مبارک گوٹھ و جزیرہ چرنا ائیرلینڈ…! (سید صفدر رضا)

پاک سرزمین کشور حسین کے شمالی علاقہ جات تو سیاحوں کی جنت ہیں ہی مگر پورا پاکستان عطیہ خداوندی سے کم نہیں، دنیا میں جو لینڈ سکیپ موجود ہیں وہ ہمارے وطن عزیز میں موجود ہیں پہاڑوں کی بلند ترین خشک و برف پوش چوٹیاں، سرد و گرم صحرا، گھنے جنگلات، سطوح مرتفع، جھیلیں، چشمے، آبشاریں، سمندر جزیدے کیا کجھ نہیں پاک سرزمین میں۔ ہم آج جنوبی پاکستان کراچی کے ساحلی علاقے کے بارے بتاتے چلیں کہ کراجی کی شاہراؤں کےبارے شاید آپ کی رائے مثبت نہ ہو مگر مبارک گوٹھ جاتی ہوئی بل کھاتی پہاڑی ٹیلوں کے درمیان خوبصورت منظر لئے شاہراہ کراچی کے ماتھے کا جھومر کہوں تو غلط نہ ہوگا۔

کراچی سے ڈیڑھ گھنٹے کا سفر طے کر کے ساحل سمندر جو منجھر بیچ کہلاتا ہے پہنچتے ہیں آپ یہاں گروپ کی شکل میں آتے ہیں مختلف پرائیویٹ کمپنیاں سیاحوں کی خدمت و حفاظت کےلئے تربیت یافتہ سٹاف ساتھ موجود ہوتا ہے جنکے آفس کراجی سٹی میں موجود ہیں جو مکمل سیاحت کے سازو سامان جس میں لائف جیکٹس، سنورکلنگ کا سامان ،آکسیجن کے سلنڈر، پانی میں دیکھنے والے چشمے و دیگر سامان اور سہولیات کے لئے تقریباً 3500 تا 6500 روپے کے پیکجز متعارف کراوتی ہیں۔

مبارک گوٹھ ضلع کیماڑی کے ساحل پر ماہی گیری کا دوسرا بڑا مرکز ہونے کے باوجود صحت کے بنیادی مرکز، سکول، مالکانہ حقوق، جیٹی اور مواصلات جیسی دور جدید کی اہم و بنیادی آسائش و سہولیات سے محروم ہے۔ یہاں کے باسی محنتی ہونے کے باوجود کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کچھ سستانے اور ہلکی پھلکی غذا کھانے کے بعد کشتی پر سوار ہوکر ایڈوینچر سفر کا آغاز کیا جاتا ہے۔

سفر شروع کرنے سے قبل آپکا شناختی کارڈ اور اس کی کاپی ساتھ ہونا ضروری ہے مزید راستے میں منہ چلتا رہے کچھ کوکیز، بسکٹ، نمکو، جوس اور پانی ہمراہ ہونے کے ساتھ اضافی رف سوٹ و تولیہ وغیرہ بھی ہونا چاہیے جو پانی میں غوطہ خوری کے وقت کام ائے۔ تربیت یافتہ سٹاف سیاحوں کو لائف جیکٹس پہنواتے ہیں اور سمندر کا سینہ چیرتی ہوئیکشتی منزل کی جانب گامزن ہوتی ہے ہماری کشتی وسیع و عریض سمندر پر پھیلی لہروں کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی کہ کئی ماہی گیر تلاش روزگار میں جال پھیلائے مصروف نظر آئے۔ایک کشتی میں سیاحوں کی تعداد 12 تا 15 ہوتی ہے۔

لیجئے ڈیڑھ سے دو گھنٹے کا دورانیہ ہوا ہوگا کہ سامنے منزل دیکھائی دینے لگی سب خوشی سے شور کرنے لگے جی ہاں یہ ہے چرنا ائیر لینڈ یہ بحیرہ عرب میں ایک غیر آباد جزیرہ ہے جو حب سے ڈیڑھ کلومیٹر مغرب میں اور مبارک گوٹھ سے چھ سے سات کلومیٹر پر ہےجو کہ صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ کے درمیان ہے یہ جزیرہ تقریباً سوا کلو میٹر لمبا اور آدھا کلو میٹر چوڑاہےاس میں ماہی گیری کی جاتی ہے اور ماہی گیری کے اعتبار سے یہ دوسرا بڑا مرکز ہے۔

کشتی لنگر انداز ہورہی تھی متعلقہ عملہ رسی سے ایک احاطہ بنانے میں مصروف ہوگیا، ویسے تو یہ پاکستان نیوی کے فائرنگ کی مشقوں کے لئے زیراستعمال ہے مگر سیاحوں کی دلچسپی کے لئے واٹر سپورٹس، اسپیڈ بوٹنگ، اسکوباڈائیونگ، فری ڈائیونگ، سرفنگ، کلف ڈائیونگ، سنورکلنگ جیسے ایڈوینچر سپورٹس موجود ہیں اس کے سازو سامان یہاں تک لانے والے تربیت یافتہ افراد ساتھ لاتے ہیں جنکی موجودگی میں سیاحوں کو بے خوف و خطر سمندر میں کودنے میں کوئی آر نہیں۔

سنورکلنگ کے شوقین افراد کو سمندر کے سینے پر تیرتے ہوئے سمندرمیں جھانکتے کے لئے خاص قسم کا چشمہ دیا جاتا ہے لائف جیکٹ پانی کی سطح پر جو افراد تیراکی نہیں جانتے انہیں بھی تیرنے میں ممد و معاون ہوتی ہے۔ عام شخص بھی سمندری حیات کو دیکھ سکتا ہے۔ کلف ڈائیونگ کے شوقین بلندی سے پانی میں اپنی اپنی باری پر چھلانگ لگاتے اور 20 سے 45 فٹ گہرے سمندر میں غوطے لگاتے ہیں اسکو با ڈائیونگ کے دلدادہ سمندر میں گہرائی میں جاکر سمندری حیات کو قریب سے دیکھ کر اٹھکیلیاں کرتے ہیں اس سارے سپورٹس کے دوران ماہر افراد جو کہ ٹرینر بھی اور ابتدائی طبی امداد سے خوب آشنا سیاحوں کی نگرانی میں مصروف رہتے ہیں جس وجہ سے جو سیاح پیراکی کے ماہر نہیں ہوتے وہ بھی خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔

چٹانوں میں انواع و اقسام کی آبی حیات دیکھ کر قدرت کا شکر ادا کیئے بغیر نہیں رہ سکتےطرح طرح کے آبی پودے زیر اب قدرت کی حمد کرتے نظر آتے ہیں جیلی فش، ابی سانپ، فرشتہ مچھلی، رے فش، سمندری ارچن، سیپ اور بہت کچھ ہے لیکن ماہی گیرغیر قانونی طریقے سے یہاں کے حسن کی تباہی کر رہے ہیں قانون کی عملداری ضروری ہے یہ ائیر لینڈ ستمبر تا اپریل تک سیاحوں کے لئے کھلا ہوتا ہے۔

مئی تا اگست بند ہوتا ہے کافی دیر پانی میں رہنے سے ٹھنڈ لگنے لگی، دوپہر کا کھانے کا انتظام بھی کمپنی کی جانب سے تھا نیلگوں آسمان شفاف پانی میں خوب عکس دکھا رہا تھا۔ خود تو سیاح واپس آگئے مگر سب ہی دل چرنا آئر لینڈ چھوڑ آئے واپسی میں سفر کا پتہ بھی نہیں۔ چلتا سب بڑھ چڑھ کر اپنے تجربات سے آگاہ کرنے میں مصروف تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں