے” بڑھاپے کی زندگی کا دارومدار لڑکپن پر ہے” اور کیوں نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔؟؟

انسانی زندگی کے اس حصے کو بقیہ تمام حصوں پر یوں فوقیت حاصل ہے، جیسے جسمِ انسانی میں ڈھڑ کو۔ اب جب کہ زندگی کے اس حصے کی اہمیت مسلم ہے، تو اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو کہ” زمانہ شباب، زمانہ محنت ومشقت ہے”۔ بلکہ یوں بھی کہا جائے تو بے محل نہ ہو کہ محنت و کوشش، زندگی کے اسی حصہ(شباب) کے ساتھ ججتی ہے۔

یہی وجہ ہے علامہ اقبال مرحوم اکثر، نوجوانوں کی عقابی روح کو بیدار کرتے نظر آتے ہیں۔ جیسے: کبھی نوجوانوں کو شاہین سے تشبیہ دیتے ہیں، تو کبھی مرد مومن کی صورت میں دیکھتے ہیں اور اپنی تمام تر توقعات ان سے وابستہ رکھتے ہیں۔

جوانوں کو میری آہِ سحر کردے
پھر ان شاہینوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
میرا نورِ بصیرت عام کر دے

نوجوانوں کی قوت و کردار کی اہمیت کو دنیا کا ہر معاشرہ تسلیم کرتا ہے۔ اور معاشرہ ان سے کئی امیدیں وابستہ رکھتا ہے۔ یہی نوجوان جب جذبے سے سرشار ہو کر کسی مقصد کے حصول کے لیے یکسو ہو جاتے ہیں، تو ایسے محیر العقول کارنامے وقوع پذیر ہوتے ہیں کہ دنیا ششدر رہ جاتی ہے۔

بس بات اتنی سی ہے کہ ایک طرف جوانی اور جوان اور دوسری طرف محنت۔ زندگی کی ان سانسوں میں یہی وقت ہوتا ہے کچھ کرنے کا۔ یہی عمر ہوتی ہے کچھ بننے کے لیے۔ یہی وہ نازک موقع ہوتا ہے کہ سنبھلنے والے سنبھل کر تا دمِ آخر کامیابیوں کے سمندر میں غوطہ زن ہوتے ہیں اور قیمتی جوہر کا خزانہ ذخیرہ کر بیٹھتے ہیں۔

نہ سنبھلنے والے ناکامی کے دلدل میں غرق ہو جاتے ہیں اور اپنی جوہر حیات خود اپنے ہاتھوں سے ضائع کردیتے ہیں۔بس تقاضا یہ ہے کہ سفر حیات کا یہ قیمتی توشہ جو نوجوانی کی حُسنِ صورت میں ہے، امید بر آئے۔

جہاں تک وطن عزیز کی آبادی کا تعلق ہے۔ 60 فیصد آبادی نوجوانوں کی ہے۔ مگر افسوس! ایک بڑی تعداد غلط راہ روی اور عفریتی چالوں کا لقمہ بن چکی ہے۔

یاد رکھیں! کسی قوم قبیلے کی بنیادوں میں اگر دراڑیں ڈالنا مقصود ہو تو سب سے آسان حربہ اس قوم کی نسلِ نو پر حملہ کردیا جائے۔ اس قوم کی یوتھ کو نشانہ بنایا جائے۔ نوجوانوں کو راہ راست سے بھٹکا کر اس راستے کا مسافر بنادیا جائے کہ واپسی کی امید ختم ہوجائے۔ اسی مشن اور مقصد کو لے کر آج مغرب اپنی تمام تر قوتوں کا نشانہ یوتھ کو بنا رہی ہے۔

اندریں حالات نوجوانوں کو اپنی حیثیت پہچاننا از حد ضروری ہے۔ اے نوجوانِ مسلم! کبھی تدبر بھی کیا ہے تو نے۔۔۔۔۔۔۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں