سانحہ 27 دسمبر کے بعد آگ و خون کی ہولی…! (انشال راؤ)

محترمہ بینظیر بھٹو شہید پاکستان ہی نہیں اسلامی دنیا کی بھی پہلی وزیراعظم تھیں، محترمہ کے سر دو بار وزارت عظمیٰ کا تاج سجا لیکن دونوں ہی بار ان کی حکومت کرپشن، بدعنوانی، لاقانونیت و مطلق العنانیت کے الزامات کی بنا پر چلی گئی، مشرف دور حکومت میں NRO کا حصہ بن کر تقریباً دس سالہ خودساختہ جلا وطنی کاٹ کر وطن واپس لوٹیں اور 27 دسمبر 2007 کے دن ایک افسوسناک سانحے کی نذر ہوگئیں، 27 دسمبر کے دن لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک منظم سازش کے تحت محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کردیا گیا، اس حادثے کا فوری اثر اس قدر شدید تھا کہ ملک بھر کے چینلز اور بین الاقوامی چینلز نے اپنی معمول کی نشریات روک کر اس سانحے پر غم کا اظہار نشر کرنا شروع کردیا، یہ پاکستان کی تاریخ میں بدترین دہشتگردانہ حملہ تھا جس کے بعد ایک نیا رواج ملکی ماحول میں سرایت کر گیا، بینظیر کی شہادت پر ہر پاکستانی افسردہ تھا لیکن اس کی آڑ میں ایک خوفناک کھیل کھیلا گیا جسے بظاہر ردعمل قرار دیا گیا جبکہ حقیقتاً وہ ردعمل نہیں بلکہ ایک منظم سازشی منصوبہ تھا، مجھے آج بھی یاد ہے 27 دسمبر کے دن جب میں نوابشاہ سے کراچی کے لیے قراقرم ایکسپریس میں قریباً شام چار بجے سوار ہوا جوکہ لیٹ تھی، ابھی ٹرین کھٹیان روڈ پہنچی تو مجھے sms موصول ہوا کہ “بینظیر بھٹو بم دھماکے میں شہید” جسے پڑھ کر مجھے بہت افسوس ہوا، ٹرین جیسے ہی حیدرآباد پھاٹک پر پہنچی تو پتھراو شروع ہوگیا جسے حیدرآباد اسٹیشن پر کنٹرول کرلیا گیا، اسٹیشن پر اترا تو وہاں خوف کا عالم تھا، اسٹیشن عملے سے پتہ چلا کہ حالات خراب ہونے کی وجہ سے ٹرین آگے نہیں جاسکتی جو میرے لیے تکلیف دہ بات تھی، میں اندر ہی اندر بڑبڑاتا ہوا اسٹیشن سے باہر نکلا تو وہاں کا منظر ہی الگ تھا بھگدڑ مچی ہوئی تھی سڑکوں پر ہر طرف جلتی ہوئی گاڑیاں نظر آرہی تھیں، مشتعل ہجوم ہاتھوں میں جدید اسلحہ اور ڈنڈے لیے جئے بھٹو جئے بھٹو کے نعرے لگاتے دکانوں کے تالے توڑ کر لوٹ مار کر رہے تھے، میں خوف کے عالم میں شاہی بازار کی جانب بھاگ نکلا جہاں صرافہ بازار میں پہلے سے ہی سینکڑوں کا مشتعل ہجوم سناروں کی دکانوں پر ہاتھ صاف کر رہا تھا، بینکوں اور ATMs کو باپ کا مال سمجھ کر لوٹا جارہا تھا کوئی روکنے والا نہیں تھا، قانون نافذ کروانے ادارے اور اہلکار سرے سے غائب تھے، گلیوں سے ہوتے ہوے جیسے کیسے کرکے میں بس اسٹاپ پر پہنچا تو وہاں بھی تقریباً تمام گاڑیاں جلتی ہوئی نظر آئیں، وہاں سے میں نے سپر ہائی وے کا رخ کیا تو راستے میں کوئی دکان کوئی مارکیٹ کوئی گاڑی بھی شرپسندوں سے محفوظ نہیں تھی، سڑکیں ایک اور ہی طرح کا دردناک منظر پیش کررہی تھیں لوگ روتے ہوے اپنے نصیبوں کو کوس رہے تھے، آگ بجھانے والی فائربریگیڈز سے شعلے اٹھ رہے تھے، سپر ہائی وے پر پہنچ کر تو گھر واپسی کی ساری امیدیں ہی دم توڑ گئیں تاحد نگاہ ٹرک، ٹریلرز، بسیں اور کاروں سے دھواں اور شعلے اٹھتے نظر آرہے تھے، وہاں سے مایوس ہوکر پھر ریلوے اسٹیشن کا رخ کیا جہاں ایک بہادر DSP ریلوے پولیس دلاور میمن اپنے چار سپاہیوں کے ساتھ ہزاروں شرپسندوں سے حیدرآباد ریلوے اسٹیشن کو محفوظ رکھے ہوے تھے، اسٹیشن عملے سے پتہ چلا کہ سندھ کے تقریباً ریلوے اسٹیشنز کو تباہ کردیا گیا ہے یا جلا دیا گیا ہے، بہت سی جگہوں سے پٹڑیاں اکھاڑ دی گئی ہیں، کئی ٹرینوں اور انجنوں کو جلادیا گیا ہے (بعد میں اعداد و شمار اکٹھے کیے تو پتہ چلا کہ سو سے زائد ریلوے اسٹیشن، اٹھارہ ٹرینیں اور دو درجن ریل انجنوں کو مکمل طور پر تباہ یا جلادیا گیا)، اس صورتحال کو دیکھ کر اگلے دن پیدل واپس نوابشاہ کا پروگرام بنایا، راستے میں سڑک کے اطراف لگے تمام درخت کٹے ہوے دیکھے جن کو بعد میں نامعلوم افراد نے بیچ دیا ہوگا، سپر ہائی وے پر شاید ہزاروں نہیں لاکھوں گاڑیاں جلی ہوئی تھیں، کسی شہر کا کوئی بینک شرپسندوں کے ہاتھ سے بچ نہیں پایا مجموعی طور پر سندھ بھر میں ہزاروں بینکوں کو لوٹا گیا اور کئی لاکھ گاڑیوں کو آگ لگادی گئی، جب 24 گھنٹے پیدل مارچ کے بعد نواب شاہ پہنچا تو وہاں کا منظر بھی حیدرآباد سے مختلف نہ تھا مارکیٹیں جل کر خاک ہوچکی تھیں لیکن ایک بات مجھے حیران کر گئی کہ نواب شاہ میں ایک مارکیٹ ایک بااثر شخصیت کی تھی اسے کسی نے چھوا تک نہیں جبکہ اس کے اطراف کی مارکیٹوں کو لوٹا گیا جلایا گیا، بالکل ایسا ہی کچھ گھوٹکی میں ہوا جہاں ایک مخصوص طبقے کی املاک کو جلایا گیا یا لوٹ لیا گیا، محرابپور و اطراف کے گاوں دیہاتوں سے تو بہت ہی المناک خبریں موصول ہوئیں کہ بہت سی خواتین کو اٹھا لیا گیا، کراچی جو پہلے ہی 12 مئی کے سانحے کے غم سے باہر نہیں نکلا تھا کہ سانحہ السانحات کی لپیٹ میں آگیا، ٹیلیویژن و دیگر زریعوں سے موصول رپورٹس کے مطابق ایک دو نہیں سینکڑوں فیکٹریوں کو لوٹنے کے بعد آگ کے شعلوں کی نذر کردیا گیا جس میں سب سے زیادہ دلخراش بات یہ کہ بیسیوں مزدوروں کو ان کی مہاجر شناخت کی بنا پر زندہ جلادیا گیا، سینکڑوں خواتین فیکٹری ورکرز یا وہ جو مختلف مارکیٹس یا کسی اور سلسلے میں باہر تھیں شرپسندوں کے ہاتھ چڑھ گئیں جو اس سانحے کے بعد کبھی واپس لوٹ کر نہ آئیں، خاندان کے خاندان تباہ ہوگئے، ایک بار پھر سے حالات کی سنگینی ایسی تھی جیسے قیام پاکستان کے وقت ہجرت کرنے والوں سے جس طرح لوٹ مار کی گئی بالکل اسی طرح بلکہ اس سے دو ہاتھ آگے بڑھ کر لوٹ مار کی جارہی تھی، ریاست و ریاستی ادارے صرف تماشہ دیکھ رہے تھے اور دہشتگردی دندناتی پھر رہی تھی، پورے دو دن بعد جب حکومت کی طرف سے شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کا حکم جاری کیا تو سارے زبردستی کے غمگین دہشتگرد غائب ہوگئے اور دہشتگردی و لوٹ مار بھی ختم ہوگئی، کاش شروع میں ہی ایسا حکم دے دیا ہوتا تو ایسا نہ ہوتا، اگلی حکومت PPP کی تھی اس لیے نقصانات کے اعداد و شمار بہت کم کرکے دکھائے گئے جبکہ حقیقتاً ان دو دنوں میں اربوں کا نہیں کئی کھربوں کا نقصان ہوچکا تھا اور یہ ایک منظم منصوبہ بندی تھی جیسا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مختلف شہروں سے ایک ہی قسم کا آتش گیر مادہ اور ایک جیسے ڈنڈے ملے، اس کے بعد ایک نئے رواج نے جنم لیا کہ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ ہوتا تو سرکاری و غیرسرکاری املاک کو نذر آتش کرنا شروع کردیا جاتا ورنہ اس سے پہلے بھی MQM کے بہت سے رہنما قتل ہوے، ہڑتال ضرور ہوئیں لیکن جلاو گھیراو توڑ پھوڑ کبھی نہ ہوئی لیکن سانحہ 27 دسمبر کے بعد لوٹ مار آگ و خون کی ہولی نے ایسا رواج دیا کہ کوئی بھی ناخوشگوار بات ہوتی تو مارکیٹوں کو آگ لگادی جاتی جوکہ درحقیقت ریاست کو معاشی طور پر کمزور کرنے کے منصوبے کا حصہ تھا، افسوس کی بات ہے کہ مخصوص اہداف کی وجہ سے مخصوص الیکٹرونک میڈیا نے سانحہ 12 مئی کو تو زندہ رکھے ہوے ہے جبکہ عالمی تاریخ کی سب سے بڑی لوٹ مار، تشدد، دہشتگردی و شرپسندی جوکہ سانحہ لیاقت باغ کی آڑ میں مچائی گئی اسے دانستہ طور پر فراموش کر رکھا ہے تاکہ ایک مخصوص گروہ کا سیاہ باب لوگوں کی نظر سے اوجھل ہوجائے لیکن تاریخ مسخ نہیں ہوسکتی اور آج نہیں تو کل ضرور ان سے سوال ہوگا کہ ایسا کیوں ہوا؟


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں