پاکستانی کرکٹ، ہاکی کے نقشِ قدم پر ! (شیخ خالد زاہد)

ہمیں پڑھایا گیا کہ پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے لیکن ہم ساری زندگی کرکٹ کھیلتے اور دیکھتے چلے جا رہے ہیں اور اب ہمارے بچے بھی اسی نقش قدم پر رواں دواں ہیں۔ اس بات کی ساری دنیا گواہی دے گی کہ ایک وقت تھا جب پاکستان ہاکی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا تھا، بڑی بڑی ٹی میں ہمارے سامنے ادھر ادھر بھاگتی دیکھائی دیتی تھیں۔ آخری دفعہ ہاکی کے افق پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم 1994 کے ہاکی کے عالمی کپ اوراسی سال منعقد ہونے والی چیمپینز ٹرافی میں کامیابی پر دیکھا گیا تھا۔ پھر معلوم نہیں کیا ہوا کہ ہاکی نے اپنی تنزلی کی جانب سر جھکائے سفر شروع کردیا، ہاکی کی مختصر تاریخ میں پاکستان بد ترین صورتحال سے دو چار ہوا جب 2014 کے عالمی مقابلوں کیلئے کالیفائی نہیں کر سکا اسی طرح اولمپکس کھیلوں میں 2016 کے بعد اب 2020 کیلئے بھی اپنی شرکت کو یقینی نہیں بنا سکا ہے۔ تاریخ میں رقم کئے گئے ریکارڈز آج بھی پاکستان کو ہاکی کی مختلف مقابلوں کی فہرستوں میں نمایاں رکھے ہوئے ہیں۔ آج ہماری ہاکی ٹیم کو بڑے مقابلوں کیلئے اپنی اہلیت ثابت (کولیفائینگ) کرنے والے مقابلوں میں شرکت کرنی پڑتی ہے۔ ایسا نہیں کہ ہاکی کو حکومتی سرپرستی نہیں ہے یا پھر شائد زیادہ ہی ہے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن موجود ہے اور ایسا بھی نہیں کہ کوئی قومی تربیت گاہ نہیں ہے یا کوئی بورڈ نہیں یا کوئی چناءو کمیٹی نہیں۔ سب موجود ہیں لیکن کرتے کیا رہے ہیں یہ تو وہ خود بھی آج تک واضح نہیں کرسکے لیکن میدان میں ہاکی ٹیم نے ہمیشہ ہی سب کی کلئی کھول کر رکھ دی ہے خصوصی طور پر اپنے چناءو کی۔ آج پاکستان عالمی نمبروں کی فہرست میں سترویں نمبر پر سر جھکائے موجود ہے یعنی پہلی دس میں بھی موجود نہیں ہے، خواتین کی ہاکی ٹیم تو عالمی رینکنگ میں شامل ہی نہیں ہیں۔ ہاکی کی تاریخ کے بڑے بڑے نام ہاکی کی بحالی کیلئے ادارے سے وابسطہ ہوئے لیکن ہاکی کی گرتی ہوئی ساکھ کو کوئی بھی ابتک سہارا نہیں دے سکا ہے۔ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جو ہاکی کو پاکستان میں بحال ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے کیا ہم اس کو بھی بیرونی مداخلت کی نظر کرسکتے ہیں یا پھر کوئی غیبی طاقت ہے جو پاکستان کو اپنے قومی کھیل سے دور کرتی لے جا رہی ہے۔ تین ایسی وجوہات ہیں جو تمام تر سہولیات کے باوجود ہاکی کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھلنے کا موقع نہیں دے رہی ہیں۔ اول تو کھلاڑیوں کے چناءو میں کسی بھی قسم کی سفارش کو مکمل طور پر ممنوع قرار دیا جائے، دوئم کھیل اور کھلاڑیوں کی مراعت میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے اور ممکن ہوسکے تو کچھ سالوں کیلئے اسکول کی سطح پر ہاکی کے مقابلوں کو لازمی قرار دیا جائے سب سے آخیر میں یہ کہ زیادہ سے زیادہ ہاکی کے مقابلے منعقد کئے جائیں جن میں کارپوریٹ اور ملٹی نیشل اداروں کو بھی شامل ہونے پر آمادہ کیا جائے۔ جس طرح حکومت وقت نے اقتصادی بحالی کیلئے ہنگامی اقدامات کر رکھے ہیں پاکستان میں بہت سارے ایسے ادارے ہیں جو ان ہنگامی اقدامات کے منتظر ہیں۔ موجود کرکٹ کا حال دیکھ کر خوف سا آنے لگا اور کرکٹ کی محبت میں ہاکی کا خیال آیا تو ہاکی کی تنزلی کے اسباب کا تانا بانا بھی کرکٹ میں بنتا محسوس ہونے لگاجسکی وجہ سے ہاکی کے بھی حالات کا تذکرہ کر دیا ہے۔

معلوم نہیں کب سے لیکن جب سے دیکھ رہے ہیں تو ترقیاتی کام جاری ہے کا بورڈ آویزاں ہے، جب اس بورڈ کو ہٹایا جاتا ہے تو کارگردگی کبھی تو پہلے سے بھی بری ہوجاتی ہے۔ یہ سڑکوں پر آویزاں بورڈ کی بات نہیں ہورہی، بات ہورہی ہے پاکستان کرکٹ بورڈ کی جو کہ ہمیشہ سے ہی اپنی ذاتی (عہدوں ) بقاء کی جنگ لڑتا دیکھائی دیتا رہتا ہے۔ چلیں یہ بھی مان لیتے ہیں کہ نجم سیٹھی صاحب نے پاکستان میں کرکٹ کی بحالی اور پاکستان سپر لیگ کیلئے بھرپور توانائی لگائی اور بہت حد تک وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو نسیم اشرف صاحب جیسے سرپرست بھی میسر آئے کہ جنکی حکمت عملی یہ تھی کہ پاکستان کرکٹ اب کوئی سپر اسٹار نا بناسکے، وہ بھی اپنی حکمت عملی میں اپنے دور تک تو کامیا ب رہے۔ بھلا ناموں میں کیا رکھا ہے بھلا باب وولمر کی کوچنگ میں عالمی کپ کھیلنے جانے والی ٹیم ایک طرف تو اپنی کارگردگی کی بھینٹ اپنے کوچ (باب وولمر) کو ہی چڑھا آئی تو دوسری طرف غیرملکی تربیت دینے والوں کا راستہ کھول دیا گیا اور بورڈ کے خزانوں کے منہ ان پر کھول دئے گئے۔ پھر عہدوں کی بندربانٹ کبھی چیئر من اور صدر ہوتے تھے اب چیئر مین اور چیف ایزیکٹو تعینات کر دئیے گئے ہیں اور وہ بھی بیرون ملک سے منگوا کر۔ آسائشوں سے بھرپور کمروں میں بیٹھ کر کھیلی جانی والی کرکٹ تو وہی لوگ جانتے ہیں جو کسی بھی طرح سے اسکا حصہ رہے ہوں یا ہیں۔ پھر کرکٹ اتنی کاروباری ہوگئی ہے کہ کھلاڑیوں کیلئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ کس کے ساتھ معاہدہ کریں اور کس کو انکار کریں پھر ملک کو پڑنے والی ضرورت اس کاروبار میں رخنا بن کر آجاتی ہے۔ ویسٹ انڈیز کے نامی گرامی کھلاڑیوں کو لے لیجئے جنہوں نے بین الاقوامی کرکٹ میں کم وقت میں زیادہ نام بنایا اور اب معلوم نہیں کتنا ہی عرصہ بیت گیا کہ اپنے ملک کیلئے کوئی میچ کھیلے ہوں۔ دنیائے کرکٹ میں ایسے بہت سارے کھلاڑی سپر اسٹار بنے جا رہے ہیں جنہوں نے اپنے ملک سے تو کرکٹ کھیلی نہیں لیکن لیگز میں اپنا لوہا منوالیا ہے۔

ہمیں تو میدان میں دیکھائی دینے والی کرکٹ سے غرض ہے۔ ایک بات یہاں موضوع سے ہٹ کر لکھ رہا ہوں اور وہ یہ کہ کرکٹ کی بقاء کی جنگ لڑنے والوں کے کچھ اضافی مفادات نے انہیں اس قسم کی جنگ لڑنے پر اکسایا ہوگا، ہمارے یہاں شائد ہی کوئی اداروں کی بقاء کیلئے اپنی مخصوص آمدنی میں کام کر نے پر آمادہ ہوتا ہو (مخلص لوگوں سے شدید معذرت)۔ آنے والے یہی کہتے رہے جس کی بازگشت آج بھی سنائی دے رہی ہے کہ ہم کرکٹ کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں (یعنی موجودہ ٹیم کی کارگردگی اور اسکے ساتھ وابسطہ عملے کی کارگردگی پر ھیان نا دیں) لیکن آج تک کوئی اس ڈھانچے کو قبر سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکاکہ جسے بہترین بنانا ہے۔ یہ لوگ سارا وقت ساری توجہ اپنی اپنی کرسیاں بچانے میں گزار دیتے ہیں اور پھر آنے والے کیلئے بھی یہی کام چھوڑ جاتے ہیں۔

پاکستانی کرکٹ نے سرفراز احمد کی قیادت میں عرصہ دراز کے بعد انگلستان کی سرزمین پر ۷۱۰۲ میں چیمپینز ٹرافی جیتی یہاں فائنل میں پاکستان کا مقابلہ بھارت سے تھا ۔ بھارت کی ٹیم کھیل کے میعار کے لحاظ سے دنیا کی صف اول کی ٹیم ہے ایسے میں جیت کا لطف دوبالا ہوگیا۔ سرفراز کی قیادت میں پاکستان نے ٹی ٹوئنٹی میں اول نمبر پر ایسا قبضہ کیا جو یک بعد دو سریز ہارنے کے باوجود برقرار ہے ۔ ایسے میں سرفراز کو قیادت سے سبکدوش کرناکہاں کی دانشمندی ثابت ہوئی۔ دوسری طرف کوچ اور چیف سیلیکٹر کو بھی تبدیل کرتے ہوئے دونوں اہم ترین ذمہ داریاں ایک ہی فرد یعنی منظور نظر مصباح الحق کی جھولی میں خطیر معاوضے کیساتھ ڈال دی گئیں۔ سوال یہ بنتاہے کہ کیا مصباح الحق بھی یہ کہینگے کہ مجھے کچھ وقت لگے گا۔ آپ کو تو ابھی کچھ ہی وقت گزرا ہے، آپ تو اس نظام سے بہت اچھی طرح سے واقف ہیں اور بہت اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ آسٹریلیا میں کس قسم کی کرکٹ کھیلی جاتی ہے۔ یہ بات قطعی قابل برداشت نہیں کہ ہر کوئی یہ کہتا پھرے کہ نئے لڑکوں کو موقع دیا ہے، جناب آپ سارے نئے لڑکوں کو کیوں ایک ساتھ ہی آزمانا چاہتے ہیں کچھ جگہیں تو ایسی ہوتی ہیں جہاں آپ کو اپنی دھاک بیٹھانی ہوتی ہے آپ نے وہاں بھی معصوم سے بچوں کو لڑنے کیلئے کھڑا کر دیا۔ ابھی فاسٹ بولر حسنین کو آپ نے پوری طرح سے موقع فراہم نہیں کیا دو اور نئے تیز بولرز کو کیپ دے دی دوسری طرف دیکھ لیں آسٹریلیا نے کتنے کھلاڑیوں کو کیپ دئے اور آپ نے کتنے کھلاڑیوں کو۔

چلیں ایک کام تو اچھا ہوگیا کہ ہماری بین الاقوامی کوچ سے جان چھٹی لیکن چناءو کمیٹی کا سربراہ بھی الگ سے رکھنا چاہئے تاکہ کسی قسم کے شکوک و شبہات جنم ہی نا لے سکیں۔ یہاں ہاکی کی ایک اور قدر مشترک دیکھائی دے رہی ہے اور وہ ہے پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکریٹری شہباز احمد (سینئر) جنہوں نے حال ہی میں اپنے عہدے سے دلبرداشتہ ہوکر استعفی دیا ہے جبکہ شہباز ہاکی کے میدان میں واقعی شہباز تھے ادھر مصباح الحق جنہوں نے کرکٹ کے میدان میں تو بڑے جھنڈے گاڑے اور ٹیم کو اسوقت سہارا دیا تھا جب ٹیم کی کشتی کوئی سنبھالنے کو تیار نہیں تھا اب مصباح کیا اب ان ذمہ داریوں کو بھی احسن طریقے سے نبہا پائینگے۔ سرفراز کو لائے بھی مصباح تھے اور اب نکلوابھی مصباح نے دیا ہے۔ سرفراز سے تو جیسے جان چھڑائی گئی ہو لیکن فواد عالم نے کسی کا کیا بگاڑا انکی مسلسل کارگردگی دوبارہ موقع فراہم کئے جانے والے احمد شہزاد اور عمر اکمل سے کہیں زیادہ قابل ستائش ہے اور مسلسل دیکھائی دے رہی ہے لیکن کیا وجوہات ہیں کہ انہیں ٹیسٹ میچز کیلئے بھی منتخب نہیں کیا جا رہا۔ ہم دنیا کی ٹیموں کی کامیابیوں کو تو سرہاتے ہیں لیکن ان کامیابیوں کے پیچھے پوشیدہ حکمت عملیوں تک نہیں جاتے بھلا آسٹریلیا نے کسی ۶۱ سالہ تیز بالر کو کھلایا ہے نہیں وہ کھلاڑی کو پورا کھلاڑی بنا کر میدان میں اتارتے ہیں انہیں عمر سے نہیں کارگردگی اور ذہنی پختگی چاہئے ہوتی ہے۔ موجودہ شکست سے سمجھ لیں کہ اس طرح سے ٹیم کو توڑ پھوڑ کے آپ جیت نہیں سکتے کھیل تو تقریبا پچاس ممالک کھیل رہے ہیں۔ اس بات کا خاص خیال رہے کہ کوتاہیوں کا آزالہ یہیں کر لیا جائے تاکہ مستقبل قریب میں ہ میں پھر ایسی عبرت ناک شکست کا سامنا نا کرنا پڑے اور ہم کرکٹ کو بھی ہاکی کی طرح تنزلی کے راستے پر چڑھتے دیکھیں (خاکم بدہن)۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں