کیا عمران خان کو ہٹانے کا فیصلہ ہوگیا؟ (انشال راؤ)

کپتان اور عوام میں ایک چیز قدر مشترک ہے اور وہ یہ کہ عوام و حکمران جماعت بالخصوص عمران خان کو آجکل مشکل ترین حالات کا سامنا ہے، مہنگائی ہو یا بدانتظامی دونوں ہی براہ راست یا بالراست زد پہ ہیں، آخر ماجرا کیا ہے کہ ایک کے بعد ایک اسکینڈل، ایک کے بعد ایک پریشانی اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور پے در پے بحرانوں، میڈیا ٹرائیل، پروپیگنڈوں، مصنوعی و حقیقی مہنگائی کے نتیجے میں عمران خان کی مقبولیت کا گراف جس قدر نیچے جارہا ہے اس قدر ہی پریشانی میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور اپوزیشن و میڈیا کے تیر و تبر اس میں مزید اضافہ کردیتے ہیں آخر یاالٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟ کیا عمران خان واقعی نااہل ہیں یا ان کو نااہل ثابت کرکے راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا ہے ایک مخصوص و روایتی طریقے سے دکھایا تو یہی جارہا ہے کہ جیسے تمام تر بگاڑ، بدانتظامی و لاقانونیت اور مہنگائی کی وجہ عمران خان ہے، اس خیال میں کتنی حقیقت کتنا فسانہ ہے احاطہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں، مزید بات کرنے سے پہلے موجودہ آٹے کے بحران کا سرسری جائزہ لیں تو بہت سے شکوک پیدا ہوجاتے ہیں کہ یہ ایک منظم سازش ہے جس کا مقصد تو صاف واضح ہے کہ آٹا بحران بہانہ ہے عمران خان نشانہ ہے کیونکہ گندم کا یکدم غائب ہوجانا سمجھ سے بالاتر ہے، کہا جارہا ہے کہ حکومت کے ایک وزیر اور جہانگیر ترین اس گریٹ گیم کے پیچھے ہیں تو اس سے یکسر انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ماضی میں جہانگیر ترین آٹے اور چینی کا مصنوعی بحران پیدا کرکے اربوں روپے بٹور چکے ہیں لیکن وہ بحران مشرف کی مقبولیت میں کمی آنے کا ایک بڑا سبب ثابت ہوا تھا بالکل اسی طرح موجودہ بحران نے عمران خان کو کہیں کا نہیں چھوڑا، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مشرف کو امریکی پالیسی کے تحت ہٹایا گیا جس کے لیے مہنگائی، لال مسجد کارڈ، وکلا تحریک اور سانحہ بینظیر ایٹم بم ثابت ہوا، میڈیا نے جم کر مشرف کے خلاف مہم چلائی نتیجتاً مشرف کو جانا پڑا لیکن بعد میں میثاق جمہوریت اور لندن پلان کا انکشاف بھی ہوا بالکل اسی طرز پر اب عمران خان کو راستے سے ہٹانے کے آثار نمایاں ہوگئے ہیں، عمران خان اگر جائز کام بھی کرتے ہیں تو مخصوص میڈیا گروہ اسے منفی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہوے اس کا تمسخر اڑاتے ہیں جیسا کہ مشہور کیا گیا U-turn خان اور یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے گویا U-turn کوئی گناہ کبیرہ ہے، حقیقتاً تو اپنی غلطی پر U-turn لینا راست اقدام ہے بڑے بزرگ کہتے آئے ہیں غلطی ہوجانا بڑی خطا نہیں ہے غلطی پر اڑ جانا بڑی خطا ہے، حضرت عمر فاروقؓ جیسی عظیم شخصیت نے متعدد بار اپنے فیصلوں پر رجوع کیا متعدد بار فیصلے بدلے، وہ دنیا کا کونسا شخص ہے جس نے U-turn نہ لیا ہو شاید کوئی ایک بھی نہیں لیکن پاکستان کے مخصوص اینکرز و سیاستدانوں کا المیہ دیکھیں کہ ڈھٹائی کو راست اقدام اور عاجزی کو گناہ کبیرہ ثابت کرنے پہ تُلے ہیں، عمران خان کے U-turn پہ تکلیف ہے لیکن اٹھارہویں ترمیم سے پیدا ہونے والے بگاڑ کے باوجود دیدہ دانستہ اسے احسن اقدام ثابت کرتے رہتے ہیں، یہ کوئی مخفی راز نہیں کہ عالمی طاقتیں مختلف ریاستوں پر اپنا مکمل اثر رسوخ رکھنے کے لیے وہاں اپنے کٹھ پتلیوں کو بٹھائے رکھتے ہیں اور اگر کوئی ان کے مفادات کے مقابل آئے تو اسے راستے سے ہٹادیتے ہیں جیسا کہ شاہ فیصل شہید، جنرل محمد ضیاءالحق شہید، اور مشرف کو وقت آنے پر ہٹاکر اپنی مرضی کی قیادت کو پاکستان پہ لا بٹھایا اس کے علاوہ سلطان قابوس ہی کی مثال لے لیجئے کہ کس طرح برطانیہ نے انہیں عمان کی امارت پہ بٹھایا اور اسی اصول کے تحت اب عمران خان کسی طور بھی عالمی طاقتوں کی ہاں میں ہاں ملانے والے نہیں، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ صاحب قومی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح نہیں دینگے اور ایسا ہے بھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی طاقتیں کیوں چاہیں گی کہ پاکستان میں ان کی مرضی و منشاء کا حاکم آئے؟ جیسا کہ مغربی دانشور Alfred T Mahan نے کہا تھا کہ “جس کا سمندر پر اثر رسوخ ہوگا وہ دنیا پہ حکومت کریگا” اور پاکستان جیوپولیٹیکل حساب سے ایک اہم ملک ہے گوادر کی بندرگاہ اور CPEC کے زریعے چین کا سمندر پر بڑھتا ہوا اثر رسوخ امریکہ کو ایک آنکھ برداشت نہیں اسی طرح CPEC کے زریعے پاکستان کا استحکام بھارت کو بھی قبول نہیں، عمران خان ایک تو بیرونی ڈکٹیشن پر نہیں چلتے دوسرا عسکری قیادت کیساتھ ایک پیج پہ ہونا بھی ان قوتوں کو قبول نہیں، یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتیں پہلی فرست میں عمران خان کو راستے سے ہٹانا چاہتی ہیں، جس طرح مشرف کے خلاف وکلاء تحریک کو بت بناکر پیش کیا گیا اب عالمی ماہرین کے مطابق PTM کو میدان میں لایا گیا ہے اور حقیقتاً تمام اپوزیشن اس وقت PTM کو سپورٹ کرتی نظر آرہی ہیں، اس کے علاوہ موجودہ بے لگام مہنگائی اور بدانتظامی پاکستان کے عدم استحکام کے لیے بھی ضروری ہے جیسا کہ اپوزیشن جماعتیں عوامی سطح پر قوت کھوچکی تھیں لہٰذا اب پے در پے بحرانوں و میڈیا ہائیپ کے زریعے انہیں آکسیجن فراہم کی جارہی ہے جس سے ICU میں پڑی جماعتیں بھی سر اٹھانے کے قابل ہوگئی ہیں، موجودہ صورتحال کے پیش نظر برطانوی ادارے Verisk Maplecroft کے مطابق 2020 دنیا کے کل 193 ممالک میں سے 40 فیصد ریاستوں کے لیے عدم استحکام کا سال ثابت ہوگا اور برطانوی ادارے نے بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی Extreme Risky پوزیشن میں رکھا ہے اور اتفاق کی بات ہے کہ مشہور مصنف منیر احمد نے بھی ایسا ہی کچھ خواب دیکھا ہے کہ “لوگ مہنگائی و بدانتظامی سے تنگ آکر اٹھ کھڑے ہوے اور امارتوں کوٹھیوں میں آگ لگی ہے امراء کو جان کے لالے پڑے ہیں، لوگ ٹینکوں سے بھی نہیں ڈر رہے” ویسے حالات تو اسی طرف جارہے ہیں یا لے جایا جارہا ہے خیر رب کریم اپنا کرم کرے اور پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے (آمین)، ایک اور دلچسپ چیز جو مشاہدے میں آئی اور بہت زیادہ کھٹک رہی ہے وہ یہ کہ مشرف دور میں بھی نواز شریف باہر تھے اب بھی، اس وقت بینظیر بھی باہر تھیں اب بلاول کے دورے ہوے ہیں، اس وقت کونڈو لیزا رائس ایک اہم کردار تھی اور اب ایلس ویلز بہت متحرک ہیں، بیشک لاکھ سازش سہی لیکن کمزوری حکومت کی ہی ہے جو سازشی عناصر اتنی آسانی سے کامیاب ہورہے ہیں اور “کج شہر دے لوگ وی ظالم سن کج سانو مرن دا شوق وی سی” کے مصداق کپتان صاحب کی ٹیم ناکارہ لوگوں پر مشتمل ہے دوسرا حکومتی پالیسی پر ایک مصرعہ ذہن میں آرہا ہے “آہ وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف” کے مصداق کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ حکومتی ٹیم کر کیا رہی ہے لہٰذا اس تمام تر صورتحال میں عمران خان کو محتاط ہونا پڑیگا کیونکہ نشانہ فقط وہ ہیں۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں