پاکستان اور دنیا میں اردو کے سفیر! (شیخ خالد زاہد)

پھر کہا یہ جاتا ہے کہ ہم ہر مسلئے کو بیرونی ہاتھ کہہ کر ٹال مٹول کی نظر کردیتے ہیں ،کسی بھی مخصوص ہاتھ کی نشاندہی بھی نہیں کرتے جبکہ عوام کو مکمل یقین ہے کہ ہمارے خفیہ اداروں کی نظر سے کوئی بھی خفیہ ہاتھ ، خفیہ نہیں رہتا ۔ اب اردو کے نفاذ کو لے لیجئے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مطابق پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی لیکن کیا ہوا کہ ۲۷ برس بیت جانے کے بعد بھی قومی زبان ، قومی زبان کے درجے پر فائز نہیں ہوسکی۔

سب سے پہلے تو یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ ہم جس معاشرے کا حصہ ہے کہ یہ مذہبی، علاقائی، لسانی اور دیگر تفریقات کی زد میں ہے، جب کہ ایک ایسی تفریق جو اکثر ساری تفریقات پر بازی لے جاتی ہے وہ ہے مال و اسباب یعنی امیر اور غریب۔ ہمارے ملک میں پیسے کی ریل پیل کو ترقی سے جوڑ دیا گیا ہے ۔ یقینا یہ ایک ایسے بیمار معاشرے کی سوچ ہے جو کسی گلے سڑے نظام کے تحت چلتا رہا ہو۔ اس طرف کے لوگ اور اس طرح کی سوچ ہر معاشرے میں رہتے ہیں لیکن انکی بنیادی سوچ جوکہ معاشرتی ہو یا مذہبی مشترک ہوتی ہے جسکی وجہ سے وہ اپنی مخصوص سوچ کو اس وقت تک ظاہر نہیں کرتے جب تک انہیں یہ یقین نہیں ہوجاتا کہ یہ سوچ یا فکروفلسفہ انکی حب الوطنی پر تو سوالیہ نشان نہیں بن جائے گا ۔ بنیادی چیزوں کو نظر انداز کر کے کس طرح سے قو میں ترقی و تمدن کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہیں۔
ہماری مشکلات اب مشکلات نہیں بلکہ معمولات بن گئی ہیں ،ہم قومی لباس سے لیکر قومی کھیل تک کو لیکر ہمیشہ سے ہی شرمندگی سے منہ چھپائے پھر رہے ہیں، حقیقت ہے پینٹ شرٹ اور ٹائی پہن کر اور کرکٹ کھیلنے کو کسی اعزاز سے کم نہیں سمجھتے ۔ ہماری پرورش آمرانہ نظام کے سائے میں ہوئی ہے ۔ ہمارے حکمرانوں نے حکمرانی دنیا کہ حکمرانوں سے سیکھی ان کی عقل مندوں کی کم عقلی (لکھنے میں کوئی آر نہیں) کہ یہ بھول گئے کہ دنیا کو حکمرانی کا سبق سکھانے اور دینے والوں میں سے ہونے کے باوجود کیوں پیروی میں لگ گئے ۔ اب یہ حال ہوچکا ہے کہ پیروی ترک کرنے پر شرک ہوجانے کا گمان ہونے لگتا ہے، ہم نے سزا اور جزا بھی تو دنیا کو ہی سمجھ لیا ہے ۔ (بات دور نکل گئی)

معاشرے میں مختلف سوچ اور مختلف مکتبہ فکر کے لوگ رہتے ہیں جن کی بنیادی مذہبی اور معاشرتی طور پر ایک ہوتے ہیں ، لیکن یہ لوگ مختلف زاویہ نگاہ سے امورِ معاشرت کو دیکھتے ہیں اور ایک دوسرے پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ غیرلچکدار رویہ انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں ناقابل برداشت سمجھا جاتا ہے ۔ نفاذ اردو کیلئے روز اول سے کوششیں کی جارہی ہیں لیکن کچھ مفاد پرستوں کی وجہ سے ایسا آج تک ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ معاشرتی نظام کی طبقاتی تقسیم بھی اردو کے نفاذ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے اب جن صاحب ثروت کا بچہ باہر ملک سے پڑھ کر آئے گا تو کیا وہ چاہے گا کہ اس کا بچہ اردو بولتا پھرے یا اس کی برتری کو کسی بھی طرح سے ٹھیس پہنچے ۔
ہم نے کسی کی بے عزتی کرنی ہویا کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو مغلظات کیلئے تو اردو زبان استعمال کرتے ہیں لیکن اگر کسی کی برے کی اچھائی بھی کرنی ہوتو کوئی ایسی زبان بولتے ہیں جو کچھ بولی جاتی ہے اور کچھ سمجھ آتی ہے ۔ ملک میں بولی جانے والی زبان کا قوموں کی ترقی میں بڑا اہم کردار رہا ہے ۔ جہاں دیگر زبانوں پر مہارت ایک قابل قدر صفت ہے وہیں اپنی قومی زبان کی ترویج اور مکمل بالادستی اس بات کی بھی گواہ رہی ہے کہ قوموں کی ترقی بھی اسی میں پوشیدہ رہی۔

ہم اپنی دانست میں اس مضمون کے توسط سے کچھ ایسے اردو کی مکمل بحالی کیلئے لڑی جانے والی جنگ میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرنے والے سپاہیوں کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں جو ملک سے دور دراز بیٹھ کر اور ملک میں رہتے ہوئے اردو سے اپنی محبت کا حق ادا کرنے کی کوشش میں بر سر پیکار ہیں۔ ہم زیادہ تو نہیں جانتے جسکے لئے ہماری معذرت پیشگی قبول کر لیجائے ۔ انٹر نیٹ سے اردو کی ہم آہنگی کا سہرا بھی ایسے ہی جفاکش لوگوں کے سر بندھتا ہے جنہوں نے تکنیکی ماہرین کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ انہیں اردو بھی بطور زبان دیگر زبانوں میں شامل کرنی پڑے گی اور پھر اسکی ترویج میں آسانیاں بھی پیدا کرنا شروع کر رکھی ہیں ۔ یہاں ہم چیدہ چیدہ لوگوں کا تذکرہ کرنا چاہونگا جن سے اردو سے محبت کی بدولت ہی تعلق قائم ہوا ہے۔ سب سے پہلے یہاں ہماری ویب، ویب بز میڈیا گروپ کے سربراہ جناب ابرار احمد صاحب کا ذکر خیر کرنا چاہونگا کہ جو چاہتے تو انگریزی میں کام کرتے اور منافع ہی منافع کماتے رہتے لیکن انہوں نے ایک عام استعمال کرنے والے کا نا صرف خیال رکھا بلکہ اسے اس کے لکھنے کے شوق کو منظر عام پر لانے میں بھی بھرپور معاونت فراہم کی ۔ دوسرے نمبر پر بھارت سے مضامین ڈاٹ کام کے ایڈیٹر صاحب جو آجکل ملک کی صورتحال کی وجہ سے بہت محدود ہوچکے ہیں لیکن پائے کی اردو ویب سایٹ سجائے ہوئے ہیں ، پھر بات کرتے ہیں کاروان ڈاٹ کام کی جس کے ایڈیٹر ہیں جناب مجاہد علی صاحب ناروے میں اردو کا دیپ جلائے ہوئے ہیں ، ہالینڈ سے ہمارے ایک بہت ہی پیارے جاوید اعظیمی صاحب ہیں جن کی کاوشیں دور دراز بیٹھے اردو سے محبت کرنے والوں کیلئے سامان مہیہ کر رہی ہیں ،ناصر ناکاگاوا صاحب کہ نام سے تو آپ اکثر قارئین واقف ہونگے جوکہ ایک سیاح ہونے کیساتھ ساتھ اپنی سیاحت کو کاغذ پر ایسے عکس کرنے والے ہیں کہ پڑھنے والا بھی انکے ساتھ ساتھ ہولیتا ہے، ناصر صاحب جاپان میں مقیم ہیں اور اردو نیٹ جاپان کی مدد سے اردو کی بھرپور خدمت کا کام سرانجام دے رہے ہیں ۔ مذکورہ شخصیات وہ ہیں جن سے کسی نا کسی طرح ہمارا رابطہ ہوچکا ہے ۔ انکے علاوہ دنیا کے کونے کونے میں اردو سے محبت کرنے والے انٹرنیٹ کی مدد سے ایک دوسرے تک اردو زبان کی ترویج بذریعہ ویب ساءٹ کر رہے ہیں ۔ یہ تمام لوگ انتہائی قابل ستائش کام سرانجام دے رہے اور دنیا میں اردو کی پہچان کروانے والوں میں یہ ہر اول دستہ ہیں ۔ پاکستان میں نامعلوم کتنی ہی بڑی چھوٹی ایسی ویب ساءٹ چلائی جا رہی ہیں جہاں نا صرف روزانہ کی معلومات بلکہ دنیا جہان کی معلومات فراہم کرنے والی ویب سائٹ بھی پاکستان یا دنیا میں کم نہیں ہیں ، انکے مقاصد کچھ بھی ہوں اردو کو تو فروغ مل ہی رہا ہے ۔ آج پاکستان میں بڑے چھوٹے تمام میڈیا گھروں نے اور برطانیہ کے سب سے بڑے ادارے بی بی سی نے بھی اپنی ویب سائٹ اردو میں بنائی ہوئی ہے اور وائس آف آمریکہ بھی اردو میں نشریات نشر کر رہا ہے ۔ یہ سب باتیں اس بات کی گواہی ہیں کہ اردو پڑھنے اور سمجھنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد دنیا میں موجود ہے اور یقینا پڑھنے والوں کی پذیرائی بھی ان اردوکیلئے اپنا وقت وقف کرنے والوں کو بھی پہنچتی ہوگی ۔ اردو کے نفاذ کیلئے مختلف ادبی اور سماجی تنظی میں بھی برسرپیکار ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ سب چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں ایک طاقت بنیں کسی قسم کا عملی کردار ادا کریں حکومت سے تواتر سے مطالبہ کیا جائے ۔ یہ تو اجتماعی سطح پر کئے جانے والے کام ہیں اہم ترین کام انفرادی سطح پر ہوتے ہیں آپ دیکھیں کہ اپنے معمولات میں کتنی اردو عزت کیلئے بولتے ہیں اور کتنی عزت بچانے کیلئے ۔ بہت ضروری ہے کہ دیگر زبانیں بھی سیکھی جائیں لیکن اپنی مادری زبان ہی نا بولنی آئے تو پھر تمام عمر بول کا بھی کچھ نا بول پائے والی کیفیت ہے۔

وہ طبقہ جو ملک میں رہتے ہوئے بھی غیر ملکی ہے انہیں بھی اس بات احساس کرلینا چاہئے کہ معاشرے کا دوہرا میعار اب زیادہ دیر چلنے والا نہیں ہے اور پاکستان کی بقااسکے خاتمے میں ہی ہے ۔ اردو کو بین الاقوامی اداروں کی ویب ساءٹ پر ابھی تک جگہ ایسے ہی لوگوں کی بدولت نہیں مل سکی ہے جسکی وجہ سوائے اسکے اور کیا ہوسکتی ہے کہ پاکستان کی قومی زبان ہونے کے باوجود قوم کی زبان نہیں ہے ہمارے لیڈر ہمارے سربراہ دنیا کے سامنے انگریزی بولنے کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں ۔ بس افسوس اس بات کا ہے کہ اردو کی باقاعدہ ترویج کیلئے یہ ساری ویب ساءٹس ایک کیوں نہیں ہوجاتیں یا کم از کم سال میں ایک بار کوئی ایسا پروگرام منعقد کریں جہاں تمام ویب ساءٹس حکومت کے سامنے اردو کی باقاعدہ ترویج کا مطالبہ رکھے اور اپنی معاشرتی طاقت کا احساس دلائے ۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ جتنی بھی ویب ساءٹس اردو کیلئے کام کر رہی ہیں وہ اپنے اپنے پہلے صفحہ پر نفاذ اردو کا مطالبہ آویزاں کر دیں تاکہ ارباب اختیار تک یہ بات پہنچے کے عام آدمی جو بول رہا ہے وہ اس ملک کی قومی زبان ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب اور انکی کابینہ کو بات یاد کروانی ہے کہ پاکستان کی قومی زبان کو جب تک آزادی نہیں ملے گی پاکستان میں تبدیلی لانا ممکن ہی نہیں ، خدارا ہنگامی بنیادوں پر دوہرے نظام سے نجات دلائیں اور دنیا کو بتائیں کہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں