طلباء یونین بحالی اور ہمارا اجتماعی رویہ…! (ساجد خان)

ان دنوں تعلیمی اداروں میں طلباء یونین کی بحالی کی تحریک کافی زور و شور سے جاری ہے، یہ تحریک ویسے تو بہت پرانی ہے مگر اس میں جان اس وقت پڑی جب لاہور میں فیض فیسٹیول میں شریک چند طلباء و طالبات نے پریس کلب کے سامنے طلباء یونین کی بحالی کے لئے مظاہرہ کیا، مظاہرے کی مقبولیت کی اہم وجہ ایک طالبہ کا انگریزوں سے تحریک آزادی کے زمانے کا مشہور ترانہ پڑھنا بھی ہے، جس کے بعد بی بی سی اردو، دی انٹیپینڈنٹ جیسی عالمی میڈیا نے بھی اس طالبہ کا انٹرویو کرنا ضروری سمجھا، جس سے تحریک طلباء یونین کو مزید تقویت ملی اور یوں یہ تحریک الیکٹرانک میڈیا سے ہوتے ہوئے اب سیاسی سطح پر بھی توجہ حاصل کرتی نظر آ رہی ہے۔

کل بروز 29 نومبر کو پورے ملک میں طلباء یونین کی بحالی کے لئے مظاہرے کئے گئے، خصوصاً کراچی اور لاہور میں شرکاء کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کر کے اس مطالبے میں مزید وزن ڈال دیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حکومتی وزراء بھی اس مطالبے کے حق میں بیان دینے پر مجبورہو گئے جبکہ اپوزیشن رہنماؤں نے بھی اس مطالبے کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر بھی اس تحریک کے حق میں زور و شور سے آواز بلند کی جا رہی ہے لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اس تحریک کا مخالف نظر آ رہا ہے، تحریک کے مطالبے کی وجہ سے نہیں مگر ایک لڑکی کی وجہ سے کیونکہ اس طبقے کے مطابق یہ لبرل طبقہ ہے جو مادر پدر آزادی چاہتا ہے کیونکہ اعتراض کرنے والوں کے نزدیک لبرل ازم مذہب کا مخالف ہوتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے، طلباء یونین پاکستان میں پہلے بھی رہی ہیں جن کا ماضی میں آمروں کے خلاف کامیاب تحریکیں چلانے میں نہایت اہم کردار رہا ہے اور شاید اسی خوف کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں یونینز پر پابندی عائد کر دی گئی حالانکہ باقی ہر شعبے میں، یہاں تک کہ سرکاری اداروں میں بھی یونینز باقاعدہ طور پر کام کر رہی ہیں۔

کلرک ایسوسی ایشن، پی آئی اے ایسوسی ایشن، پائلٹ ایسوسی ایشن، وکلاء ایسوسی ایشن، اساتذہ ایسوسی ایشن اور پیرا میڈیکل اسٹاف ایسوسی ایشن، فیکٹریوں میں، یہاں تک کہ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی ایسوسی ایشن کے ساتھ ساتھ تقریباً ہر شعبے میں ہی آپ کو کوئی نا کوئی یونین نظر آۓ گی۔ پھر صرف طلباء یونین پر پابندی عائد کرنے کی واحد وجہ اقتدار میں بیٹھے افراد کو خوف ہی ہو سکتا تھا۔

تعلیمی اداروں میں طلباء یونین ایک اچھا اقدام ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم ذہنی طور پر اس کے لئے تیار بھی ہیں یا نہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ساٹھ اور ستر کی دہائی تک تعلیمی اداروں میں طلباء یونین متحرک تھیں لیکن اس وقت اور آج کے دور میں ہمارے اجتماعی شعور میں زمین و آسمان کا واضح فرق موجود ہے۔ تب طلباء کا مقصد اپنے تعلیمی اداروں میں سیاست اور بہتری کی طرف توجہ تھی مگر جوں ہی ملک میں طلباء نے اقتدار میں بیٹھے آمروں کے خلاف کامیاب تحریکیں چلائیں، سیاسی جماعتوں نے انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی اور آج جمعیت، ایم ایس ایف اور پی ایس ایف کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر بھی طلباء تنظیمیں موجود تو ہیں مگر ان کے مقاصد کچھ اور ہیں، وہ تعلیمی اداروں کو صرف اپنے کارکن بھرتی کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور تعلیمی اداروں میں سیاسی جماعتوں کی موجودگی کی اہم وجہ بھی طلباء یونینز کا نا ہونا تھا اور اسی خلاء کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تعلیمی ادارے سیاسی اکھاڑے بنتے چلے گئے۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ طلباء یونینز پر پابندی کے باوجود ریاست سیاسی اور مذہبی طلباء تنظیموں کو تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں کو روکنے میں بالکل ناکام رہی۔

ماضی میں پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کے کردار سے کون واقف نہیں ہے، اجارہ داری کی جنگ میں کتنے نوجوان اپنی جانوں سے گئے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کی طلباء تنظیم کے مظالم آپ کے سامنے ہیں، فاروق دادا جیسے قاتل اور غنڈے انہی طلباء تنظیموں کی پیداوار تھے، الطاف حسین اور ایم کیو ایم جیسی سفاک تنظیم بذات خود تعلیمی اداروں کی ہی پیداوار ہے، کئی دہائیوں تک الطاف حسین کی جو کراچی میں دہشت رہی اگر ہم اس میں سے طلباء تنظیم کو نکال دیں تو پھر کچھ بھی نہیں بچتا۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج کے بہت سے نامور سیاستدان ماضی کی طلباء یونینز ہی کی بدولت ہیں جو اپنی محنت اور جدوجہد سے اس مقام پر پہنچے ہیں جن میں شیخ رشید، خواجہ سعد رفیق اور جاوید ہاشمی کے علاوہ موجودہ سیاست دانوں کی ایک بہت بڑی تعداد گراؤنڈ لیول سے اوپر آۓ جس میں تعلیمی اداروں کی طلباء یونینز نے اہم کردار ادا کیا، جیسے جہانگیر بدر مرحوم کی شخصیت ہمارے سامنے ہے لیکن یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ سینکڑوں طلباء وہ بھی ہیں جو انہی یونینز کی وجہ سے غلط راہوں پر چل پڑے یا بے موت مارے گئے۔

آج اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ جس شعبے میں بھی یونین مضبوط ہوئی،اس ادارے کی تباہی شروع ہو گئی بلکہ وہ یونین مسائل حل کرنے کے بجائے الٹا خود ہی بڑا مسئلہ بن گئی۔

پی آئی اے کبھی دنیا کا بہترین ادارہ سمجھا جاتا تھا جس سے دنیا سیکھنے کی کوشش کرتی رہی مگر آج امارات ائر لائن جو کہ پی آئی اے کی کاوشوں سے وجود میں آئی وہ دنیا کا بہترین ادارہ سمجھا جاتا ہے جبکہ پی آئی اے اپنے ملک میں بھی مذاق بن کر رہ گئی ہے،جب بھی اس کو بہتر کرنے کی کوشش کی جاتی رہی فوراً ہی یونینز ہڑتال پر چلی جاتی ہیں کیونکہ ان کے مفادات ہی پی آئی اے کی زبوں حالی میں چھپے ہیں۔

پاکستان اسٹیل مل کی اگر ہم بات کریں تو وہاں بھی مسئلہ یونینز ہی ہیں جو نہیں چاہتیں کہ یہ ادارہ بکے یا بہتری آئے۔

افتخار چوہدری کی وکلاء تحریک سے پہلے بھی وکلاء یونینز موجود تھیں لیکن کیا اس وقت ماحول یہی تھا جو آج ہے، جب ان یونینز کو عدالتی احاطے سے نکال کر باہر لایا گیا تو آج وکلاء خود بھی اس بات کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں کہ کالا کوٹ بدمعاشی کی علامت بن گیا ہے، ہر سال عدالتوں میں کتنی چھوٹی بڑی ہڑتالیں ہوتی ہیں اس کا شمار ہی مشکل ہے بلکہ اب تو ان یونینز سے جج صاحبان بھی محفوظ نظر نہیں آتے، جب دل چاہا جج کو بھری عدالت میں گالیاں دے دیں، کرسیاں چلنے لگتی ہیں یہاں تک کہ عدالتوں پر تالے لگا کر زبردستی بند بھی کروا دی جاتی ہیں۔

ہمارے ملک میں ایک ایسا شعبہ تھا جسے مسیحا سمجھا جاتا تھا، جنہیں واقعی میں پڑھا لکھا اور سلجھا طبقہ قرار دیا جاتا تھا اور وہ ڈاکٹرز تھے لیکن گزشتہ چند سالوں میں جب سے اس شعبے میں بھی یونین مضبوط ہوئی ہے تب سے ہسپتالوں میں ہڈیاں جوڑنے کے بجائے ہڈیاں توڑنے کا کام کیا جاتا ہے، وہ بھی اب چاہتے ہیں کہ صحت کا محکمہ ان کی مرضی کے مطابق چلے نا کہ ہم ریاست کے قوانین پر عمل کریں۔

میں بذات خود تعلیمی اداروں میں طلباء یونین کی بحالی کے خلاف نہیں ہوں لیکن مجھے یہ خوف ہے کہ کل اگر ان تنظیموں نے بھی یہی راہ اپنا لی تو پھر کیا ہو گا، کیا ہم ان تنظیموں کو کنٹرول کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، میرا خیال ہے کہ نہیں کیونکہ نوجوان طبقہ ہر معاشرے کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتا ہے اور اگر انسان کی ریڑھ کی ہڈی ہی خراب ہو جائے تو پھر آپ مکمل طور پر معذور ہو جاتے ہیں۔

آج ہمارے تعلیمی اداروں میں طلباء یونین پر پابندی کے باوجود بھی تنظیمیں کام کر رہی ہیں،سیاسی وابستگی کے نام پر، مذہب کے نام پر، فرقے کے نام پر، یہاں تک کہ قوم اور نسل کی بھی الگ الگ سے طلباء تنظیمیں موجود ہیں،کیا یہ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو پائیں گی۔

طلباء یونین کی بیشک ضرورت ہے مگر اس سے پہلے ہمیں شعور کی تربیت کی اشد ضرورت ہے ورنہ اس کے بغیر یہ تنظیمیں ہمارے معاشرے کے لئے بارود بن کر جائیں گی،ہمیں پہلے ایک قوم بننے کی ضرورت ہے۔

طلباء و طالبات کو پہلے یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ یونینز ہوتی کس لئے ہیں، اس سے آپ نے اپنے اور طلباء و طالبات کے مسائل حل کرنے ہیں نا کہ اس پلیٹ فارم کو غلط استعمال کرنا ہے۔

میں مانتا ہوں کہ آج طلباء یونین کی بحالی کے لئے جدوجہد کرنے والے باشعور نوجوان ہیں اور ان کے مقاصد اچھے ہیں مگر کیا یہ دوسری تنظیموں کا مقابلہ کر پائیں گے، ان کو ختم کرنے یا پس پردہ لے جانے کے لئے مخالفین کے پاس نہایت ہی کارآمد ہتھیار موجود ہے، یہ لبرل ہے، اس نے توہین کی ہے، یہ گستاخ ہے اور پھر سب کچھ ختم۔

کل کے مظاہرے میں مشعال خان کے والد بھی شریک ہوئے اور انہوں نے بھی اس مطالبے کی حمایت کی مگر ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ مشعال خان کے قتل میں بھی طلباء تنظیموں کے رہنما اور کارکن ہی شریک تھے، ہزاروں طلباء کی موجودگی کے باوجود چند سو افراد نے سب کے سامنے ایک نوجوان پر توہین کا الزام لگا کر قتل کر دیا مگر کسی نے ان کو روکنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
اب اگر اسی انتہا پسند طبقے نے طلباء یونین کی بحالی کے بعد یونینز کو زور اور طاقت سے ہائی جیک کر لیا تو انہیں کون کنٹرول کر پائے گا۔
آج اگر کراچی میں کسی وکیل یا ڈاکٹر پر سچی یا جھوٹی ایف آئی آر درج ہو جائے تو کوئٹہ میں بھی عدالتوں اور ہسپتالوں میں ہڑتال ہو جاتی ہے۔

پاکستان میں واحد پولیس کا محکمہ تھا جس سے عوام کو شکوہ تھا کہ وہ عوام پر بلا جواز تشدد کرتی ہے مگر اب عدالتوں میں، سڑکوں پر، ہسپتالوں میں بھی عوام کو مار پڑتی نظر آتی ہے بلکہ پولیس بھی ان کے تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔ یہی راستہ طلباء یونینز نے اپنا لیا تو ریاست کا کیا رویہ ہو گا،کیا ریاست عوام کو محفوظ کر پائے گی یا باقی یونینز کی طرح انہیں بھی کھلی چھٹی حاصل ہو گی جبکہ طلباء باقی سب شعبوں سے زیادہ انرجیٹک اور جذباتی طبقہ ہے۔

یہ نا ہو کہ ایک بار پھر ماضی کو دہرایا جائے بالکل اسی طرح جب قائد اعظم اور دوسرے رہنما پاکستان بنانے کی جدوجہد کر رہے تھے تو ایک ٹولہ ایسا بھی تھا جو پاکستان اور قائد اعظم کے خلاف فتوے دے رہے تھے مگر جوں ہی پاکستان وجود میں آیا، وہی طبقہ ملک کا مالک بن بیٹھا جبکہ ملک بنانے کی جدوجہد کرنے والے پیچھے کر دیئے گئے، آج وہی مولوی اور جاگیردار پاکستان پر حکمرانی کر رہے ہیں جن کے آبا و اجداد پاکستان مخالف تھے،کل اگر ان طلباء و طالبات کے ساتھ بھی یہی ظلم ہوا تو کیا ہو گا۔

طلباء یونین ضرور بحال ہونی چاہئیں مگر اس سے پہلے سب پہلوؤں پر غور بھی کر لینا چاہئے، ہماری نوجوان نسل کو تربیت کی ضرورت ہے،شعور چاہئے اس کے بعد وہ طلباء یونین کی ذمہ داری بخوبی سرانجام دے سکیں گے جبکہ بغیر کسی پالیسی کے یونینز بحالی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے اور ہم معاشرے میں ایک اور طاقتور مافیا کو پیدا کرنے کی سنگین غلطی کریں گے جس کے نتائج ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں