پاکستان میں دہائیوں سے چلتے ایران مخالف پروپیگنڈہ کی حقیقت (ساجد خان)

اس موضوع پر میں بہت پہلے لکھنا چاہتا تھا مگر کبھی ایسا موقع نہیں ملا،اب جبکہ ایران پوری دنیا میں موضوع بحث ہے تو پاکستان میں بھی اس پر گرما گرم بحث جاری ہے۔

حالیہ دنوں میں ایک تحریر دیکھنے میں آئی جس کا عنوان تھا “ایران کے پاکستان پر احسانات” اور اس تحریر میں بہت سی ایسی باتیں لکھی دیکھیں، جن کے مطابق ایران پاکستان کا کبھی دوست نہیں رہا بلکہ ازل سے دشمن رہا ہے۔

ویسے تو یہ تحریر کافی پرانی ہے مگر جب بھی ایران موضوع بحث ہوتا ہے تو یہ تحریر ایک بار پھر سے نئی ہو جاتی ہے۔

ایران کی بہت سی پالیسیوں پر میں ہمیشہ سے ہی تنقید کرتا آ رہا ہوں اور جس طرح مجھے تنقید کرنے کا حق ہے اسی طرح دوسروں کو بھی حق پہنچتا ہے لیکن جب اس تنقید میں فرقہ وارانہ تعصب کی بدولت جھوٹ شامل ہوتا نظر آتا ہے تو پھر میں بھی ایران کا دفاع ضرور کرتا ہوں اور اس میں کوشش کرتا ہوں کہ صرف حقائق پر بات کی جائے۔ ایران کے معاملے پر اگر میں یہ کہوں کہ پاکستان میں ایک ہی اصول اپنایا گیا ہے کہ جھوٹ اتنا بولو اتنا بولو کہ سچ محسوس ہونے لگ جاۓ۔

ایران کے خلاف سب سے اہم جھوٹ یہ بولا گیا کہ خانہ کعبہ پر حملہ کرنے والے ایرانی حاجیوں کے بھیس میں آۓ تھے اور قبضہ کیا تھا۔

اس جھوٹ کو پھیلانے میں سپاہ صحابہ کا اہم کردار رہا ہے اور شاید ان کی اپنی ویب سائٹ پر ایک مکمل ڈاکیومینٹری بنا کر دکھائی گئی ہے جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ حملہ آور واقعی میں ایرانی ہی تھے۔

اہم ترین بات یہ ہے کہ اس قسم کا پروپیگنڈہ پاکستان سے باہر کسی ملک میں بھی عام نہیں ہے۔ اس پروپیگنڈے میں دو مختلف واقعات کو ایک بنا کر پیش کیا گیا۔

خانہ کعبہ پر حملہ 1979 میں ہوتا ہے اور اس تنظیم کے سب ارکان سعودی شہری تھے اور اس تنظیم کا سربراہ الجیہان نا صرف سعودی عرب کے علاقے نجد کا شہری تھا بلکہ مفتی ابن باز کا سابق شاگرد بھی تھا۔ یہ پروپیگنڈہ شاید مستقبل میں بھی زور و شور سے چلتا رہتا، بھلا ہو سعودی عرب کے فیس بک پر اپنے سرکاری میڈیا پیجز کا جو ہر سال اس واقعہ کی تفصیلات بتا کر پاکستان جاری جھوٹ کو بےنقاب کرتے آ رہے ہیں، یہاں تک کہ دو سال قبل الجیہان کے بیٹے کی سعودی فوج میں کرنل کے عہدے پر ترقی کی خبر بھی سعودی میڈیا نے خود ہی دی۔

دوسرا واقعہ جسے جوڑ کر ایران پر الزام لگایا جاتا ہے وہ خانہ کعبہ پر حملہ کے نو سال بعد کا ہے۔

1987 میں ایران کے سپریم لیڈر نے ایرانی حجاج کرام کو نصیحت کی کہ مسئلہ فلسطین کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کیا جائے اور اس کے لئے سب سے موزوں مقام حج ہے جہاں دنیا بھر سے مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں لہذا اس سال حج کے دوران مسئلہ فلسطین پر آواز اٹھائی جائے۔

روح اللہ خمینی کی نصیحت کو حکم سمجھا گیا اور ایرانی حجاج نے ہمیشہ کی طرح یہاں بھی جمعہ الوداع کے دن بعد از نماز ایک مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا۔

یہ مظاہرہ مسجد کے اندر تھا اور نا ہی اس کے احاطہ میں بلکہ ایک روڈ پر مظاہرہ کیا جانا تھا۔

سعودی حکومت نے اس مظاہرے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا کہ حج کے دوران کسی بھی قسم کے سیاسی اجتماع کی اجازت نہیں ہے۔ایرانی بضد تھے کہ مسئلہ فلسطین نا ہی سیاسی ایشو ہے اور نا ہی صرف فلسطینی قوم کا بلکہ یہ پوری امت کا مسئلہ ہے لہذا ہم یوم القدس ضرور منائیں گے۔

مظاہرہ شروع ہوتا ہے جس میں اسرائیل اور امریکہ کے خلاف نعرے بازی ہوتی ہے،سعودی پولیس انہیں روکنے کی کوشش کرتی ہے جس پر تصادم شروع ہو جاتا ہے جس پر پولیس گولی کا استعمال بھی کرتی ہے جس سے تقریباً چار سو حجاج کرام شہید ہو جاتے ہیں جن میں اکثریت ایرانی شہری تھے، اس واقعے کے بعد کچھ سال ایران حج کے لئے اپنے شہری بھیجنا بند کر دیتا ہے۔

اب ان دو واقعات کو ملا کر پاکستان میں ایک واقعہ پیش کیا گیا کہ ایرانی حجاج کرام خانہ کعبہ پر حملہ کرنے جا رہے ہیں حالانکہ اس حملے میں اکثریت سعودی شہریوں کی تھی جبکہ ایک یا دو حملہ آور پاکستانی بھی تھے اور وہ ان کا اپنا ذاتی ایجنڈا تھا، اس میں کوئی ملک ملوث نہیں تھا۔

اس کے علاوہ ایران پر احسانات کے نام سے پاکستان پر متعدد الزامات لگائے جاتے ہیں کہ ایران نے 1965 کی جنگ میں ہندوستان کو اپنے ہوائی اڈے پیش کر دیئے تاکہ وہ ایران سے پاکستان پر حملہ کر سکے اور اس بات پر آج بھی ایک بڑا طبقہ یقین کرتا ہے حالانکہ اگر وہ صرف گوگل پر نقشہ ہی دیکھ لیں تو انہیں سمجھ آ جائے گی کہ یہ سب جھوٹ ہے کیونکہ ایران اور ہندوستان کا فاصلہ تقریباً 2800 کلومیٹر ہے اور اس کے درمیان پاکستان آتا ہے، کوئی بیوقوف ترین شخص ہی ہو گا جو یہ مانے کہ ایران کے ہوائی اڈے پیش کئے گئے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ایران نے پاکستان کو اپنے ہوائی اڈے پیش ضرور کئے تھے اور پاکستان نے ہندوستانی حملوں سے محفوظ رہنے کے لئے اپنا ہوائی بیڑہ ایران منتقل بھی کیا تھا۔

اس کی تصدیق کے لئے آپ گوگل پر سرچ کریں گے تو آپ کو تفصیل مل جائے گی۔ اس کے علاوہ ایران نے جنگ کے دوران پاکستان کو پانچ ہزار ٹن تیل بھی مفت فراہم کیا اور ایرانی ڈاکٹرز اور نرسز کا ایک وفد پاکستان میں زخمیوں کا علاج بھی کرتا رہا۔

اس کے بعد جب امریکہ نے پاکستان کی ملٹری ایڈ معطل کی تو ایران نے جرمنی سے نوے Sabre جنگی جہاز خرید کر پاکستان کو تحفہ میں دیئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انقلاب ایران سے قبل پاکستان تیل کی خریداری ایران سے ہی کیا کرتا تھا کیونکہ ایران اس زمانے میں خطے میں امریکہ کا پولیس مین مقرر تھا اور سب عرب حکمران اس کے ماتحت سمجھے جاتے تھے۔

یہ بات بہت سے افراد جانتے ہوں گے کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ایران پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کیا اور پہلا غیر ملکی سربراہی وفد بھی ایران کا تھا جس نے پاکستان کا دورہ کیا۔

دوسرا الزام یہ عائد کیا جاتا ہے کہ ایران نے گوادر کے مقابلے میں چابہار پورٹ شروع کیا تاکہ پاکستان کو ناکام کیا جائے، اب اگر ہم ان دونوں پورٹ کی تاریخ دیکھیں تو چابہار پورٹ کی تعمیر شاہ ایران کے زمانے میں شروع ہوئی تھی یعنی آج سے کم از کم چالیس پچاس سال پہلے مگر چند سال بعد ہی حالات خراب ہونا شروع ہوۓ تو اس منصوبے پر کام رک گیا۔

انقلاب ایران کے بعد اس منصوبے پر توجہ نہیں دی گئی اور پھر برسوں بعد اس پر دوبارہ کام شروع کیا گیا۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ بات درست ہے کہ ایران کو حق پہنچتا تھا کہ وہ اپنی ترقی کے لئے جو بہتر محسوس ہو وہ کرے مگر ایران نے وہ پورٹ ہندوستان کے حوالے کیوں کیا جبکہ ہندوستان ہمارا بدترین دشمن ہے۔

میرے خیال میں اس کی بھی دو وجوہات ہیں،ایک یہ کہ ایران کو شدید پابندیوں کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت تھی لیکن امریکی پابندیوں کی وجہ سے کوئی ملک بھی سرمایہ کاری کرنے کے لئے تیار نہیں تھا، جب ہندوستان نے سرمایہ کاری کی آفر کی تو ایران اس سے انکار نہیں کر سکا،پاکستان یا دوسرے مسلم ممالک ایران میں سرمایہ کاری کرتے تو ایران کو ہندوستان کے ساتھ معاہدہ کرنے کی ضرورت نا پڑتی، وجہ ہم خود ہیں وہ یوں کہ دنیا بھر میں دشمنی اور مفادات کو علیحدہ رکھا جاتا ہے اور جہاں مفادات کی بات آتی ہے تو بدترین دشمن کے ساتھ بھی تعلقات قائم کر لئے جاتے ہیں۔

چین اور امریکہ کی دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ چینی معیشت کی سب سے بڑی مارکیٹ بھی امریکہ ہے،امریکہ آج بھی چین کا اربوں ڈالر کا مقروض ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ چین اگر امریکہ سے اپنا قرضہ واپس مانگ لے تو امریکہ کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ ہے لیکن شدید اختلافات کے باوجود چین ایسا نہیں کرے گا کیونکہ وہ امریکہ سے کاروبار کر کے اربوں ڈالر کمائی کر رہا ہے۔

ترکی کی اسرائیل پر تنقید بھی سب کے سامنے ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر سال ہزاروں اسرائیلی سیاح ترکی چھٹیاں منانے آتے ہیں جبکہ ترکی اور اسرائیل ہر سال چار ارب ڈالر کا کاروبار کرتے ہیں۔
ایران اور متحدہ عرب امارات کی کشیدگی کافی عرصے سے چلی آ رہی ہے لیکن ایران دوبئی کے ذریعے اربوں ڈالر کا کاروبار کر رہا ہے اور گزشتہ سال ابوظہبی اور دوبئی میں کشیدگی کی وجہ بھی ایران ہی تھا کیونکہ دوبئی نہیں چاہتا کہ ایران کے ساتھ اختلافات شدت اختیار کر جائیں اور ایک اچھا گاہک اس کے ہاتھ سے جاتا رہے۔
اب ہم آتے ہیں پاکستان پر۔

چین اور ہندوستان آپس میں کاروباری رقیب ہیں اور جن علاقوں میں چین کے کاروباری مفادات ہیں وہیں ہندوستان کے بھی ہیں اور دونوں ممالک کا آپس میں سخت مقابلہ چلا آ رہا ہے اور ہر منڈی میں چین اور ہندوستان میں انیس بیس کا فرق چلا آ رہا ہے سوائے افغانستان سے آگے کے علاقوں میں جہاں چین پچاس ارب ڈالر کا کاروبار کر رہا ہے جبکہ ہندوستان صرف پانچ ڈالر تک کاروبار کر سکا ہے۔
ہندوستان کی شدید کی خواہش تھی کہ اسے ان علاقوں تک راستہ مل جائے اور اس کے لئے اس نے متعدد مرتبہ پاکستان سے زمینی راستہ حاصل کرنے کی درخواست کی مگر پاکستان نے انکار کر دیا۔

دوسری طرف افغانستان بھی پاکستان پر منحصر کرتا نظر آتا تھا،یہاں تک کہ روز مرہ کی اشیاء بھی پاکستان سے درآمد کی جاتی تھیں لیکن افغانستان کے لئے مسئلہ یہ تھا کہ جب بھی افغانستان پاکستان کی بات نہیں مانتا تھا یا پاکستان ناراضگی کا اظہار کرتا تو سرحد بند کر دیتا تھا جس سے
افغانستان مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ جاتا۔

افغانستان کو بھی اپنی معاشی تباہی سے بچنے کے لئے پاکستان کا نعم البدل چاہئے تھا تاکہ پاکستان کی اجارہ داری کم ہو سکے لہذا جب ہندوستان نے ایران سے چابہار پورٹ پر سرمایہ کاری کی بات کی تو ایران نے منظور کر لی کیونکہ اس سے ایران کو کافی فائدہ پہنچنے والا تھا۔

بیرونی سرمایہ کاری کا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی قسم کی بیرونی جارحیت کے امکانات کم ہو جاتے ہیں کیونکہ اس ملک سے دوسرے ممالک کے مفادات بھی جڑ جاتے ہیں، چابہار پورٹ کے معاملے پر بھی کچھ ایسا ہوا امریکہ نے ایران پر پابندیاں عائد تو کیں مگر ہندوستان کے دباؤ پر چابہار پورٹ پر پابندیاں عائد کرنے سے اجتناب کیا، ایران کو بھی سخت پابندیوں کے باوجود ہندوستان کی وجہ سے ہی مگر سانس لینے کا موقع ضرور مل گیا۔

دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ افغانستان اور اس سے آگے سابق سویت یونین ریاستوں تک پہنچنے کے لئے ہندوستان سرمایہ کاری کرے گا،سڑکوں کا جال بچھائے گا جس سے ایران بھی مستفید ہو گا۔
اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان نے جذبات میں آ کر نا صرف اپنا بہت نقصان کیا بلکہ افغانستان پر قائم اپنی اجارہ داری بھی ختم کی۔

ہندوستان کو زمینی راستہ دینے سے پاکستان کو جہاں اچھی آمدن ہونی تھی وہیں افغانستان اور ہندوستان دونوں ہی احسان مند بھی رہتے لیکن ہم خود غلط فیصلے کر کے الزام دوسروں پر تھوپنے میں مہارت رکھتے ہیں اور جو یہ کہتے ہیں کہ ایران نے چابہار پورٹ ہندوستان کے حوالے کر کے ہندوستان کو پاکستان کی سرحد پر بیٹھنے کا موقع دیا تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہندوستان کے ساتھ پاکستان کی کئی سو میل سرحدیں ملی ہوئی ہیں، اب ہندوستان نے پاکستان کے خلاف کچھ کرنا ہو تو اس کے لئے یہ طویل سرحد ہی کافی ہے۔

ایران کے خلاف ایک پروپیگنڈہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ایران نے را سے مل کر بلوچستان میں حالات خراب کۓ،میرے خیال سے اس میں بھی کوئی حقیقت نہیں ہے کیونکہ بلوچستان دو حصوں میں تقسیم ہے جس کا آدھا حصہ پاکستان میں ہے جبکہ آدھا حصہ ایران میں ہے۔

ایران کے بلوچستان میں بھی طویل عرصہ سے بغاوت کی تحریک چل رہی ہے اور پاکستان کے بلوچستان میں بھی ایسے ہی حالات ہیں،اب اگر کسی بھی ملک کا بلوچستان آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو دوسرے ملک کا بلوچستان خود بخود ہی آزاد ہوتا چلا جائے گا،اب پاکستان اور ایران میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ وہ اپنا علاقہ کھو بیٹھے۔

شاہ ایران کے زمانے میں جب پاکستانی بلوچستان میں حالات خراب ہوۓ تھے تو ایران نے حالات کنٹرول کرنے کے لئے پاکستان کو ملین ڈالرز کی امداد بھی دی تھی، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے چند سال قبل عراقی کرد علاقے نے آزاد ریاست کا اعلان کر دیا تھا تب ترکی، ایران، شام اور عراق سب اختلافات بھلا کر کرد قوم کے خلاف متحد ہو گۓ تھے کیونکہ ترکی اور ایران جانتے تھے کہ اگر عراق میں آزاد کردستان ریاست وجود میں آتی ہے تو اگلی باری ایران اور ترکی کے کرد علاقوں کی علیحدگی ہو گی۔

جہاں تک بات ہے ہندوستانی جاسوس کلبھوشن یادیو کی تو وہ پاکستان میں پہلی بار نہیں آیا تھا بلکہ وہ 2004 سے پاکستان میں آمد و رفت رکھے ہوئے تھا اور وہ اس کے لئے ہندوستانی مسلمان کا پاسپورٹ استعمال کرتا رہا۔

ایران میں مقدس مقامات کی وجہ سے دنیا بھر میں زائرین کی آمد و رفت رہتی ہے جن کو بنا کسی تحقیق یا تفتیش کے ویزا جاری کر دیا جاتا ہے یا کلبھوشن یادیو چابہار پورٹ پر ایک سرکاری ملازم کے طور پر رہتا رہا تب بھی اس میں ایران کے ملوث ہونے کے امکانات کم ہیں کیونکہ چابہار پورٹ پر تعمیری کام جاری ہے جس کے ہندوستانی افراد کا آنا جانا عام بات ہے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کلبھوشن یادیو گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان آ رہا تھا، ظاہر ہے کہ وہ باقاعدہ ہندوستان میں پاکستانی ایمبسی سے ویزا لے کر داخل ہوتا تھا یا ایران سے پاکستان میں داخل ہوتے وقت بھی اس نے داخل ہونے کی مہر لگوائی تھی تو تب اسے گرفتار کیوں نہیں کیا گیا اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق سانحہ راجہ بازار میں ملوث دہشتگرد جنہیں جنرل صاحب نے خود دیوبندی مسلک سے بتایا کہ وہ بھی کلبھوشن یادیو نیٹ ورک کا حصہ تھے تو ایران دیوبندی مسلک کے دہشتگردوں کی حمایت کر کے شیعہ آبادی کے خلاف کیوں استعمال کرتا۔ یہاں عزیر بلوچ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ایرانی شہریت رکھتا تھا جس کا مطلب ہے کہ وہ ایرانی ایجنٹ تھا۔

آپ اگر بلوچستان میں آباد بلوچ برادری کے بارے میں تحقیق کریں تو آپ کو ایک بہت بڑی تعداد ایسی ملے گی جن کے پاس پاکستان اور ایران کی دوہری شہریت ہے،اسی طرح ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جن کے پاس پاکستان اور عمان کی دوہری شہریت ہے،اس لئے صرف دوہری شہریت ہونے سے کوئی کسی ملک کا ایجنٹ ثابت نہیں ہوتا، عزیر بلوچ کراچی میں پلا بڑھا، یہیں پر غنڈہ بنا اور یہیں پر سیاست دانوں کے لئے کام کرتا رہا،وہ اگر ایجنٹ تھا تو سیاسی جماعتوں کا تھا۔

پاکستان میں ایران کی طرف سے پاکستانی سرحد میں گھس کر آپریشن کرنے کے بیان پر بھی شدید تنقید کی جا رہی ہے اور اسے پاکستان دشمنی سمجھا جا رہا ہے۔

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان کے تمام پڑوس ممالک کو یہ شکوہ رہا ہے کہ پاکستانی سرحد سے در اندازی ہوتی ہے۔

ہندوستان کی شکایت کو ہم دشمن کا جھوٹ سمجھ کر نظرانداز بھی کر دیں تو افغانستان کی شکایات پر کیا کہیں گے، افغانستان کو بھی نظرانداز کر دیں تو ایران کی شکایات کا کیا جواب ہے۔یہاں تک کہ چین کو بھی اس بات کا شکوہ رہا کہ پاکستان سے ملحقہ علاقوں میں پاکستانی شہری گھس کر مسلمان اکثریتی علاقوں میں حالات خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان کو اگر اس معاملے میں کسی پڑوسی کو کبھی شکوہ نہیں رہا تو وہ واحد بحیرہ عرب ہے۔

ایران کی ملحقہ سرحد کی وجہ سے پاکستان کے علاقے ایران کے خلاف بنائی گئی دہشتگرد تنظیموں کے لئے محفوظ علاقہ رہا ہے۔

جند اللہ ایرانی دہشتگرد تنظیم تھی جس نے ایران میں بیشمار دہشتگرد حملے کئے اور اس کے اڈے طویل عرصہ تک پاکستان کے بلوچستان میں قائم رہے اور اس تنظیم کا سربراہ ریکی بھی پاکستان میں بیٹھا رہا اور وہ بالآخر پاکستان سے سفر کر رہا تھا کہ ایرانی انٹیلی جینس کو اطلاع ملی جس پر انہوں نے اپنی فضا میں جہاز پہنچنے پر زبردستی اتار کر ریکی کو گرفتار کیا اور پھانسی دے دی۔

پاکستان میں پہلے ایرانی شہری صادق گنجی کا ہوا جو کراچی میں قونصلیٹ جنرل تھا، اس کے بعد پاکستان میں ایرانی شہریوں کی لاتعداد ٹارگٹ کلنگ کی گئی جس میں سب سے اہم واقعہ ایرانی کیڈٹس کا تھا جنہیں راولپنڈی میں بس پر حملہ کر کے مار دیا گیا حالانکہ وہ سرکاری دورے پر تھے صرف یہی نہیں مشہد میں روضہ امام رضا علیہ السلام کے حرم کے اندر پہلا خودکش حملہ کرنے والا بھی پاکستانی ہی تھا۔

یہ سب احسانات پاکستان کی طرف سے ایرانی قوم پر کئے گئے۔

ایران میں پاکستان کے کتنے شہریوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک بھی نہیں لیکن پاکستان سے بہت سی لاشیں گئیں جن میں سفارت کار بھی تھے، کیڈٹس بھی۔

گزشتہ چند سالوں میں پاکستان ایران سرحد پر کافی حالات خراب نظر آۓ جس میں ایرانی فوجیوں پر حملے اور اغواء کے واقعات بھی تھے اور اغواء شدہ ایرانی فوجی بعد میں پاکستان سے بازیاب ہوۓ، ان سب واقعات پر ایران مسلسل شکایات کرتا رہا مگر اسے سنجیدہ نہیں لیا گیا اور پھر جب آخری بار حملہ ہوا تو ردعمل میں ایران نے خبردار کیا کہ اگر پاکستان نے ان دہشتگردوں کے خلاف موثر کارروائی نا کی تو ایران خود کارروائی کرے گا، یہ کوئی اتنا بڑا معاملہ نہیں ہے، اس طرح کے بیانات متعدد مرتبہ پاکستان افغانستان کے بارے میں دے چکا ہے بلکہ فضائی حملے بھی کۓ جا چکے ہیں اگر یہ دشمنی ہے تو پھر پاکستان بھی افغانستان کا دشمن ٹھرا۔

جنرل باجوہ کی سربراہی کے بعد پاکستان نے سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لئے کافی اقدامات کۓ ہیں جس کے بعد افغانستان اور ایران کی شکایات کا کافی حد تک ازالہ کیا گیا ہے۔

ایران ہمارا نا ہی دشمن تھا اور نا ہی ہے بلکہ اس کے بہت سے احسانات ہیں۔

پاکستان کو گیس کی کمی کا سامنا تھا،ایران کے پاس گیس تھی،ایران کے ساتھ معاہدہ ہوا اور یوں ایران نے پائپ لائن پر کام کرنا شروع کر دیا تقریباً دس سال پہلے پاکستان کی سرحد پر ایران نے پائپ لائن پہنچا دی گئی مگر پاکستان میں ایک روپے کا کام بھی نہیں کیا۔

سخت پابندیوں کے باوجود ایران نے اس پراجیکٹ پر اربوں ڈالر خرچ کر کے پائپ لائن سرحد تک پہنچائی۔

ایران اگر آج بھی عالمی عدالت میں جا کر مقدمہ دائر کرے تو پاکستان کا جرمانہ کی مد میں خزانہ خالی ہو جائے گا لیکن ایران نے ایسا نہیں کیا حالانکہ اگر ہم ایران سے فائدہ اٹھانا چاہتے تو ہمارے ملک میں انرجی بحران کب کا ختم ہو چکا ہوتا لیکن ہم اپنے مفادات کے بجائے غلامی میں نقصان کو ترجیح دیتے آ رہے ہیں۔

ہمیں اپنے مفادات کی طرف توجہ دینی چاہئے تھی آج ایران سے عراق اور ترکی سمیت دیگر پڑوسی ممالک گیس درآمد کر رہے ہیں لیکن امریکہ نے انہیں گولی نہیں ماری پھر ہم گیس کی درآمد پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں۔

ایران سے دوری کی اہم وجہ ہمارا لالچ ہے ہم ہمیشہ اسے ہی دوست مانتے ہیں جو ہم پر ڈالرز اور ریال کی ریل پیل کر دے۔ ایک وقت پر ایران سے پیسہ آتا تھا تو وہ ہمارے لئے سب سے اچھا تھا، جب اس کے حالات خراب ہوۓ تو ہم نے سعودی عرب کو گلے لگا لیا۔

پاکستان اگر چاہتا تو ایران سے بہت سے فوائد حاصل کر سکتا تھا اور پڑوسی ہونے کے ناطے ایم مضبوط اتحاد بنا سکتا تھا مگر ہم نے اپنے ضمیر اور مفادات دور کے اتحادیوں سے جوڑ رکھے تھے جس کی وجہ سے دوریاں بڑھتی گئیں۔

ہم اپنے دشمن بنانے یا اچھے دوست کھونے کے ذمہ دار خود ہیں، اس لئے ہمیں بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہماری تنہائی کے ذمہ دار ہم خود تو نہیں ہیں۔

جب تک ہم صرف خود کو ہی حق اور واحد اسلامی قلعہ سمجھتے رہیں گے ہم تنہا ہی رہیں گے۔ ایران نے پاکستان کا مشکل حالات میں بہت ساتھ دیا مگر ایران کی مشکل میں پاکستان کبھی سعودی عرب اور امریکہ کے ساتھ کھڑا نظر آیا تو کبھی لاتعلقی کا اعلان کرتا نظر آیا۔

اس طرح یک طرفہ دوستی زیادہ عرصہ قائم نہیں رہتی لیکن کوئی کس سے شکوہ کرے جب پاکستان سعودی عرب کی ناراضگی کے خوف سے ملائیشیا سمٹ میں شریک نا ہوا تو وہ ایران کے ساتھ کیا کھڑا ہو گا لیکن ہم ایران سے یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ وہ ہندوستان سے کاروباری تعلقات ختم کر دے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں