ایران طیارہ حادثہ، انسانی غلطی یا حماقت…! (ساجد خان)

ایران نے بالآخر یوکرائنی جہاز حادثہ کی ذمہ داری قبول کر لی جس میں تقریباً پونے دو سو افراد جاں بحق ہوئے۔ جن کی اکثریت ایرانی شہریوں کی ہے۔ جہاز حادثے کے فوری بعد ہی یہ شکوک و شبہات سامنے آنا شروع ہو گۓ تھے کہ یہ جہاز ایران کے امریکی اڈے پر چلائے گئے میزائل لگنے سے تباہ ہوا۔ گو کہ یوکرائن حکومت اور ایران نے اس کی تردید کی مگر بعد میں یوکرائن حکومت نے بھی فنی خرابی کا امکان یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ جہاز صرف تین سال پرانا تھا اور بہترین حالت میں تھا۔جس کی وجہ سے کسی بھی قسم کی فنی خرابی کے امکانات نا ہونے کے برابر تھے۔

ایران بدستور اس کا انکار کرتا رہا مگر آج بالآخر اسے انسانی غلطی مان کر اعتراف کر لیا۔ اس طرح کا واقعہ نا ہی پہلا ہے اور نا ہی آخری۔ ہوائی سفر کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ان واقعات کی ابتداء پہلی جنگ عظیم میں ہوئی جب 1930 میں ایک چینی جہاز کو جاپان کے جنگی جہازوں نے نشانہ بنایا۔

اس کے بعد ایک طویل فہرست موجود ہے جس میں جان بوجھ کر یا غلطی سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ یوکرائن خود ایسے واقعات میں ملوث رہا ہے جب 2001 میں سائبیریا ائر لائن میزائل کے حملے میں تباہ ہو گیا کیونکہ یوکرائن کے علاقے کریمیا میں فوجی مشقیں جاری تھیں اور اس دوران فائر کیا گیا میزائل جہاز سے ٹکرا گیا۔

اس کے بعد 2014 میں ملائشیا کا جہاز بھی یوکرائن میں تباہ ہوتا ہے، جس میں تقریباً تین سو افراد سوار تھے اور اس حادثے کی وجہ یوکرائن میں روسی نواز باغیوں کے خلاف جاری آپریشن میں میزائل داغنا قرار پایا جو ہوائی جہاز سے ٹکرا گیا۔

ایران خود بھی ماضی میں اس طرح کے ایک حادثے کا شکار ہو چکا ہے جب اسی کی دہائی میں امریکی بحری جہاز کے میزائل حملے میں ایران ائر لائن کا جہاز تباہ ہوا تھا جس میں عملہ سمیت 290 مسافر جاں بحق ہوئے۔

ایران نے اس واقعہ کو دہشتگردی قرار دیا تھا جبکہ امریکہ نے اس کو نا ہی انسانی غلطی کہا اور نا ہی معافی مانگی بلکہ جب وہ بحری جہاز وطن واپس پہنچا تو اس کا ہیرو کے طور پر پرتپاک استقبال کیا گیا۔

ان سب واقعات کو انسانی غلطی یا ہوائی جہاز کا غلط وقت پر غلط مقام پر ہونا بھی کہا جا سکتا ہے لیکن ایران کے موجودہ واقعہ میں صورتحال کچھ مختلف ہے۔ ایران نے امریکہ سے قاسم سلیمانی قتل کا بدلہ لینا تھا اور اس کے لئے امریکی اڈوں پر میزائل حملے کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔

یہ حملہ عین اس وقت کیا گیا جب کچھ دن قبل امریکہ نے قاسم سلیمانی پر بغداد میں حملہ کیا، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایران اس حملے کی پہلے سے منصوبہ بندی کر چکا تھا۔

جب منصوبہ بندی کی جا رہی تھی تو اس بات پر غور کرنا بھی ان کی ذمہ داری تھی کہ ایسے وقت میں ایران کے کسی ائر پورٹ سے کوئی بھی جہاز پرواز نا کر سکے، ان حالات میں کسی بھی قسم کے عوامی نقصان سے محفوظ رہنا اولین ترجیح ہوتی ہے کیونکہ جب میزائل ایک دفعہ چل جائے تو اسے کنٹرول کرنا انسان کے بس میں نہیں ہوتا۔

میزائل یا کسی بھی ہتھیار کو دوست اور دشمن کا فرق معلوم نہیں ہوتا اس کا مقصد صرف نشانہ کی طرف بڑھنا ہوتا ہے اور اس کی زد میں جو بھی آۓ اس کا نقصان ہونا لازمی ہے خواہ وہ دوست ہو یا دشمن۔

گزشتہ سال جب شام میں ایک روسی جنگی جہاز تباہ ہوا تھا تو وہ بھی اس سے ملتا جلتا ہی واقعہ تھا۔

روسی جہاز باغیوں کے علاقے میں بمباری کے لئے اڑتے ہیں جس کی اطلاع قریبی ممالک کو بھی دی جاتی ہے،اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل نے بھی شام میں ایرانی فوجیوں پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ایسے وقت میں روسی دفاعی نظام کام نہیں کر رہا ہو گا یا روس اس حملے کو نہیں روکے گا۔

اسرائیلی جہاز شامی حدود میں داخل ہوتے ہیں اور دفاعی نظام دشمن ملک کے جہاز داخل ہونے پر ایکٹو ہو جاتا ہے، میزائل داغے جاتے ہیں جس کی ضد میں روس کا اپنا جنگی جہاز ہی زد میں آ جاتا ہے۔

دنیا میں ٹیکنالوجی جتنی جدید ہوتی جا رہی ہے اتنا ہی انسانیت کے لئے خطرہ بڑھتا جا رہا ہے اور بہت سے ہوائی جہاز ایسی ہی غلطیوں کا شکار ہوئے ہیں۔

ایران کی حماقت کہیں یا لاپرواہی کہ اتنی جانیں ضائع ہو گئیں حالانکہ ایران کو اس بات پر خصوصی توجہ دینی چاہئے تھی کہ جب حملہ کیا جائے تو اس سے کچھ وقت پہلے کسی بھی ائر پورٹ سے پروازیں معطل کر دی جاتیں اور یہ اتنا مشکل کام بھی نہیں تھا کیونکہ پرواز میں تاخیر کوئی اتنا معاملہ نہیں تھا مگر اس سے جہاں درجنوں بیگناہوں کی زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں وہیں اپنے لئے نئ پریشانی پیدا کرنے اور سبکی سے بھی محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

دوسرے واقعات اور اس واقعہ میں اہم فرق یہ بھی ہے کہ ان واقعات میں ہوائی جہاز اسی ملک کے ائر پورٹ سے نہیں اڑا تھا، اس واقعہ میں میزائل چلانے والے اور جس ائر پورٹ سے جہاز پرواز کرتا ہے دونوں کا تعلق ایک ہی ملک سے ہے، اس لئے اس واقعہ کو انسانی غلطی کہنا صحیح نہیں ہو گا بلکہ یہ سنگین حماقت یا لاپرواہی قرار دی جانی چاہئے اور اس حماقت کے ذمہ داران کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہئے۔

آج تک جتنے بھی کسی غلطی کی وجہ سے حادثات ہوئے ہیں اس میں عالمی طور پر کوئی سخت سزا نہیں ملی البتہ ورثاء کو ممالک نے رقم دے کر معاملہ ختم کر دیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہوائی جہازوں کے تحفظ پر زیادہ دھیان نہیں جاتا لیکن اب اس معاملہ کو سنجیدہ لینا چاہئے، ایران کے سپریم لیڈر نے بھی ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا ہے اور انہیں سزا ملنی بھی چاہئے تاکہ ان غلطیوں اور حماقتوں میں کمی لائی جا سکے ورنہ یوں ہی سینکڑوں جانیں ضائع ہوتی رہیں گی اور ممالک رقم ادا کر کے سنگین واقعات کا معمولی سا ازالہ کر کے معاملات کو دباتے رہیں گے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں