وادی نیلم اور کنڈول جھیل (سید صفدر رضا)

کنڈول جھیل تک سفر اور ہمت اپنی جگہ مگر جیسے ہی ہم کوہالہ پل کراس کرتے ہیں بالکل جیسے پیاسے کی گردن سے پانی گزرتے ہوئے جسم میں جان ڈالتا ہے بالکل ایسے ہی کشمیر میں داخل ہوتے ہوئے، شہ رگ میں اترنے کا احساس بدلتے موسم مہکتی مٹی اپنے سحر میں جکڑے لیتا ہے۔

مظفرآباد سے کون واقف نہیں مگر ہم اپکو وادی نیلم جو اپنی حسین تحصیلوں کی بے مثل مناظر سے مالامال ہیں کی ایک چھوٹی مگر خوبصورت جھیل کی سیر کی آگاہی دے رہے ہیں جہاں عام سیاح پہنچنا درکنار اس کی راستے کی مشکلات پہلے ہی دم توڑ دیتیں ہیں مگر منزل مقصود پر پہنچنے والے سیاح اور ہائیکنگ کے ماہر اس سفر کو اپنی یادوں کے سر ورق گردانتے ہی کبھی نہ بھولنے والے مناظر ان کے ذہن پر نقش ہو جاتے ہیں۔ وادی نیلم کے دامن میں اج جانا صرف پاک فوج کی قربانیوں کے باعث ممکن ہوا۔

گذشتہ کئی سالوں سے وطن دشمنوں، زلزلے کی تباہ کاریاں، سرحد پار کی گولا باری کی وجہ سے سیاحوں نے یہاں سے اپنا رخ موڑ لیا تھا۔ الحمداللہ اب پھر سیاحوں کی بڑی تعداد یہاں کا رخ کرنے لگی ہے۔ یہاں خوبصورتی کا دور دورہ ہے انتہائی خم دار راستے گھنے جنگلات سے مزین، بلند وبالا پہاڑوں سے اٹھکیلیاں کرتے سرمئی بادل انتہائی خاموشی میں جھرنوں، چشموں، آبشاروں، بیہتی ندیوں کے پانی کی گنگناہٹ کانوں میں رس گھولتی آواز مظفرآباد سے چار گھنٹےکی مسافت کے بعد آٹھ مقام جو اپنی دلکشی کی نظیر نہیں رکھتا
، پہنچے کچھ دیر چہل قدمی سستانے اور شکرانے کے بعد شاردہ اور کیل کے لئے چلےجو وادی نیلم کے ابادی والے علاقہ جات ہیں۔

دریائے نیلم ہمراہی معلوم ہوتا ہے جو ساتھ ساتھ چل رہا ہے جس کی وجہ سے منسوب وادی نیلم اس کے دائیں اور بائیں کنارے پر پھیلی ہوئی ہے اس وادی میں لگ بھگ 25 تا 30 چھوٹی بڑی جھیلیں پائی جاتی ہیں جن میں بدلیاں، دھاریاں، رتی گلی، چٹاکٹھا اور گمنام جھیلوں میں باٹاں کلالیسر، راہوالاسر، جینوائی یاڈک سر جھیلیں ہیں۔

ضلع نیلم کی ایک منقسمم وادی گریز ہے جو 3 حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک گلگت بلتستان، دوسرا نیلم اور تیسرا حصہ بانڈی پورہ مقبوضہ کشمیر، یہ وادی 15 گاؤں پر مشتمل ہےجوحسین و دلکش ہےکیل سیکٹر، تاؤ بٹ، ہلمند، جینوائی، سرداری مولہ کے گاؤں ہیں کیل سے جیوائی کا فاصلہ تقریبآ 15 میل ہےسطح سمندر سے 7000 میٹر بلند ہے جہاں سے ایک فلک بوس پہاڑ دیکھائی دیتا ہے جس کے دامن میں جی نوائی جھیل جسے ڈک جھیل کہتے ہیں۔

ڈک مقامی زبان میں روکنا یا بند راستہ جہاں کے بعد آگے کوئی آبادی نہی وہاں اکیلے جانا تقریبا ناممکن ہے گائیڈ لینا ضروری ہے جسکی رہنمائی اور بہت تھکاوٹ کے بعد رات گاؤں میں گزارنا مناسب ہے کیمپ لگا لیئے۔ صبح ہوتے ہی رخت سفر باندھا پھر سے ہائیکنگ شروع شکر ہے موسم صاف ہے ورنہ چڑھائی چڑھتے ہوئے اور صرف فٹ بھر سے کم چوڑے راستے پر چلنے میں پھسلن کاڈر گہرائی کو دیکھتے ہوئے آنکھیں بند اور دل ڈوبتا ہےڈھائی سے تین گھنٹے کے اس کٹھن سفر میں اعصاب حوصلے کی آزمائش و امتحان دیتے آگے بڑھنا۔ کسی جوئے شیر لانے سے کم نہیں پہاڑوں کی ڈھلوان 55 سے 65 ڈگری ہوگی۔

گائیڈ تو اس طرح چل رہا تھا جیسے ہم شہروں میں چلتے ہیں اسٹک ساتھ ہونا ضروری ہے ہائیکنگ بیگ اور برساتی ہونا ضروری ہے جوتے بھی پائیدار ہوں اب قدر ڈھلوان کم اور چھوٹے بڑے پتھروں والا راستہ ہے۔ ہمیں جھیل پر پہنچنے میں چار گھنٹے لگے شفاف پانی جہاں گہرائی میں پتھروں کا نظارہ کرسکوں بلندی پر موجود جھیل نے ہماری ساری تھکن جیسے اپنے سینے میں سمیٹ لی ہو فاتحانہ انداز میں کچھ لمحات وہاں گزارے جو صدیوں پر محیط تھے واپسی اور بھی مشکل تھی جڑی بوٹیوں کو تھامتے ہوئے سنبھل سنبھل کر اترے پیچیدہ بل دار راستوں پر اترنا چڑھنے سے بھی مشکل تھا۔

راستے میں گاؤں کی مسجد ہےراہ میں چھوٹی سی اس مسجد میں شکرانے کے نوافل ادا کئے کیمپ والی جگہ پہنچکر پھر کیمپ لگا کر آرام کیا اپنے دوست نیشنل ٹورزم پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر میاں ذیشان شہزاد کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنے سروائیول گروپ کے ہمراہ ڈک سر جھیل ضرور وزٹ کریں قدرت کی بے ٹباتیاں دیکھ کر قدرت کی حمد کرتے ہوئے کبھی نہ بھلانے والا سفر کریں۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں