نلتر خوبصورت جھیلوں اور سکی کھیل کی وادی (سید صفدر رضا)

اللہ تعالیٰ خود حسین ہے اور حسین چیزوں کو پسند فرماتا ہے ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر کریں کم ہے کیونکہ ہمارا وطن اتنا حسین ہے کہ دنیا بھر میں اس کی نظیر نہیں ملتی ھم خوش قسمت ہیں کہ پاکستان میں رہتے ہیں آج ہم جس وادی میں جارہے ہیں وہ بین الاقومی طور پر تعارف کی محتاج نہیں اگر گلگت میں کھڑے ہو ں تو فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اگلا پڑاؤ یا منزل کون سی ہو دوستوں کی رائے مختلف ہونے کی وجہ سے مسئلے کا حل صرف قرعہ ہی رہ جاتا ہے جہاں کا قرہ نکلا وہ وادی گلگت سے 55 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اگر پنجاب سے ملتا جلتا لفظ استعمال کروں تو پنجھل بنتا ہے یعنی پانچ جھیلوں کی سر زمین گلگت سے ہنزہ کی جانب جاتے ہوئے شاہراہ ریشم یعنی قراقرم پر نومل نام کا مقام اور موڑ آتا ہے جہاں سے مڑ کر اپنی کنوینس کی بجائے کیکڑا لینا پڑتا ہے گھبرائیئے نہیں یہ ایک 4 بائی 4 جیپ کا نام ہے جو آپ کو منزل مقصود پرپا نیوں پتھروں پر ٹیڑے ترچھے راستوں حسین ودلکش نظاروں کے بیچ رواں دواں ہوتی ہے۔ موج مستی کرتے آگے بڑھ رہے تھے کہ کہیں کہیں چھوٹے موٹے ہو ٹل و ڈھا بے تھے جہاں چائے بڑی لذیذ ملتی ہے صبح جلدی نکلنے کے باعث ناشتہ بھی یہیں کیا سفر جاری تھا جو طویل نہ ہونے کے باوجود سہل نہ تھا۔ پانچ جھیلوں میں ہم پہلی اور خوبصورت جھیل جسے سترنگی جھیل کہتے ہیں سب کیکڑے سے اترے قریب ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے بعد یہاں پہنچے جہاں بوٹنگ بھی ہوتی ہے اپنی نوعیت کی انوکھی کشتی دیکھی جی ہاں اس کی ساخت کوئی چار ڈرموں پر پھٹے رکھے ہوئے بندھے ہوئے 14 یا 15 سال کا کھیون ہار 200 روپے فی کس کے حساب سے ہم دو افراد سوار ہوئے اور ست رنگی جھیل کی سیر شروع کر دی چپووں کی مدد سے چلتی اس کشتی کے سفر کا انوکھا تجربہ تھا ملاح کشتی جلاتا جارہا تھا معلومات دیتا جارہا تھا صاحب اس جھیل کو سترنگی جھیل اسلئے کہتے ہیں کہ دن بھر سورج کی روشنی میں اس کا رنگ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ ہمارے سامنے ایک باقاعدہ کشتی تھی جس پر کئی لوگ سوار تھے بچے نے بتایا وہ سالم کشتی کے ہزار سے بارہ سو روپے لیتے ہیں اس نے بتایا کہ تھوڑے فاصلے پر اس پہاڑ پر بلیو لیک ہے ہمارے دل میں وہ دیکھنے کا اشتیاق بڑھا سترنگی جھیل کی 45 منٹ سیر کے بعد ہائیکنگ کرتے بلیو لیک کی جانب گامزن ہوئے یہ کیا واقعی جیسا اس کے بارے سنا اس کو اس سے بھی زیادہ جازب نظر پایا اسکے علاؤہ یہاں بوڈو جھیل، حلیمہ جھیل، گرین لیک جھیلیں موجود ہیں اگر جنگلات کا ذکر نہ کروں تو اس وادی کو حسن و جمال سے آراستہ کرنے والے درختوں سے جو بلاشبہ قدرت کے پھیپھڑے ہیں زیادتی ہو گی یہاں پاپولس، سیجیریا، اولیہ، پستاسیہ، بیثولہ اور کئی قیمتی جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں اگر خوبانی کھانے کے بعد بھی بھول جاؤں یہ کیسے ممکن ہے۔ مخروطی اونچے اونچے سرومانند سر فخر سے بلند کئے۔ شجر جیسے وادی کے حسن پر نازاں ہیں جنگل کا ذکر ہو تو جنگلی حیات کا ذکر نہ کرنا دیانت داری نہ ہوگی سرخ فاکس، بھورا ریچھ، بھیڑیا جنگلی بکری، الپائین ائیکس، مارخور برفانی چیتا جھیل سے اترنے کے بعد جنگل دیکھا اور ایک برفانی لیپرڈ جسکا نام (لولی) مادہ ہے دیکھی جس کے بارے میں مشہور ہے یہ بہت چھوٹی تھی جب یہاں رکھی گئی ایک مرتبہ یہ یہاں سے میل لیپرڈ کے ساتھ بھاگ گئی تھی فوج کے جوانوں نے دوبارہ بازیاب کرایا۔

یہاں برفانی چیتے سے یاد آیا موسم سرما میں یہاں انٹرنیشنل سکی کے مقابلے بھی ہوتے ہیں جہاں فوج کے ہوتے ہوئے غیر ملکی سیاح بے خوف و خطر سکی کے مقابلوں میں شرکت کرنے ہیں یہاں رات گزارنے کے لئی کئی ریسٹ ہاؤس ہیں دل ہے۔ کہ گھومتے بھرتا نہیں رات آڑے آئی ہوٹل میں بون فائر کیا وہاں کے متعلق مقامی افراد نے جو ویٹر تھے وہاں کی دلچسپ اور معلوماتی تفصیلات سے آگاہ کیا اور یہاں کی سب جھلیں موسم سرما میں برف باری کے دوران جم جاتی ہیں ماسوائے ست رنگی جھیل کے یہاں بجلی کے پاور پلانٹ ہیں جو گلگت کو بھی بجلی فراہم کرتے ہیں دو پاور پلانٹ زیر تعمیر ہیں یہ خوبصورت وادی نلتر ہے بہت سی خوبیاں یکجا سموئے ہوئے ہے۔

رات خوب ہلہ گلہ رہا اور صبح سویرے نہ چاہتے ہوئے رخصت ہوتے ہوئے یادوں کی بارات لیئے ہوئے۔ نلتر کو اللہ حافظ کہا آپ کو جب بھی موقع میسر آئے یہ وادی گھومنا نہ بھولیں قدرت کی وطن عزیز پر برکتیں اور نوازشیں دیکھ کر بلا شبہ دل پکار اٹھے اور تم اللہ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں