ڈیرہ پھلاں دا سہرا…! (سید صفدر رضا)

نیشنل ٹورزم پاکستان کے ڈاکٹر میاں ذیشان شھزاد کا سیاحت کے سمینار میں کہنا تھا کہ پاکستانی سیاحت چار شعبے رکھتی ہے ایک نیچرل بیوٹی یعنی قدرتی مناظر دوسری فیتھ ٹورزم جن میں مزارات مندر سکھوں کے اہم مقامات وغیرہ تیسری تاریخی مقامات چوتھا جدید تھیم پارک سوزو واٹر پارک سفاری پارک بحریہ ٹاون کے سیاحوں کو متوجہ کرنے والے پروجیکٹ تو اج ہم کےپی کے کے ایسے ڈویزن اور ڈسٹرکٹ کا ذکر کرنے جارہے ہیں جو تاریخی لحاظ سے بہت پرانا ہے جس کے گلیوں بازاروں سے گزرتے ہوئے عہد رفتہ سے زندگی کے موجودہ دور کا سفر آنکھوں میں سنہیرے خواب کی تعبیر محسوس ہوتا ہے ویسے بھی دنیا کی قدیم بستیاں دریاؤں کے کنارے آباد ہیں اس ڈسٹرکٹ کو پہاڑوں کی کمان اور دروں کی گزرگاہیں اور اس کے ایک جانب دریائے سندھ اپنی وسعت کے ساتھ رواں ہے جس کے مغربی کنارے پر آباد شہر جسکا میں ذکر کر رہا ہوں ڈیرہ اسماعیل خان جسکا اسم با مسمی ایک بلو چی سردار کے بیٹے اسماعیل خان کے نام سے جانا جاتا ہے ڈویژن کے مقا بلے سٹی بہت چھوٹا ہےاس کے بارے مشہور ہے کہ یہ پندرویں صدی سے آباد ہےکھیتی باری کا مرکز جانا جاتا ہے ڈیرہ اسماعیل خان، پرووا، درابن پہاڑپور اور کلاچی پانچ تحصیلوں پر مشتمل ہے یہاں موجود کافر کوٹ کے کھنڈرات ھڑپہ اور موہنجوڈارو سے قدیم لگتے ہیں جن سے ہندوؤں کی وابستگی آج بھی ہے قیام پاکستان میں ڈیرہ کا اہم کردار ہےکھنڈرات میں ہندوؤں کے خستہ حال مندر اس بات کی دلیل ہے کہ یہ زمانہ قدیم میں ہندوؤں کا مسکن رہی ہے یہاں بسنے والے سردار اپنی زمین بیچتے رہے ہیں تبھی یہاں کوئی ایک قوم نہی یہاں مقامی افراد کے علاؤہ پٹھان مہاجر بلوچ اور کچھ مقامی جنہیں ڈیرہ وال کہا جاتا ہے پشتو بلوچی ہندکو سرائیکی اور دفاتر و عدالت میں اردو اور انگریزی زبان کا استعمال ہوتا ہے سرائیکی کا مشہور جملہ (ڈیرہ پھلاں دا سہرا) اسکے بسنے والوں کی مہمان نوازی ومحبت کا عکاس ہے یہاں دودھ خالص اور خاصہ ہے کیونکہ کچے کے علاقہ سے لوگ در یا عبور کرکے پہنچاتے ہیں کسی دور۔ میں کشتیوں کے پل کراس کر کے دریا خان پنجاب داخل ہوتے تھے اس ہی دور کی یادگار S S jehlum بحری جہاز جسے ڈیرہ کا ٹائیٹینک کہوں تو غلط نہ ہوگا دریائے سندھ میں چلا کرتا تھا شاید تباہ ہو چکا ہےاچھے وقت کی یاد پولو گراؤنڈ میں لگنے والا میلہ مویشیاں ڈیرہ کی ثقافت کا مظہر سمجھا جاتا تھا شادی بیاہ کے موقع پر جھومر ڈالنا ڈھول کی تھاپ پر رقص کرنا دولہا سے شرارتیں کرنا ٹقافت کا حصہ سمجھا جاتا ہے ڈیرہ آرٹس کونسل کے سامنے کینٹ سے ہوتا ہوا راستہ لب دریا جاتا ہے جو اب ملکی حالات کے اور سیکیورٹی کے پیش نظر عوام کے لیئے بند ہے دریا پر ہوٹل مڈوے اور انڈس ویو دریا کنارے آنے والے سیاحوں کی میزبانی کرتے تھے اب لانچ دریا میں سیاحوں کے لئے استعمال ہوتی ہے جہاں سورج غروب ہوتے ہوئے اپنے نقوش چھوڑ جاتاہے ڈیرے کی مشہور جگہ جو مرکزی شہر میں ہے چوگلہ ہے جہاں سے چاروں جانب بازار نکلتے ہیں شمال میں مسلم اکثریتی علاقہ مسلم بازارمشرق میں ہندو ابادی والابازار کلاں بڑا بازار جنوب میں بھاٹیا بازار مغرب میں پوندہ یا بھاکری بازار مسلم ابادی والے اور رام بازار جو رحیم بازار ہے گھاس منڈی توپاں والا بازار اپنی اہمیت کے حامل ہیں یہ چوگلہ پاکستان بننے سے پہلے کا ہے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جھگڑوں کی روک تھام کے لئے تقریباً ایک صدی قبل یہ آٹھ ستونوں والی خوبصورت اور ڈیرہ کی بلند عمارت تعمیر کی گئی اس لئے ھندو مسلم الگ الگ بازار ہوتے تھے جو اب پر رونق ہونے کے ساتھ ساتھ ضروریاتِ زندگی مہیا کرتے ہیں ڈیرہ کے حوالے سے ڈھکی کی کھجور بہت مشہور ہے کیونکہ موسم گرما 52 ڈگری تک جاتا ہے شدید گرمی ہوتی ہے ڈھکی کی کھجور ہندو مذہب میں عقیدت و احترام سے دیکھی اور خریدی جاتی ہے ڈیرہ کی سوغات میں سوہن حلوہ جس کی تاریخ کسی راجہ کی بیٹی سے منسوب ہے کہا جاتا ہے ایک ہندؤ باغ میں ٹوکری میں حلوہ بیچتا پھر رہا تھا کہ راجہ اور اسکی بیٹی ٹہل رہے تھے کہ بیٹی نے کھایا اور لذیذ لگا اس کانام سوہن حلوہ رکھدیا تب سے یہ مشہور سوغات گرمیوں میں 8 یا 10 اقسام میں تیار ہوتی ہے سردیوں کے موسم میں درجہ 2 ڈگری سے بھی کم ہوتا ہے اور سردیوں میں 18 یا 20 اقسام کا حلوہ تیار ہوتا ہے نہ صرف ملک میں بلکہ بیرون ملک تحفہ کی شکل میں جاتا ہے کھانے کے لحاظ سے صحبت نامی ڈش خاص دوستوں کی دعوت کے موقع پر تیار کی جاتی ہی بڑی بڑی باریک روٹیاں جنھیں مانے کہتے ہیں کسی بھی گوشت کے پتلے شوربے میں چھوٹے چھوٹے ٹکروں میں توڑ کر جنھیں بھورے کہتے ہیں ڈال کر اوپر بوٹیاں سجا کر ایک تھال میں رکھ کر سب کھاتے ہیں بہت لذیذ بنتی ہے اور خاص ہے زراعت کے علاؤہ یہاں ہاتھوں سے بنائی گئی پشاوری و کوہاٹی چپل مشہور ہے لکڑی کا کام، ہاتھی دانت کا کام شیشے کا کام کرنے والے دستکار اور ان کی دستکاری دور دور تک جانے جاتے ہیں ایران اور ھندوستان کے درمیان تجار کے لئے پڑاؤ بھی رہا ہے اس سٹی میں آٹا تیل چاول اور ٹیکسٹائل کی صنعتیں موجود ہیں چنے گندم باجرہ کی کاشت کے علاؤہ بھیڑ بکریاں اور اونٹ بڑے پیمانے پر پالے جاتے ہیں بٹیرا یہاں کھایا بھی جاتا ہے اور لڑایا بھی جاتا ہے۔گردو نواح میں چشمہ بیراج اور بلوٹ شریف پہاڑ پور ہے بلوٹ شریف روحانی مقام کی حیثیت رکھتا ہے
میری مادر علمی فیڈرل گورنمنٹ ہائی سکول کینٹ بھی ڈیرہ میں نور علم بانٹنے میں بے مثل ہے جہاں کے شفیق اساتذہ آج بھی میری روحانی تربیت فرماتے ہیں گومل یونیورسٹی یہاں کے مقیموں کی علم دوستی کا ثبوت ہے میڈیکل کالج کی بھی سہولت ہے اب تو ڈیرہ ریڈیو یہاں کی فنی و علمی ترویج میں شب و روز مصروف ہے امن کے سفیر اور دہشت گردی کے خلاف سینہ سپر رہنےوالے ڈیرہ کے شہداء کو کیسے بھول سکتا ہوں انھیں میرا اور قوم کا خراج تحسین پیش خدمت ہے اتنا بڑا ڈویژن ہونے کے باوجود یہاں کوئی معیاری ٹیسٹ لیب کارڈیالوجی ہسپتال بدن سینٹر کی سہولیات سے محروم ہے یہاں کے ایسے مریض پشاور ملتان یا لاہور کا رخ کرتے ہیں حکومت کو اس اہم مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ملک کی نامور ہستیاں جناب مفتی محمود ،حق نواز گنڈہ پور خدا بخش جاڑا، فضل الرحمان فیصل کریم کنڈی علی آمین گنڈہ پور مسرت شاہین نیر سرحدی کوثر خمار مختار ساقی اور بہت سی ہستیاں بھی شامل ہیں جنکا ذکر نہ کرنا میری کم علمی ہے جسکے لئے معذرت خواہ ہوں پھر بھی میری دعا ہے کہ سدا بستا رہے

اپنا تبصرہ بھیجیں