وادی کاغان، ناران اور استور …! (سید صفدر رضا)

وادی کاغان و ناران کو الوداع کہتے ہوئے بٹاکنڈی جلکھنڈ سے گزرتے ہوئے وسیع و عریض لولو سر جھیل سے سامنا ہے جو محل وقوع کے لحاظ سے اپنی جانب کھینچتی ہے لیکن جب تصور اور ذہن میں منی مرگ منزل ہو تو اس پر رکنے کا خیال بھی محال ہے با با سر ٹاپ پر پہنچنے پر بلندی سر کرنے کا گماں ہوتا ہے موسم بدلا ہوا ہوتا ہے پھر ڈھلوانوں اور بل کھاتے راستوں سے ہوتے ہوئے چلاس سے گزرتے ہوئے رائی کوٹ پل پر پہاڑوں کو زیر کرنے کے احساس لئے یہ فیصلہ مشکل پیدا کرتا ہے کہ شنگریلا جایا جائے یا منی مرگ فیصلہ اٹل منی مرگ کاہو تو موسم کی شدت ہی ہائل ہو سکتی ہے یہاں سے جنگلوٹ تک راستہ انتہائی دشوار گزار و تنگ اور خطرناک ہے بازو باہر نکال کر پہاڑ چھویا جا سکتا ہے جنگلوٹ پہنچنے پر ایک جانب سکردو ایک جانب استور ایک راستہ گلگت ہنزہ کی جانب جاتا ہے جبکہ استور پہنچنے پر DC آفس سے ہوٹلز کے ریٹ و معیار کی معلومات کی جاسکتی ہیں اپنی گاڑی کی بجائے جیپ کر لی جائے تو بہتر ہے راستہ مشکل ہے استور سے نکلنے کے بعد راما میڈوز کے مرغزار انہیں پھیلائے خوش آمدید کہتے ہیں چلم چوکی فوجی اجازت نامہ ضروری ہےجو پہلے کی نسبت آسان ہے یہاں کیونکہ بارڈر ایریا ہے یہاں سے برزل ٹاپ 4100 میٹر بلند عبور کرتے ہیں خوبصورت سر سبز وادی آتی ہے ندی کی گنگناہٹ دل کو چھو رہی ہے برف پوش چوٹی راستہ دوطرفہ قرمضی اودے چمکدار پھولوں کی چادر برزل ٹاپ میں جون جولائی میں بھی برفباری متوقع جو بابوسر ٹاپ سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ سانس لینے میں قدردقت ہوتی ہے یہاں برزل جھیل جو چوٹی کی ارد گرد کی برفانی پانی کی چھوٹی جھیل ہے آپ کو فوجی چیک پوسٹ و بٹالین ہیڈ کواٹر بھی ہے کارگل کی وجہ سے فوجیں ہمہ وقت چست و چابند رہتی ہیں آگے استور ہے جو کشمیر وادی نیلم کا ایک گاؤں جو گلگت سے 190 کلو میٹر سطح سمندر 2845 میٹر بلند جہاں اگلو سرد موسم میں نظر آتے ہیں جنوری سرد ترین ہوتا ھے شینا بولی جاتی ہے لینڈ سلائڈنگ ہوتی ہےدیودار کے گھنے درخت فکک چھورہے ہیں گھنے درختوں کی وجہ روشنی معدوم ہے ٹھنڈی ہوا میں سانس لینا دشوار کام یاک چرتے دیکھے جاسکتے ہیں یہاں کے سحر سے نکلتے ہی رینبو لیک اچھلتی کودتی ٹراؤٹ کے ساتھ موجود یہ تاب نما قدرے چھوٹی جھیل اپنا ایسا سحر چھوڑتی ہے کہ تمام راستے کی تھکاوٹ اپنے اندر سمو کر سیاح کو ایسے ترو تازہ کرتی ہے جیسے شبنم کے قطرے گلاب کو کھلائیں جب سورج کی کرنیں بادل کی اوٹ سے جھانکتی ہیں تو ماحول پر قوس قزح کی اوڑھنی کا گماں ہوتا ہے یہاں کھانا بھی مل جاتا ہے پکوڑے گرما گرم سمسے بھیدل پر فضا مقام میں جس فرحت کو محسوس کرتاہے بیان سے باہر ہے یہاں کے لوگ زیادہ تر دوزگار کے سلسلے میں ملک کے دیگر علاقہ جات چلے جاتے ہیں رہ جانے والوں کی معیشت کا انحصار زراعت آلو کی فصل اور بھیڑوں اور مچھلی ٹراؤٹ وغیرہ اور پائی جانے والی جڑی بوٹیوں پر ہے زندگی سہل نہ ہے 8 ماہ برف رہنے سے اور سہولیات۔ نہ ہونے سے زندگی اجیرن ہے سیاح اس صاف اور پر فضا مقام کا رخ کر زیادہ لطف اندوز جو سکتے ہیں اور صفائی کا خیال رکھ کے اپنی جنت کو دوزخ میں تبدیل ہونے سے روک سکتے ہیں سفر یہاں تمام نہیں ہوتا ڈومیل وادی کی جھیلیں سرحدی علاقہ بھی قابل دید ہے وطن عزیز کو گھومنے کے لئے دیار غیر سے سیاحوں کو متعارف کرانے کے لیئے بھرپور محنت کی ضرورت ہے جیسا نیشنل ٹورزم پاکستان کی جانب سے سیاحوں کی سہولت کے لیے پہلی ویب پورٹل متعارف کروانے کا اعلان ہوا ہے یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچنا چاہیے۔ جھاں ممکن ہو حکومت ممدومعاون ثابت ہو کر اس عمل کی حوصلہ افزائی کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں