لیبیا، عالمی قوتوں کا نیا میدان جنگ…! (ساجد خان)

عرب انقلاب واقعی میں عوامی ردعمل تھا یا اس کے پیچھے بھی امریکہ بہادر کا منصوبہ تھا، یہ کہنا مشکل ہے ویسے بھی ہمیں ہمارے خلاف سازشوں کی حقیقت دو چار دہائیوں کے بعد ہی سمجھ آتی ہے، اس وقت جب ہم سب کچھ کھو چکے ہوتے ہیں لیکن کچھ اشارے ایسے ملتے ہیں کہ جس سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب امریکہ ہی کی پلاننگ تھی۔

جو بھی تھا مگر عرب انقلاب سے امریکہ نے فائدہ اٹھانے کی ضرور کوشش کی ہے۔ امریکہ کے دو اہم ٹارگٹ تھے اور وہ تھے بشار الاسد اور کرنل قذافی۔

جتنے بھی ممالک میں مظاہروں کا آغاز ہوا ان میں سے صرف ان دو ممالک میں ہی مظاہرین کے ہاتھوں میں بینر کے بجائے ہتھیار نظر آۓ۔

امریکہ اور یورپ کے ساتھ ساتھ عالمی میڈیا کو بھی صرف ان دو ممالک کے دکھ کھاۓ جا رہا تھا۔
بشار الاسد کی حکومت بچ گئی مگر قذافی کی حکومت گر گئی اور جلد ہی کرنل قذافی کو بھی قتل کر دیا گیا اور یوں امریکہ ایک اور ملک میں تباہی پھیلانے کے بعد سکون سے سائیڈ پر ہو گیا۔

عالمی میڈیا نے بھی لیبیا کو نظرانداز کرنا شروع کر دیا اور سب کی توجہ شام پر لگ گئی۔ لیبیا کی جنگ کو کئی سال نظرانداز کیا جاتا رہا مگر کچھ عرصہ سے لیبیا جنگ کی طرف توجہ مبذول ہونا شروع ہو گئی ہے۔

لیبیا کے حالات کافی پیچیدہ ہیں کیونکہ گزشتہ چند سالوں میں کون کس کی اور کیوں حمایت کر رہا ہے، یہ سمجھنا کم از کم میرے لئے مشکل ہے۔

اس وقت لیبیا میں دو بڑی طاقتیں ہیں، اول وفاق حکومت اور دوم جنرل خلیفہ حفتر۔ خلیفہ حفتر لیبیا فوج میں کرنل تھا جب 1987 میں لیبیا اور چاڈ میں مسئلہ کھڑا ہوتا ہے اور کرنل حفتر کو چاڈ آپریشن کا انچارج بنا دیا جاتا ہے لیکن کرنل حفتر تقریباً چھ سو فوجیوں سمیت چاڈ فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو جاتا ہے۔

قذافی شرمندگی سے بچنے کے لئے حفتر اور سپاہیوں کی حمایت کرنے سے اجتناب کرتا ہے، چاڈ میں مقدمہ چلتا ہے اور قیدی فوجیوں کو سزا ہو جاتی ہے مگر 1990 میں امریکہ سے ایک ڈیل کے بعد تمام فوجیوں کو رہا کر دیا جاتا ہے جس کے بعد امریکی حمایت سے کرنل حفتر نیشنل آرمی کے نام سے تنظیم تیار کرتا ہے جس کا مقصد کرنل قذافی کی حکومت گرانا تھا مگر اس دوران بہت سے سپاہی واپس لیبیا چلے جاتے ہیں اور کرنل حفتر کی کوشش بھی ناکام ہو جاتی ہے۔جس کے بعد حفتر تین سو فوجیوں کے ساتھ امریکہ میں پناہ لے لیتا ہے۔

دو دہائیاں امریکہ میں گزارنے کے بعد جب عرب انقلاب کا آغاز ہوتا ہے تو کرنل حفتر بھی لیبیا واپس آ جاتا ہے اور امریکی حمایت یافتہ حکومت میں حصہ دار بننے کے لئے آرمی چیف بننے کی کوشش کرتا ہے مگر حکومت نے اس کی یہ خواہش پوری نہ کی۔ اس کے بعد حفتر حکومت میں شراکت کے لئے کوشش کرتا رہتا ہے مگر مایوس ہونے کے بعد امریکہ واپس چلا جاتا ہے۔

2014 میں وہ ایک بار پھر قسمت آزمانے لیبیا واپس آتا ہے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کرتا ہے لیکن اس بار بھی اسے سنجیدہ نہیں لیا جاتا جس کے بعد اس نے ریٹائرڈ فوجی افسران سے خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا تاکہ وہ اپنی نئی فوج تشکیل دے سکے اور صرف تین ماہ بعد ہی اس نے اپنی ایک فوج کھڑی کر لی اور سب سے پہلے بن غازی میں مذہبی انتہا پسند تنظیم پر حملہ کیا اور یہاں سے جنرل حفتر کے اہم کردار کا آغاز ہوتا ہے۔

امریکہ سے مایوسی کے بعد حفتر کی امیدیں روس کے ساتھ جڑ گئیں اور ایک طویل عرصہ تک جنرل حفتر صدر پیوٹن کی حمایت حاصل کرنے کے لئے روس کے چکر لگاتا رہا مگر ابتداء میں اسے کچھ خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی لیکن جنرل حفتر جانتا تھا کہ اسے اسلحہ اور حمایت کی اشد ضرورت ہے لہذا وہ روس کے چکر لگاتا رہا بالآخر روس نے اس کی حمایت کی حامی بھر لی اور پھر یہ اطلاعات بھی آنے لگیں کہ جنرل حفتر کی فوج روسی ہتھیار استعمال کرتی نظر آ رہی ہے۔

جنرل حفتر وفاق حکومت کے خلاف آپریشن کرنا چاہتا تھا لیکن اس سے پہلے اسے عوامی حمایت چاہئے تھی، اس کے لئے اس نے سب سے پہلے ان علاقوں کا رخ کیا جہاں مقامی ملیشیا تنظیمیں کام کر رہی تھیں، ان کو ختم کرنا نسبتاً زیادہ آسان تھا۔
جوں جوں جنرل حفتر علاقے فتح کرتا رہا اس کی فوج میں اضافہ ہوتا گیا کیونکہ وفاق حکومت کافی کمزور ثابت ہوئی تھی جس کا اثر و رسوخ دارالحکومت کے علاوہ چند دوسرے علاقوں پر تھا جبکہ باقی ملک میں ہر علاقے میں الگ الگ تنظیمیں کام کر رہی تھیں جس سے عوام تنگ آ چکی تھی اس لئے انہیں محسوس ہوا کہ جنرل حفتر کی حمایت کر کے لیبیا کو دوبارہ متحد کیا جا سکتا ہے۔

جنرل حفتر نے اس کے بعد تیل سے مالامال علاقوں کا رخ کیا جہاں پر داعش جیسی سفاک تنظیم کام کر رہی تھی اور جلد ہی اسے بھی شکست دے دی۔
دوسری طرف وفاق حکومت نے جنرل حفتر کو دہشتگرد قرار دے دیا۔

2017 میں جنرل حفتر کو بن غازی پر مکمل کنٹرول حاصل ہو جاتا ہے جس کا اعلان اس نے ٹیلی ویژن پر ایک خطاب میں کیا۔ بن غازی پر قبضہ کے بعد جنرل حفتر نے دارالحکومت کا رخ کیا اور کافی دن کی خونی جنگ کے باوجود اسے کچھ کامیابی حاصل نہیں ہوتی اور وفاق کی فوج کے ایک سخت حملے کے بعد جنرل حفتر کو پسپائی اختیار کرنا پڑتی ہے اور اسے بہت سا اسلحہ چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔
ان ہتھیاروں میں چند ایسے میزائل بھی تھے جو فرانس سے درآمد کئے گئے تھے۔

وفاق حکومت فرانس پر حفتر کی حمایت کا الزام عائد کرتی ہے مگر فرانس نے کسی بھی قسم کی مدد کا انکار کر دیا، مزید تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ فرانس سے یہ میزائل متحدہ عرب امارات نے چند سال قبل خریدے تھے اور متحدہ عرب امارات نے یہ ہتھیار جنرل حفتر کے حوالے کئے تھے یوں متحدہ عرب امارات بھی ایک فریق بن کر سامنے آ گیا۔

دوسری طرف امریکہ اور یورپ وفاق حکومت کی حمایت کرتے نظر آتے تھے مگر لیبیا میں دوسرے علاقوں میں جنرل حفتر کو فضائی سپورٹ بھی امریکہ اور یورپ کی طرف سے دی جاتی رہی، جس کا انکشاف ائر کنٹرول ٹریفک کی ایک لیک ریکارڈنگ کے بعد ہوتا ہے،اس سے یہ بات سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے کہ امریکہ اور یورپ نے دونوں گروہوں پر دست شفقت رکھا ہوا ہے۔

یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار عالمی روایتی حریف یعنی کہ امریکہ اور روس ایک ہی شخص پر شرط لگائے ہوئے ہیں۔

اس کے بعد کردار آتا ہے سعودی عرب کا جو کہ پس پردہ جنرل حفتر کی حمایت کرتا رہا، جنرل حفتر کے آپریشن میں سلفی وہابی تنظیمیں بھی ساتھ دیتی نظر آئیں جبکہ چند ماہ پہلے یہ خبر بھی آئی کہ جنرل حفتر کی فوج میں چاڈ اور سوڈان کے کراۓ کے فوجی بھی شامل ہیں جن کو سعودی عرب نے خاص طور پر بھجوایا تھا۔

جنرل حفتر اب ایک دفعہ پھر دارالحکومت پر اپنی قسمت آزمائی کر رہا ہے اور ابتدائی طور پر وہ آگے بڑھ رہا ہے۔ وفاق حکومت اپنے اتحادی ممالک امریکہ اور یورپ سے مدد کی اپیل کر رہی ہے مگر دوسری طرف سے مسلسل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ امریکہ کو بہت سے افراد کو اکٹھا کر کے کمزور حکومت قائم کرنے سے جنرل حفتر جیسے فرد واحد کو حکومت میں لانے میں زیادہ فائدہ نظر آ رہا ہو گا۔

وفاق حکومت اس وقت عالمی طور پر تنہا نظر آ رہی ہے اور اس کی حمایت میں سوائے ترکی کے اور کوئی ملک نظر نہیں آ رہا۔ ترکی لیبیا کے معاملے پر نہایت سنجیدہ ہوتا نظر آ رہا ہے، جنگی امداد تو کافی عرصہ سے فراہم کیا جا رہا تھا مگر اب صورتحال کو دیکھتے ہوئے طیب اردگان نے وفاق حکومت کی مدد کے لئے ترک فوج بھیجنے کا اعلان بھی کر دیا ہے، جس کے لئے ترک پارلیمنٹ نے قرارداد بھی منظور کر لی ہے جبکہ گزشتہ چند ہفتوں میں ترکی نے شام سے حمایت یافتہ سینکڑوں باغیوں کو بھی لیبیا منتقل کیا ہے جو وفاق فوج کے ساتھ مل کر جنرل حفتر کے خلاف جنگ کریں گے۔

ترکی لیبیا میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہا ہے، یہ معلوم نہیں ہو پا رہا شاید جنرل حفتر کی اخوان المسلمون کو شکست دینا ترکی کو برا لگا ہو۔ لیبیا پارلیمنٹ نے ترک فوج بھیجنے کی درخواست کو فی الحال مسترد کر دیا ہے جبکہ جنرل حفتر نے آج ترکی کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا ہے۔

لیبیا کی صورتحال ابھی تک نہایت پیچیدہ ہے، کون کس کے ساتھ مخلص ہے اور کس کے کیا مقاصد ہیں یہ فیصلہ کرنا قدرے مشکل ہیں۔

اس میدان جنگ میں اگر کسی ملک کی کمی محسوس ہو رہی ہے تو وہ ایران ہے کیونکہ اس کا اس اہم معاملے کو مکمل طور پر نظرانداز کرنا ہضم نہیں ہو رہا، یہ کہنا تو بالکل غلط ہو گا کہ ایران کی لیبیا میں جگہ نہیں بن پا رہی کیونکہ ان حالات میں جگہ بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہے، جب ایران طالبان جیسے دشمن میں اپنی جگہ بنا سکتا ہے تو لیبیا اس کے لئے نہایت آسان ہدف ہو گا شاید اسے اتنی دور معاملے میں الجھنا پسند نا ہو یا وہ خطے میں ہی اتنا مصروف ہے کہ اسے لیبیا کا میدان جنگ ایک غیر ضروری محاذ محسوس ہوا ہو۔

لیبیا کے حالات آئندہ چند ہفتوں میں مزید پیچیدہ ہو جائیں گے اور اگر ترکی کی فوج روانہ ہو جاتی ہے تو اس جنگ میں مزید تیزی آتی جائے گی کیونکہ امریکہ اور خاص طور پر سعودی عرب کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ ترکی اس میدان سے فاتح ہو کر لوٹے۔

اس نئے میدان کے سجنے میں شام کے لئے خوشخبری ضرور ہے کہ اب عالمی قوتوں کی دلچسپی وہاں سے کم ہوتی جارہی رہی ہے جس کا مطلب ہے کہ شام میں امن قائم ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں