سقوط ڈھاکہ اور امریکی کردار! (بروس رائیڈل)

رچرڈ نکسن صدر بننے سے پہلے ہی جنوبی ایشیا کے معاملات سے کسی بھی امریکی صدر سے زیادہ واقفیت رکھتا تھا۔ وہ اس خطے کا سفر کر چکا تھا اور جنوبی ایشیا کی سیاست کے تمام مہروں سے واقف تھا۔ اسے پچاس کی دہائی میں بننے والے پاکستان امریکہ اتحاد کا بانی سمجھا جا سکتا ہے۔ نکسن نے اپنی صدارت سے بھی پہلے انیس سو تریسٹھ کے جنوبی ایشیا کے دورے پر نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا “وقت آ گیا ہے کہ واشنگٹن نہرو کو برداشت کرنا چھوڑ دے جو کئی مواقع پر امریکہ کے لئے شرمندگی کا باعث بن چکا ہے ” اور اسی انٹرویو میں اس نے پاکستان کی تعریف کی۔ سو جب یہی نکسن انیس سو انہتر میں امریکہ کا صدر منتخب ہوا تو بھارتیوں کو اس کی صدارت کے بارے میں شدید تحفظات تھے اور پاکستانی پر امید تھے کہ اب وائٹ ہاؤس میں ان کا ایک عظیم دوست آ چکا ہے

نکسن دونوں کی توقعات پر پورا اترا۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ ایک دفعہ پھر بڑھایا گیا اور پاکستان اور پاکستان کے چین سے تعلقات جنوبی ایشیا پالیسی کا مرکزی نقطہ بن گئے۔ دوسری طرف اکہتر کی پاک بھارت جنگ امریکہ کو ایک ایسے مقام پر لانے والی تھی جہاں امریکہ اور بھارت ٹکراؤ کے نزدیک پہنچے جس کے نتیجے میں بھارت نے پہلا نیوکلیائی تجربہ کیا۔

ہنری کسنجر نکسن کی خارجہ پالیسی کا اور خاص طور پر جنوبی ایشیا کی پالیسی کا رہبر و رہنما تھا۔ کسنجر اپنے اس دور کے تجربات کی یادداشت بہت تفصیل سے لکھ چکا ہے اور اس تفصیل کی وجہ وہ اختلافات تھے جو اسے وزارت خارجہ اور دوسرے اداروں کی طرف سے برداشت کرنا پڑے۔ انیس سو اکہتر کے بحران کے فوری بعد جیک اینڈرسن نامی صحافی کے ہاتھ وہ تفصیلی نوٹ لگ گئے جو پینٹاگون کی لیڈرشپ بحران کے دوران لکھ رہی تھی۔ ان نوٹس نے ایک ایسا منظر پیش کیا جس میں نکسن وائٹ ہاؤس اپنی ہی بیورو کریسی سے جنگ کرتا اور تمام بیرونی آراء سے خود کو الگ تھلگ رکھتا نظر آتا ہے۔ ان نوٹس کے مطابق نکسن اکہتر کے بحران کو ماسکو کی طرف سے امریکہ کے عزم کا امتحان سمجھ رہا تھا جب کہ باقی سب کے نزدیک یہ مشرقی پاکستان کا مستقبل طے کرنے کے لئے ایک علاقائی مسئلہ تھا۔

مشرقی پاکستان ہمیشہ پاکستانی ریاست کا سوتیلا بچہ رہا تھا۔ اگرچہ پاکستان کی آبادی کی اکثریت مشرقی پاکستان میں مقیم تھی، مغربی پاکستان کی پنجابی اسٹیبلشمنٹ ریاست اور خاص طور پر افواج پر حاوی تھی۔ ترقیاتی اخراجات کا ایک غیر متناسب حصہ مغربی پاکستان پر خرچ ہوتا تھا اور تقریباً تمام فوجی افسروں کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا جن میں سے اکثریت پنجابی افسروں کی تھی۔ انیس سو ستر میں کل چھ ہزار فوجی افسروں میں سے صرف تین سو کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ اس کے علاوہ ہر چند کہ پاکستان کی اکثریت بنگالی زبان بولتی تھی لیکن اس زبان کو، محمد علی جناح کے اصرار پر، قومی زبان کا درجہ حاصل نہیں تھا۔ بنگالیوں کے لئے انیس سو سینتالیس میں انگریز سامراج کی جگہ مغربی پاکستان نے سنبھال لی تھی۔

انیس سو انہتر میں ایوب خان کا اقتدار تو ختم ہو چکا تھا لیکن اس کے لئے بنگالیوں کا غصہ نہیں۔ بنگالی سمجھتے تھے کہ انیس سو پینسٹھ میں ایوب خان نے بھارت کے ساتھ جنگ چھیڑتے وقت بنگال کو نئی دہلی کے سامنے نہتا چھوڑ دیا تھا۔ پاکستان کی تقریباً تمام بری اور فضائی فوج مغربی حصے میں تعینات تھی۔ بھارت، جس نے جغرافیائی طور پر مشرقی پاکستان کو تین اطراف سے گھیرا ہوا تھا، اگر انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں مشرقی پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتا تو اس کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ پاکستانی افواج کا بنگالیوں کے لئے پیغام بہت واضح تھا کہ اگر کشمیر پانے کے لئے انہیں بنگال کھونا پڑے تو انہیں یہ سودا منظور ہو گا۔

ایوب خان کی جگہ ایک پنجابی شیعہ یحییٰ خان نے لی جو برٹش آرمی کی طرف سے لیبیا اور اٹلی میں دوسری جنگ عظیم میں حصہ لے چکا تھا۔ یحییٰ خان کے دو بڑے ذاتی مسائل قوت فیصلہ کی کمی اورپیہم شراب نوشی تھی۔ انیس سو ستر میں اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی عام انتخابات کروا دیے۔ علیحدگی پسند عوامی لیگ نے شیخ مجب الرحمٰن کی قیادت میں مشرقی پاکستان میں تمام ایک سو سڑسٹھ نشستیں جیت کر باقی جماعتوں کا صفایا کردیا جبکہ مغربی پاکستان میں بھٹو کی پیپلز پارٹی ایک سو اڑتیس میں سے اکاسی نشستیں جیت کر مغربی پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھری۔ پسے ہوئے بنگالی اکثریت میں ہونے اور ایک ہی پارٹی کو ووٹ دینے کی وجوہات سے ریاست کا کنٹرول لینے کی پوزیشن میں آ چکے تھے۔ پنجابی یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔

یحییٰ اور بھٹو بنگالیوں سے مذاکرات کرنے ڈھاکہ پہنچے اور مذاکرات کی ناکامی پر مغربی پاکستان واپس آتے اور وہسکی پیتے ہوئے یحییٰ خان نے ڈھاکہ میں پاکستانی کمانڈر لیفٹنٹ جنرل ٹکا خان کو عوامی لیگ اور علیحدگی پسندوں پرایک سخت کریک ڈاؤن کا حکم دیا۔ کوڈ نیم آپریشن سرچ لائٹ کو کریک ڈاؤن سے قتل عام بنتے دیر نہ لگی۔ امریکی ساخت کی بکتر بند گاڑیاں ڈھاکہ یونیورسٹی میں داخل ہوئیں اور ہزاروں طلباء کو ہلاک کر دیا – سیاسی لیڈروں، شاعروں، ناول نگاروں اور بنگال کے کئی بہترین دماغوں کو گرفتار کر کے گولی مار دی گئی۔ شیخ مجیب کو گرفتار کر لیا گیا لیکن وہ اس سے پہلے ہی، چھبیس مارچ انیس سو اکہتر کو، بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کر چکا تھا۔ بعد میں آنے والی بنگلہ دیشی حکومت نے پاکستانی فوج کو نسل کشی میں ملوث ہونے اور تیس لاکھ لوگوں کو ہلاک کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ لاکھوں بنگالی بارڈر کراس کر کے بھارت میں پناہ لے چکے تھے اور اندرا گاندھی حکومت کے لئے اب یہ پناہ گزینی  ایک بحران کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ مئی کے مہینے تک مشرقی پاکستان سے بھاگ کر بھارت میں پناہ لینے والوں کی تعداد ایک کروڑ تک پہنچ گئی تو عوامی لیگ نے ٹکا خان کی فوج سے گوریلا جنگ کا فیصلہ کیا اور بھارت نے باغیوں کو ہتھیار فراہم کرنے کا۔

اس بحران کے شروع ہونے سے کچھ ہی پہلے پاکستانی حکومت بھارت کو ٹکراؤ کے لئے اکسا چکی تھی جب تیس جنوری انیس سو اکہتر کو دو کشمیریوں نے سری نگر سے پرواز کرنے والا ایک بھارتی مسافر طیارہ اغوا کرکے اسے لاہور اتارا اور مسافروں کو نکال کر جہاز کو دھماکے سے اڑا دیا۔ بھارت نے اس کاروائی کا الزام پاکستانی انٹیلی جنس کو دیتے ہوئے اپنی فضائی حدود پاکستانی طیاروں کے لئے بند کردی جس کی وجہ سے پاکستان کے ایک حصے سے دوسرے حصے پر جانے والی پروازوں کو اب ایک لمبا چکر کاٹ کر جانا پڑتا۔ پاکستان نے اپنی معصومیت کا دعویٰ کرتے ہوئے دونوں ہائی جیکرز کو بھارتی جاسوس قرار دیا۔ اکہتر کی جنگ کے بعد پاکستان نے دونوں ہائی جیکرز کو رہا کر دیا جنہوں نے پاکستان میں ہی رہائش اختیار کی جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ پاکستانی ایجنٹ ہی تھے۔ اس ہائی جیکنگ ، مشرقی پاکستان میں  ہونے والے قتل عام اور پناہ گزینوں کے بحران کو دیکھتے ہوئے اندرا گاندھی حکومت نے ایکشن لینے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اس سے بھی پہلے اندرا گاندھی نے یہ فیصلہ کیا کہ کچھ بھی کرنے سے پہلے امریکہ کا ردعمل دیکھا جائے۔

سقوط ڈھاکہ اور امریکی کردار قسط 2

لیکن نکسن اور کسنجر نے مشرقی پاکستان میں قتل عام روکنے کے لئے کوئی سنجیدہ اقدام لینے سے انکار کر دیا۔ کسنجر نے امریکی صدر کی ہدایت پر تمام حکومتی اداروں کو پاکستان اور یحییٰ کیطرف جھکاؤ کا حکم دے دیا لیکن زیادہ تر بیوروکریسی اس پر مزاحم تھی۔ قومی سلامتی کونسل کی ایک میٹنگ میں علاقائی ماہرین کی مزاحمت کی وجہ سے کسنجر نے چلاتے ہوئے کہا “صدر مملکت ہمیشہ پاکستان کی طرف جھکاؤ کی ہدایت کرتے ہیں اور یہاں مجھے ہر تجویز اسے سمت میں دی جاتی ہے۔کبھی کبھی مجھے لگتا ہے میں کسی پاگل خانے میں ہوں”مشرقی پاکستان میں موجود امریکی سفارتکار اپنے ملک کی پالیسی پر شدید حیرانگی میں مبتلا تھے۔ اپریل انیس سو اکہتر میں ڈھاکہ میں موجود تقریباً ہر امریکی سفارتکار کے دستخطوں کے ساتھ ایک اختلافی نوٹ امریکی وزارت خارجہ کو بھیجا گیا جس کا ایک حصہ یہاں نقل کیا جانا مناسب ہے۔

“ہماری حکومت جمہوریت کے کچلنے جانے کی مذمت کرنے میں ناکام ہو چکی ہے – ہماری حکومت ظلم کے خلاف بولنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ ہماری حکومت اپنے شہریوں (دوہری شہریت والے بنگالی امریکی) کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے کوئی بھی عملی قدم لینے میں ناکام ہو چکی ہے۔ اور دوسری طرف ہماری حکومت نے اپنا تمام وزن مغربی پاکستان کے پلڑے میں ڈال دیا ہے جس کی وجہ سےعالمی برادری پاکستان کے خلاف کسی بھی فیصلہ کن کاروائی سے گریزاں ہے۔ ہماری حکومت کے پاس  اس فوجی آپریشن کے اخلاقی دیوالیہ پن کے تمام شواہد موجود ہیں  لیکن  ستم ظریفی یہ ہے کہ سوویت یونین نے تو یحییٰ خان کو پیغام بھیج دیا ہے جس میں جمہوریت کا دفاع کیا گیا اور انتخابات جیتنے والی پارٹی کے لیڈروں کی گرفتاریوں کی مذمت کی گئی لی مگر  ہم نے یہ طے کی کہا اخلاقی بنیادوں تک پراس عمل میں مداخلت نہیں کرنی جسے ہر طرح سے نسل کشی کہا جا سکتا ہے  اور اسے انسانی بحران کی بجائے پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دینا ہے ”

امریکی قونصل جنرل آرچر بلڈ نے یہ مراسلہ ، جسے بعد میں بلڈ ٹیلیگرام کا نام دیا گا ، واشنگٹن بھیجا جسے وزارت خارجہ کے کئی افسران نے اپنی حمایتی دستخطوں کے ساتھ وزیر خارجہ ولیم راجرز کو بھیج دیا۔ قونصل جنرل نے اس مراسلے کی کلاسیفکیشن “خفیہ” رکھی تھی لیکن نکسن سے اسے تبدیل کر کے “خفیہ / نو ڈس ” کر دی جو کہ ایسے مراسلے کے لئے سب سے خفیہ کلاسیفکیشن تھی۔

نکسن کے پاکستان کی طرف جھکاؤ کی واحد وجہ اس کی بھارت دشمنی نہیں تھی۔ پس پردہ، صدر نکسن اور قومی سلامتی کے مشیر کسنجر امریکہ کی چین کے بارے دو دہائی پر محیط پالیسی کو الٹانے میں مصروف تھے اور اس کے لئے انہیں پاکستان اور یحییٰ خان کی ضرورت تھی۔ یہ اس قدر خفیہ کاوش تھی کہ وزیر خارجہ راجرز تک کو اس کا علم نہیں تھا۔

اپنی نائب صدارت اور صدارت کے ادوار کے درمیانی عرصہ میں نکسن نے  ایک عام شہری کے طور پر جنوبی ایشیا کے تین دورے کیے اور ہر دفعہ اسے بھارت میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جبکہ پاکستان میں اس کا شاہانہ استقبال کیا گیا۔ اگست انیس سو انہتر میں نکسن نے بھارت اور پاکستان کا بطور صدر دورہ کیا۔ بھارت میں اس کی اندرا گاندھی سے ملاقات انتہائی تناؤ کے ماحول میں ہوئی۔ ایک سابقہ دورے میں اندرا گاندھی نے نکسن سے ملاقات کے دوران اپنے سیکرٹری سے ہندی میں پوچھا تھا “مجھے اور کتنی دیر اس شخص سے باتیں کرنا ہے ” لیکن اس دفعہ نکسن بطور امریکی صدر دورہ کر رہا تھا سو اب اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں تھا لیکن دونوں کی ایک دوسرے کے لئے ناپسندیدگی بہت واضح تھی۔

اسلام  آباد میں نکسن کا والہانہ اسقبال کرنے والا اس کا قریبی دوست یحییٰ خان تھا جس کے لئے نکسن کے پاس ایک غیر متوقع فرمائش موجود تھی۔ نکسن نے یحییٰ خان سے چین کے چیئرمین ماؤ کو ایک اہم پیغام دینے کو کہا۔ اس پیغام میں نکسن نے چین کی کئی دہائیوں پر محیط تنہائی ختم کرنے کے لئے اعلیٰ ترین سطحی مذاکرات میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ نکسن نے یحییٰ سے درخوست کی اس پیغام کا کسی امریکی سفارتکار کو علم نہیں ہونا چاہیے اور اس معاملے میں امریکہ میں پاکستانی سفیر صرف کسنجر سے رابطے میں رہے۔

بیجنگ نے اس پر کوئی فوری ردعمل نہیں دیا۔ فروری انیس سو ستر میں پاکستانی سفیر نے کسنجر کو اطلاع دی کہ چین مذاکرات کے لئے تیار ہے۔ اکتوبر میں یحییٰ خان نے وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا۔ صدر پاکستان کے استقبال میں نکسن نے پاکستان پر انیس سو پینسٹھ سے موجود ہتھیاروں کی رسد پر پابندی ختم کی اور پاکستان کو تین سو بکتر بند گاڑیوں کی فراہمی کا وعدہ کیا۔

پچیس اکتوبر انیس سو ستر کو نکسن نے یحییٰ کو ماؤ کے لئے  ایک اور پیغام دیا کہ نکسن چاہتا ہے کہ کسنجر چین کا خفیہ دورہ کر کے ماؤ اور اس کے ساتھیوں سے ملے۔ آٹھ دسمبر انیس سو ستر، عوامی لیگ کے الیکشن کے جیتنے کے اگلے دن، کو پاکستانی سفیر کو چین کی آمادگی سے آگاہ کیا گیا۔ لیکن بیجنگ کسی جلدی میں نہیں تھا سو دورے کی تاریخ کے بارے میں بیجنگ نے انتظار کرنے کا کہا۔

آپریشن سرچ لائٹ کے آغاز کے بعد نکسن اور کسنجر نے محسوس کیا کہ وہ چین سے رابطہ قائم رکھنے کے لئے یحییٰ خان کی ناراضگی مول نہیں لے سکتے۔ چین سے رابطہ ابھی تک ایک انتہائی خفیہ امر تھا جس کا علم تاحال وزیر خارجہ سمیت پوری وزارت خارجہ کو نہیں تھا اور ان کے لئے یہ ناقابل فہم تھا کہ نکسن پاکستان کی مذمت سے کیوں کترا رہا ہے

سقوط ڈھاکہ اور امریکی کردار قسط 3

ستائیس اپریل انیس سو اکہتر کو جب مشرقی پاکستان ٹکا خان کے بوٹوں تلے مسلا جا رہا تھا، چین نے پاکستان کے ذریعے کسنجر کو خفیہ دورے کی دعوت دی۔ کسنجر نے جون میں چین کو اپنی جلد آمد کی اطلاع دی اور اپنے اسلام آباد کی دورے کی تیاری شروع کر دی۔ پاکستان میں امریکی سفیر اور سی آئی اے کو پہلی دفعہ اعتماد میں لیا گیا اور انہیں ہدایت کی گئی کہ یحییٰ خان کے ساتھ مل کر کسنجر کے چوری چھپے چین جانے میں مدد کریں۔ یحییٰ خان کے ساتھ عشائیے کے بعد کسنجر کے عملے نے صحافیوں کو اطلاع دی کہ کسنجر کی طبیعت ٹھیک نہیں اور وہ دو دنوں کے لئے مری میں آرام کرنے جا رہا ہے اور وہ اس دوران کسی صحافی سے نہیں ملے گا۔

دس جولائی انیس سو اکہتر کے دن کسنجر پاکستانی طیارے پر بیجنگ پہنچا اور اس نے ماؤ اور چینی قیادت سے ملاقات کی۔ اگلے دن وہ واپس اسلام آباد پہنچا اور اپنے معمول کے دورے کو جاری رکھا۔ ایک بڑا راز اس خفیہ دورے کے بعد بھی  راز ہی رہا۔ چند دنوں کے بعد نکسن نے امریکی عوام کو اس سفارتی کامیابی سے آگاہ کیا اور انہیں بتایا کہ وہ چین کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ایک ذاتی خط میں نکسن نے یحییٰ خان کا شکریہ ادا کیا اور لکھا “آنے والی انسانی نسلیں ایک پرامن دنیا کے لئے ہمیشہ  آپ کی مقروض رہیں گی”۔

دوسری جانب اندرا گاندھی کو اپنا بدترین خواب پورا ہوتا نظر آ رہا تھا۔ مشرقی پاکستان کے بحران کی وجہ سے کلکتہ اور آسام عدم استحکام کا شکار تھے، امریکہ پاکستان کی حمایت کر رہا تھا اور ایک نیا بیجنگ، اسلام آباد، واشنگٹن اتحاد تشکیل ہو رہا تھا۔ اندرا نے ایک جوابی اتحاد بنانے کی لئے ماسکو کا دورہ کیا جس کے نتیجے  میں سوویت۔ بھارت دوستی اور تعاون کا معاہدہ ہوا جو دونوں ممالک کو بہت قریب لے آیا۔ اس معاہدے کے مقاصد میں سے ایک  چین کو پاکستان کے ایماء پر فوجی مداخلت سے خبردار کرنا تھا۔ دوسرے الفاظ میں اندرا گاندھی نے چین کو پیغام دے دیا کہ اگر چین نے ممکنہ جنگ میں مداخلت کی کوشش کی تو اسے سائبیریا اور منچوریا میں روسی فوج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جنگ ہوا ہی چاہتی تھی۔ نومبر میں اندرا گاندھی نے بنگالی عوام اور بھارت کے لئے امریکہ  اور اقوام متحدہ کی حمایت حاصل کرنے کے لئے نیویارک اور واشنگٹن کا دورہ کیا۔ اسے اوول آفس میں نکسن کی شکل میں ایک آہنی دیوار کا سامنا کرنا پڑا۔ نکسن کے نزدیک وہ سوویت یونین کی پارٹنر تھی اور نکسن کے لئے اندرا کے تمام تحفظات کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ یہ ہر لحاظ سے ایک بدنما ملاقات تھی۔ نکسن نے اندرا کی پیٹھ پیچھے اسے کتیا اور اس سے بھی برے القاب سے نوازا۔ اندرا کے نزدیک نکسن ایک سرد جنگ کا جنونی تھا جس کے نزدیک انسانی زندگی کی کوئی وقعت نہ تھی۔ اس ملاقات کے بعد اندرا گاندھی نے فوجی کمانڈر فیلڈ مارشل سام مانیکشا کو مشرقی پاکستان پر حملے کی تیاری کا حکم دے دیا۔

لیکن پہل پاکستان نے کی۔ اسرائیل کے انیس سو سڑسٹھ کے مصر پر حملے کی طرز پرابتدائی  برتری لینے کے لئے پاکستان نے تین دسمبر انیس سو اکہتر کو آپریشن چنگیز خان لانچ کیا جس کا ہدف بھارتی ایئر بیس تھے۔ حملہ ناکام رہا اور بھارت نے جارحیت کا آغاز کردیا۔ مانیکشا جلد ہی بھاگتی ہوئی پاکستانی فوج کے تعاقب میں تھا۔ مشرقی پاکستان میں تعینات نوے ہزار پاکستانی فوجیوں کو ایک ایسی صورتحال کا سامنا تھا جس میں کسی مثبت امید کی گنجائش نہ تھی۔ وہ تین اطراف سے گھر چکے تھے اور کمک ایک ہزار میل دور تھی۔

امریکہ ہر طورپاکستان کے ساتھ تھا۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر جارج ایچ ڈبلیو بش (جو بعد میں امریکہ کے اکتالیسویں صدر بنے) نے بھارت کو “عظیم جارح” قرار دیا۔ خلوت میں بش کسنجر کو “مغرور اور خوف زدہ انسان” پکارتا تھا لیکن پبلک میں بش نے وائٹ ہاؤس کی پالیسی کا دفاع کیا۔ کسنجر اور بش نے اقوام متحدہ میں چین کے سفیر سے ملاقات کی اور بین السطور چین کو جنگ میں شمولیت کی دعوت دی۔ کسنجر نے چینیوں کو کہا کہ اگرچہ ان پر ہتھیاروں کی پابندی قائم ہے لیکن وہ ایران اور اردن جیسے امریکی اتحادیوں کے ذریعے امریکی لڑاکا طیارے چین کو فراہم کر سکتا ہے (جو کہ ایک غیر قانونی قدم ہوتا)۔ سی آئی اے نے ایران اور اردن کو سابق امریکی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے اسلام آباد کو ایف – ١٠٤ فراہم کرنے کو کہا۔ اردن نے کئی طیارے فوری طور پر پاکستان منتقل کر دیے۔ لیکن جہاں تک چین کا تعلق ہے، اس نے پاکستان کی  کسی قسم کی مدد نہیں کی۔

عین اس موقع پر سی آئی اے نے نکسن کو ایک انٹیلیجنس رپورٹ پیش کی جس کے مطابق اندرا گاندھی کے عزائم مشرقی پاکستان تک محدود نہیں تھے۔ رپورٹ کے مطابق اندرا گاندھی اس جنگ میں پورے پاکستان کو تباہ کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔ اگرچہ سی آئی اے کے کچھ ماہرین کے نزدیک یہ رپورٹ کلی طور پر قابل اعتبار نہیں تھی لیکن اس رپورٹ نے واشنگٹن میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر رچرڈ ہیلمز نے وائٹ ہاؤس کو کہا “اندرا گاندھی کوشش کرے گی کہ پاکستان کی تمام بری اور فضائی افواج کی مشینری ختم کر دی جائے اور اس کے بعد کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کو بندوق کی نوک پر زیر کرلیا جائے”۔ نکسن نے اس رپورٹ کو ان چند رپورٹس میں سے ایک قرار دیا جو سی آئی اے نے اسے بروقت فراہم کیں۔

اس رپورٹ کے نتیجے میں نکسن نے فوری طور پر امریکی بحری بیڑہ یو ایس ایس اینٹرپرائزکی قیادت میں خلیج بنگال میں اتارنے کا حکم جاری کیا۔ یہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کی حمایت  کا بہت  پرزور مظاہرہ تھا۔ شائد نکسن یہ کر کے چین کو ہمت دلانا چاہ رہا تھا کہ وہ بھارت پر حملہ کر دے۔ اندرا گاندھی  آسانی سے ڈرنے والی خاتون نہیں تھی۔ اور ویسے بھی اب دیر ہو چکی تھی۔ پاکستان نے ڈھاکہ میں چودہ دسمبر انیس سو اکہتر کو امریکی قونصیل سے کہا کہ وہ بھارت کو مطلع کردے کہ پاکستانی فوج ہتھیار ڈالنے کو تیار ہے۔

اور پھر پاکستان کی تاریخ کا تاریک ترین دن آن پہنچا

بروس رائیڈل نے اپنی کتاب میں امریکی بحری بیڑے کی خلیج بنگال میں جانے کی تفصیل بیان نہیں کی کیونکہ شائد یہ کتاب کے وسیع تر موضوع کا تقاضا نہیں تھا لیکن میرے خیال میں پاکستان میں موجود ایک غلط فہمی کے ازالے کے لئے یہ تفصیل ضروری ہے۔ نہ صرف یہ کہ امریکی بحری بیڑہ خلیج بنگال کی طرف گامزن تھا بلکہ امریکہ کے کہنے پر ایک برطانوی بحری بیڑہ بھی ایچ ایم ایس ایگل نامی جہاز کی قیادت میں بھارت  کی طرف رواں  تھا۔چند ماہرین کے خیال میں منصوبہ یہ تھا کہ برطانوی بیڑہ بحیرہ عرب کی طرف سے بھارت کے مغربی ساحل سے بھارت پر حملہ کرنے کی پوزیشن میں پہنچے گا اور امریکی بیڑہ خلیج بنگال سے مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کی مدد کرے گا۔ لیکن بھارت کو اس منصوبے کی بھنک پڑ چکی تھی سو بھارت نے اپنے معاہدے کے تحت دسمبر دس کو سوویت یونین سے مدد مانگ لی جس کے جواب میں  سوویت یونین نے ولادی واسٹوک سے دسویں آپریٹو بیٹل گروپ سے وابستہ سوویت آبدوزوں کا ایک دستہ خلیج بنگال روانہ کر دیا۔ ایڈمرل ولادمیر کرگلیوکوو اس دستے کا کمانڈر تھا۔ اس نے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک انٹرویو کے بعد بتایا کی جیسے ہی امریکی بیڑے نے خلیج بنگال میں داخل ہونے کی کوشش کی، ایڈمرل نے، ماسکو کے احکام کے مطابق، اپنی آبدوزوں کو سطح آب پر آنے کا حکم دیا تاکہ امریکی بحریہ دیکھ لے کہ سوویت بحری دستوں میں میں نیوکلیئر آبدوزیں شامل تھیں۔ پیغام واضح تھا: امریکہ کی بھارت کے خلاف جارحیت ممکنہ تیسری عالمی جنگ کا آغازہو سکتی تھی سو امریکہ نے یہ انتہائی قدم لینے سے گریز کیا۔


بروس رائیڈل کی کتاب Avoiding Armageddon  کے ایک باب کے ترجمے کی چند قسط، اختصار کے لئے تمام حوالہ جات نقل نہیں کے جا رہے جو کتاب سے حاصل کیے جا سکتے ہیں نوٹ یہ کتاب گوگل پر آن لائن موجود ہے۔


نوٹ: تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں