سردیوں کی شامیں ہوں یا بدلتی رتوں کا المیہ، یا دھندیں لئے ہوئے کسی کے وعدے، یا کہ کسی آنکھ میں اترتے سنہری خواب، دراصل ان تمنائوں کا پژمردہ ہوتے ہیں جو نجانے کب ہاتھ سے پھسلی اور کھو گئیں اور سب کچھ جامد ہو کر رہ جاتا ہے۔ جبکہ دسمبر، صداں، وفاں ، دعاں اور تمناں کا موسم ہے۔
نجانے کتنی آرزوئیں، تمنائیں اور خواب کسی لکھاری کی قلم سے صفحہِ قرطاس پہ اترنے لگتے ہیں۔ خیالِ تازہ خوشبودار ہوا کے سنگ سفر کرنے لگتا ہے تو بارش کے قطرے، ہوا کے ٹھنڈے جھونکے بھی تازگی کے ساتھ ساتھ جمود اور ٹھہری ہوئی زندگی میں متحرک ہو جاتے ہیں۔
معلوم نہیں کیوں سردیوں کے موسم میں سکون سا ماحول میں سرایت کرنے لگتا ہے۔زندگی مصنوعی موسموں سے دور ہوکر فطرت کے قریب آنے لگتی ہے اوریہ ابدی اصول ہے کہ فطرت کے سکون جیسی طمانیت تو انسان نے کبھی بنائی ہی نہیں۔ پتہ نہیں رات کے کس پہر گرم رضائی میں ان پر سکون لمحات نے نیند کی وادی میں پہنچا دیا اور کئی مناظر، واقعات و لمحات سمٹ کر میری بند آنکھوں کے دریچوں پہ کسی سینما کے پردے پہ دوڑتے ہوئے، بولتے ہوئے مختلف کردار ابھر کر سامنے آ گئے اور خود کو کسی ہمزاد کی طرح ان کرداروں کے ساتھ ساتھ محو سفر پایا۔
گھر سے باہر نکلا تو حیرت میں ڈوب گیا، محلہ بالکل صاف ستھرا اور دھلا ہوا نظر آیا۔ کچرا تو ڈھونڈے ہی نہیں مل رہا تھا۔ ہر گھر کے مرکزی دروازے پہ کچرا ڈالنے کے لیئے ایک ڈرم رکھا ہوا تھا۔ محلے کی تقریبا دکانوں کے پھٹوں کے دائیں بائیں پھولوں کے گملے اور سر سبز پتوں والے پودے رکھے ہوئے ملے۔
خاموشی ایسی کہ سانس کی آواز بھی صاف سنائی دے۔ میں سامنے والی دکان پہ جانے لگا تو ہیلمٹ پہنے ہوئے موٹر سائیکل سوار ایک نوجوان نے موٹر سائیکل روک کے ہاتھ سے اشارہ کیا اور تعظیما کہا کہ گزر جائیں۔ بڑے آرام کے ساتھ میں متعلقہ دکان پر موبائل کا کارڈ ڈلوانے چلا گیا۔
دکان دار نے مسکراتے ہوئے سلام اور حال احوال پوچھنے کے ساتھ ساتھ کرسی کی طرف اشارا کر کے کہا تشریف رکھیں۔ بیٹھنے کے بعد پوچھا، کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ میں نے 600 سو روپے دیتے ہوئے کہا کہ موبائل میں پورے مہینے والا پیکج کر کے دے دیں۔
400 سو روپے واپس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے وہ کارڈ دو سو روپے کا کر دیا ہے۔ میرے چہرے پہ حیرانگی کے تاثرات ظاہر ہوئے۔ رات کو گھر پہ کچھ خاص ادبا اور شعرا کی محفل اور کھانے کا پروگرام ترتیب دیا ہوا تھا۔ زوجہ محترمہ نے اس محفل کے لیئے ایک لمبی چوڑی فہرست اور اچھے خاصے پیسے دے کر متعلقہ اشیا بازار سے لے کر آنے کا حکم صادر کیا ہوا تھا۔
محلہ سے بازار کی طرف رخت سفر باندھا تو سامنے ایک عمر رسیدہ بزرگ بڑی مشکل سے چلتے ہوئے نظر آئے، دو نوجوانوں نے آگے بڑھ کر بڑی سرعت اور عزت و ادب کے ساتھ بزرگ کو دونوں اطراف سے سہارا دیا، ایک دکان سے کرسی لے کر ایک کونے پہ انکو کرسی پہ بٹھا کہ پانی پلایا۔
بزرگ کی سانس بحال ہونے پہ دوبارا سہارا دے کر انکو گھر کی طرف لے گئے۔ معمر اور بزرگ کا اتنا خیال اور عزت تقریم دیکھ کر خوشی ہوئی۔ میں بازار میں داخل ہوا، نہ کوئی چنگچی، نہ کوئی شور، نہ کوئی دھکم پیل، نہ دکانوں کے آگے سڑک پہ سامان اور نہ کسی دکان کے آگے کوئی پارکنگ، لوگ بڑے آرام اور سکون سے خریداری کرتے ہوئے نظر آئے۔
سب سے پہلے میں مرغی کی دکان پہ گیا۔ شیشے اور جالی سے ڈھکی ہوئی دکان، نہ مکھیاں اور نہ مکھیوں کی بھن بھن۔ چمکتا دمکتا فرش، مرغی زبح کرنے کے لیئے علیحدہ شیشے کا کیبن، سفید کوٹ، ہاتھوں پہ ربڑ کے دستانے، سر پہ ٹوپی، ناک اور ہونٹوں پہ ماسک پہنے زبح کرنے والا اس شیشے کے کیبن میں مرغی زبح کر کے بہترین صفائی کے ساتھ کاغذ کے لفافے میں بند کر کے کہنے لگا صرف 100روپے۔
اتنی سستی؟ کہنے لگا مہنگائی تو کب کی ختم ہو چکی ہے، لگتا ہے آپ ابھی نیند سے اٹھے ہیں۔ سبزی اور دوسری سودا سلف کی دکانوں پہ بھی اسی طرح کا ماحول دیکھنے کو ملا۔ رات کی محفل کے لیئے گوشت، مرغی، سبزی، چاول، گھی، مختلف پھل خریدنے پہ کل خرچہ 1500 سو روپے۔ یا اللہ یہ کیسا ماجرا ہے؟
ساتھ والی کرسی پہ روزنامہ اعتدال کا ایک قاری بیٹھا تھا، کہنے لگا آپ وہ نہیں جو روزانہ کالم لکھتے ہیں۔ سر ہلا کر جواب دیا کہ جی۔ کہنے لگا کہ لگتا ہے شاید آپ کو کچھ بھی نہیں معلوم، بہت تبدیلی آ چکی ہے۔ آج کل انسان کی بالا دستی کے ساتھ ساتھ انسانیت کا بول بالا ہے۔
نہ ہی انسان انسانوں سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی نفرت کرتے ہیں۔ پیار، محبت، امن و آشتنی کا ماحول ہے، کوئی خودکش حملہ نہیں۔ کوئی دہشتگردی نہیں۔ کوئی خوف کا ماحول نہیں۔ معاشرے میں سب کا سود و زیاں مشترکہ ہے۔ خواتین کو فیصلہ سازی میں اہم مقام حاصل ہے، ہر شعبہ میں ان کا رہنمایانہ کردار ہے۔
کوئی سیکورٹی نہیں۔ کوئی چوری چکاری کی واردات نہیں۔ سب اپنے اپنے گھروں میں کھلے دروازوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ بچوں کے لیے بہترین اور جدید ٹیکنالوجی پر مبنی مفت تعلیم اور تعلیم کے بعد روزگار کی ضمانت ہے۔ طبقاتی تعلیم کا خاتمہ کر دیا گیا۔
ملک بھر میں یکساں نظام تعلیم سب کے لیے مساوی اور لازمی ہے۔ طلبہ یونینز بحال کر دی گئیں۔ ہسپتالوں میں علاج معالجے کی تمام سہولیات اور ادویات موجود ہیں۔ علاج مفت و معیاری اور مریضوں کی بہترین تیمارداری کی جاتی ہے۔ ڈاکٹرز اور ہسپتال کا عملہ مسیحائی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
اشیا خوردونوش ملاوٹ سے پاک ہے۔ صحتمندانہ اور متوازن غذا کا استعمال کیا جاتا ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ نہیں۔ سڑکیں کشادہ اور صاف ہیں۔ شام کے وقت مرد، خواتین اور بچے پارکوں میں نظر آتے ہیں۔
ہارن کی آواز سننے کو کان ترس گئے۔ دریائے سندھ میں بہنے والے گندے نالوں کو بند کر دیا گیا ہے۔ مذبح خانے شہر سے باہر تمام سہولتوں کے ساتھ بنا دیئے گئے ہیں۔ درخت کاٹنے کی سزا پھانسی ہے۔ درختوں کی حفاظت مذہبی فریضے کے طور پر کرتے ہیں۔
لائبریریاں آباد ہیں۔ شہر کی سب سے پر رونق عمارت لائبریری ہے جہاں طلبا اور طالبات اور ذوقِ ادب رکھنے والوں کا جم غفیر ہوتا ہے۔ اب سیکییورٹی پر معمور ادارے صرف ایک بات پر غور کر رہے ہیں کہ کس طرح انسانوں کی حفاظت جنگلی درندوں سے کی جائے جو کبھی کبھار جنگل سے شہر کا رخ کرتے ہیں، جبکہ جنگلی حیات کی خیال داری بھی ان کی ترجیحات میں شامل ہوتی ہے۔
مجھے یہ ساری باتیں سنتے ہوئے ملک نہیں بلکہ جنت کا گمان ہونے لگا۔ مگر یہ کیا۔۔ خواب تو خواب ہے جب میں بیدار ہوا تو وہی معاشرہ، وہی ہم، وہی مسائل، وہی شور شرابا اور نفسا نفسی۔