عالمی پروپیگنڈہ میں عورت کارڈ کا استعمال…! (ساجد خان)

گزشتہ چند دنوں سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ایران کے خلاف عالمی قوتوں نے باقاعدہ محاذ بنانا شروع کر دیا اور اس کے لئے ایران کے خلاف وہی آزمودہ گُر استعمال کیا جا رہا ہے جو اس سے پہلے بہت سے ممالک پر نہایت کامیابی کے ساتھ استعمال کیا جا چکا ہے۔

ایران مخالف پروپیگنڈہ آج اسی طرح جاری و ساری ہے جس طرح کبھی عراق کے بارے میں شروع ہوا یا چند سال قبل شام کے بارے میں پروپیگنڈہ شروع کیا گیا۔

ایسا کوئی دن نہیں گزرتا جب عالمی میڈیا ایران کی خبر نا دے اور ان خبروں میں زیادہ حصہ خواتیں سے متعلق ہوتا ہے۔

عراق کے خلاف جب نوے کی دہائی میں منصوبہ بندی کی گئی تب ایک لڑکی “نیرہ” کو سامنے لایا گیا جو رو رو کر دنیا کو مظالم بتا رہی تھی کہ کس طرح عراقی فوج نے کویت میں مظالم کئے اور کس طرح کویت کو تباہ کیا، ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا اور نا ہی پینے کو پانی۔تقریر کے دوران وہ لڑکی سعودی عرب کی تعریف کرنا بھی نہیں بھولتی لیکن بعد میں علم ہوتا ہے کہ وہ لڑکی کوئی اور نہیں بلکہ امریکہ میں کویت ایمبسی میں کام کرنے والے ایک کویتی سفارت کار کی بیٹی ہے اور یہ سب کہانی عراق پر پابندیوں کے لئے گھڑی گئی تھی۔

شام میں جب خانہ جنگی کا آغاز ہوا تو اسے بھی امریکہ کی مکمل حمایت حاصل تھی لہذا وہاں بھی اچانک ایک چھوٹی سی بچی “بانا العباد” نمودار ہوتی ہے جو حلب کی رہائشی ہوتی ہے جسے انگریزی بھی آتی ہوتی ہے اور انتہائی جنگ زدہ علاقے میں جہاں بقول اس لڑکی کے کچھ بھی نہیں بچا،نا کھانے کو کچھ ہے اور نا ہی پینے کو، اس سب کے باوجود اس کے پاس بجلی اور انٹرنیٹ کی سہولیات موجود ہوتی ہیں، جس کی مدد سے وہ دنیا سے شامی فوج کے خلاف مدد مانگتی نظر آتی ہے اور پوری دنیا کا میڈیا اس کی باتوں کو ایسے غور سے سنتا ہے گویا کوئی اور کام ہی نہیں ہے۔

بانا العباد کی فریاد امریکہ اور برطانیہ کی پارلیمنٹ میں بھی گونجنے لگتی ہے اور اس کے ایک ایک لفظ کو بنا تصدیق کے سچ مانا جاتا ہے لیکن جوں ہی حلب شامی فوج کے قبضے میں آتا ہے، حلب جلنا بند ہو جاتا ہے اور بانا العباد بھی خاموشی سے ترکی چلی جاتی ہے۔آج اسے نا ہی شام کی فکر ہے اور نا ہی شامی شہریوں کی کیونکہ اس کو جو ڈیوٹی دی گئی تھی وہ انجام کو پہنچی۔

سوڈان میں جب صدر محمد بشیر کے خلاف مظاہرے شروع ہوۓ تو ابتداء میں معاملات قابو میں تھے جبکہ عالمی میڈیا بھی زیادہ توجہ نہیں دے رہا تھا پھر اچانک ایک دن ایک طالبہ “الاء صلاح” مظاہرے میں شریک ہوتی ہے اور وہ ایک گاڑی کی چھت پر کھڑی ہو کر تقریر کرتی نظر آتی ہے۔

جس دن میں نے اس کی ویڈیو دیکھی مجھے یقین ہو گیا کہ محمد بشیر کا اقتدار اب ختم ہونے کو ہے اور یہی کچھ ہوا۔ اس لڑکی کی تقریر کے فوراً بعد ہی عالمی میڈیا کی توجہ اچانک ہی سوڈان کی طرف مبذول ہوتی ہے،احتجاج میں تیزی آئی اور اس طالبہ کو چند گھنٹوں میں ہی پوری دنیا میں شہرت حاصل ہونا شروع ہو گئی۔

جس کے بعد سوڈان کے حالات بدلنا شروع ہو گۓ،فوج نے بغاوت کر دی اور مظاہرین کی حمایت کرتی نظر آئی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ دہائیوں سے اقتدار پر برا جمان رہنے والا شخص گرفتار ہو جاتا ہے۔ جسے عام شہری بھی پتھر مارتے نظر آتے ہیں۔
اب ایران کے خلاف بھی وہی روایتی ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے اور اس کی ابتداء ایران کی واحد ایتھلیٹ “کیمیا علیزادے” سے ہو چکی ہے جس نے چار دن قبل ٹویٹر پیغام میں کہا کہ اسے زبردستی حجاب پہنایا جاتا تھا اور ایران میں خواتین کے ساتھ انتہائی غیر منصفانہ سلوک روا رکھا جاتا ہے اور وہ اس منافق اور جھوٹے ماحول کا حصہ نہیں بننا چاہتی۔

اس خبر کو عالمی میڈیا نے انتہائی اہمیت دی لیکن یہ کسی نے بتانے کی کوشش نہیں کی کہ کیمیا علیزادے پہلے سے ہی ہالینڈ میں رہائش پذیر ہے۔
اس کے بعد ایک اور خاتون کا بیان آتا ہے جو شطرنج کی کھلاڑی ہے کہ وہ ایران واپس نہیں جانا چاہتی کیونکہ مجھے خوف ہے کہ حجاب نا پہننے کی وجہ سے اسے گرفتار کر لیا جائے گا۔

اس خبر کو بھی عالمی شہرت ملتی ہے حالانکہ اگر دیکھا جائے تو ان دونوں واقعات میں جس معاملہ پر شور شرابہ کیا جا رہا ہے وہ ابھی تک ہوا ہی نہیں بلکہ صرف مفروضہ پر ساری کہانی قائم ہے کیونکہ یہ الزام تب سچا ہوتا جب وہ خواتین اپنے ملک واپس جاتیں اور ریاست انہیں حجاب نا کرنے پر کوئی سزا دیتی۔ جب یہ واپس گئی ہی نہیں اور نا ہی ریاست نے ان کو کوئی سزا دی تو جو واقعہ ہوا ہی نہیں اس پر اتنا احتجاج سوائے پروپیگنڈہ کے اور کیا ہو سکتا ہے۔

یہ معاملہ ابھی زیر بحث ہی تھا کہ خبر آئی کہ ایران میں تین نیوز اینکرز نے ملازمت چھوڑ دی ہے، اب اس واقعہ کو بھی ہم اتفاق کہیں یا کچھ اور کہ تینوں نیوز اینکرز خواتین تھیں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے ایران کی طرف سے یوکرائنی طیارہ گرانے کے اعتراف کے بعد استعفیٰ دے دیا۔

ایران میں کیا صرف خواتین پر ہی ظلم ہو رہے تھے یا ان خواتین کے مرد رشتہ دار ریاست سے خوش تھے۔ واقعات سے تو ایسا ہی منظر پیش کیا جا رہا ہے لیکن اگر ماضی کے واقعات کو دیکھا جائے تو امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں جب بھی کسی ملک پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، اس کے جنس نازک کو ہی استعمال کیا ہے خواہ وہ عراق ہو، شام ہو، سوڈان ہو یا اب ایران۔ یہاں تک کہ افغانستان کے خلاف جارحیت کے لئے بھی خواتین پر مظالم کو سب سے اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ عورت کو خصوصی توجہ دیتا ہے،اب وجہ مخالف جنس ہے یا نازک جنس لیکن یہ حقیقت ہے کہ عورت کے الفاظ پر زیادہ یقین کیا جاتا ہے۔اس بات سے بالانظر کہ وہ عورت سچ کہہ رہی ہے یا جھوٹ۔

اس معاملہ پر دنیا بھر میں سوشل تجربات بھی ہو چکے ہیں کہ ایک لڑکا اور لڑکی پارک میں لڑ رہے ہوتے ہیں اور لڑکا اچانک لڑکی پر تشدد شروع کر دیتا ہے تو ان کے ارد گرد تقریباً تمام افراد اس لڑکی کی مدد کے لئے پہنچ جاتے ہیں اور لڑکے پر تشدد کرتے ہیں لیکن وہی لڑکا لڑکی ایک بار پھر لڑ رہے ہوتے ہیں اور اس بار لڑکی لڑکے پر تشدد کرتی نظر آتی ہے مگر دیکھنے والے اس پر محظوظ ہوتے نظر آتے ہیں اور کوئی بھی لڑکے کی مدد کو نہیں پہنچتا۔
انسان کی اسی نفسیات پر ایک لطیفہ ہے کہ امریکی صدر بش اور اوبامہ ہوٹل میں بیٹھے ہوتے ہیں اور ایک شخص ان کے پاس آتا ہے اور پوچھتا ہے کہ آپ کیا باتیں کر رہے ہیں،جس پر صدر بش بتاتا ہے کہ ہم نے منصوبہ بنایا ہے کہ ہم دنیا میں دس لاکھ افراد اور ایک خوبصورت لڑکی کا قتل کریں گے، وہ شخص حیرانی سے پوچھتا ہے خوبصورت لڑکی کو کیوں قتل کریں گے۔جس پر صدر بش مسکراتے ہوئے بارک اوبامہ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے دیکھا میں نے کہا تھا نا کہ دس لاکھ افراد کی کوئی پرواہ نہیں کرے گا۔

یہ کہنے کو تو ایک لطیفہ ہے لیکن حقیقت میں یہی عالمی طاقتوں کی پالیسی کی صحیح معنوں میں ترجمانی ہے اور شاید اسی لئے اپنے خوفناک منصوبوں کے لئے عورت کا استعمال کرتے ہیں۔ جب سے ایران سے ایسی خبریں آنا شروع ہوئی ہیں مجھے ایران کے حالات خراب ہوتے نظر آ رہے ہیں کیونکہ اس کے خلاف بھی وہی آزمودہ نسخہ استعمال ہونا شروع ہو گیا ہے۔

اب ہم بات کرتے ہیں پاکستان کی۔ پاکستان میں جتنی بھی فلموں کو آسکر ایوارڈ ملا یا عالمی سطح پر پزیرائی حاصل ہوئی،ان سب فلموں کا موضوع ایک ہی تھا اور وہ تھا خواتین پر مظالم؟۔ کیا پاکستان میں صرف یہی مسئلہ ہے یا واقعی میں پاکستان بھر میں خواتین کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جاتا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ پاکستان میں خواتین کے ساتھ مظالم ہوتے ہیں مگر یہ پوری دنیا کا اجتماعی مسئلہ ہے،امریکہ میں خواتین پر تشدد کے ہزاروں واقعات پیش آتے ہیں۔

فرانس میں ہزاروں خواتین نے حال ہی میں خواتین پر بڑھتے ہوئے تشدد کے خلاف بڑا مظاہرہ کیا ہے پھر صرف پاکستان کا ہی ایسا امیج کرنے کی کیا وجہ ہے۔

ملالہ یوسفزئی کی میں نے ہمیشہ حمایت کی ہے لیکن پاکستان میں طالبان نے سینکڑوں خواتین اور بچیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا پھر ملالہ یوسفزئی پر ہی اتنا شور شرابہ کیوں مچایا گیا، اس واقعہ میں ملالہ یوسفزئی کے ساتھ دوسری بچیاں بھی زخمی ہوئیں لیکن ان کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی۔
آخر کہیں نا کہیں تو اس واقعہ کا تعلق اس عالمی پروپیگنڈہ سے جڑتا نظر آتا ہے۔

افغانستان سے لے کر ایران تک سب واقعات میں خواتین کا استعمال کیا گیا اور شاید مستقبل میں بھی ہوتا رہے گا کیونکہ خواتین کے استعمال سے مغربی عوام کی ہمدردیاں حاصل کی جاتی ہیں کہ ہم اس قوم کے ہمدرد ہیں اور ہم اس مظلوم قوم کو سفاک حکومت سے آزادی دلوانا چاہتے ہیں۔

ایران کے خلاف جو آج ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے کہ وہاں خواتین کو آزادی حاصل نہیں ہے،اس میں حجاب کو بہانہ بنایا جا رہا ہے کہ ایران میں خواتین کو زبردستی حجاب پہنایا جاتا ہے جو کہ ظلم ہے لیکن دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو یورپ میں خواتین کو حجاب یا برقعہ کرنے کی اجازت نہیں ہے اور وہاں برقعہ کرنے والی خواتین پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔

ساحل سمندر پر خواتین کو مکمل لباس پہن کر جانے پر جرمانہ یا تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اب اگر زبردستی حجاب پہنانا ظلم ہے تو زبردستی حجاب اتارنا بھی اتنا ہی سنگین جرم سمجھا جانا چاہئے تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔

جہاں زبردستی حجاب پہنانا آزادی کے خلاف ہے وہیں زبردستی حجاب اتارنا بھی آزادی کی خلاف ورزی ہے مگر مغربی میڈیا اتنا مضبوط اور متحد ہے کہ وہ جو چاہتا ہے عوام کو ویسے ہی سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

اب ایسا نہیں ہے کہ مسلم ممالک اس شعبے میں بہت زیادہ کمزور ہیں۔ ایسے بہت سے میڈیا ہاوسز ہیں جو مسلم ممالک کے ہیں مگر ہماری کمزوری یہ ہے کہ ہم مغربی میڈیا کی طرح متحد نہیں ہیں۔
مغربی میڈیا کے اتحاد کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ ان کے آپس میں جتنے بھی اختلافات ہوں مگر کچھ معاملات پر وہ سب اختلافات بھول کر متحد نظر آتے ہیں۔

کل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو نظر آئی جو کہ جرمنی کی تھی،جس میں جرمنی کے پرانے فوجی موٹرسائیکل پر ایک ایسا شخص سوار تھا جس نے ہٹلر کا حلیہ اپنا رکھا تھا اور اس ویڈیو کو اس طرح پیش کیا جا رہا تھا کہ جرمنی میں ایک شخص نے ہٹلر کا حلیہ اپنایا ہوا ہے جب کہ لوگ اسے دیکھ کر ہنس رہے ہیں جبکہ پولیس بھی اسے گرفتار کرنے کے بجائے اس کی تصاویر لیتی رہی۔
یہ دیکھنے میں معمولی سی بات نظر آتی ہے مگر عالمی میڈیا اس بات پر متحد ہیں کہ ہٹلر کو ہمیشہ ایک ولن کے طور پر پیش کرنا ہے۔

اسی طرح ہولو کاسٹ پر دنیا بھر کا میڈیا متفق ہے کہ اس موضوع پر بحث نہیں کرنی اور اسے من و عن سچ تسلیم کرنا ہے۔

یہاں تک کہ آزادی کا راگ الاپنے والا امریکہ اور یورپ بھی ہولو کاسٹ کی حقیقت پر سوالات کرنے کو جرم گردانتا ہے لیکن دوسری طرف مسلم میڈیا ہے کہ آج وہ بھی ایران پر زبردستی حجاب کرنے پر تنقید کرتا نظر آ رہا ہے اور اس میں سب سے آگے سعودی میڈیا ہے جہاں دو سال قبل تک خواتین کو نا ہی ووٹ ڈالنے کی اجازت تھی اور نا ہی اکیلے سفر کرنے کی اور آج بھی سعودی عرب میں ایران سے کہیں زیادہ خواتین پر پابندیاں عائد ہیں اور حجاب کا معاملہ صرف ایران کا نہیں ہے بلکہ اسلام کا ہے لیکن ہمارا میڈیا اپنے اختلافات کی وجہ سے ان معاملات پر تنقید کرتا نظر آ رہا ہے جو اسلام کے واجبات میں شامل ہے۔

اس پروپیگنڈے سے دنیا میں یہ تاثر ملتا ہے کہ اصل مسئلہ افغانستان، عراق، شام، سوڈان یا ایران کا نہیں ہے بلکہ اس مسئلہ اسلام ہے کیونکہ جن جن ممالک کے خلاف عورت کارڈ استعمال کیا گیا وہ سب ہی مسلمان ممالک تھے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پروپیگنڈے کو حقیقت کا رنگ دینے میں ہمارے مسلمان ممالک بھی اس سازش کا حصہ بنے ہوئے ہیں اور یوں ایک ایک کر کے مسلمان ممالک کی باری آتی جا رہی ہے۔

عالمی طاقتیں ہمارے خلاف یوں ہی عورت کارڈ استعمال کرتے جائیں گی اور تباہی پھیلاتے جائیں گے جبکہ ہم مغرب میں مظلوم کے بجائے ظالم سمجھے جاتے رہیں گے کیونکہ وہ ہمارے خلاف متحد ہیں اور ہم ذاتی مفاد کی خاطر اپنے ہی خلاف پروپیگنڈے کا حصہ بنتے رہیں گے شاید مغرب کے عروج اور ہمارے زوال کی اہم وجہ یہی ہے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں