ن لیگ کا روایتی ہتھیار… مذہب کارڈ (ساجد خان)

پاکستان مسلم لیگ ن ویسے تو ایک سیاسی جماعت ہے لیکن اگر اس کی سیاست پر غور کیا جائے تو اس جماعت کے پیٹ میں داڑھی ہے اور ضرورت پڑنے پر اس کی سیاست ایک فتنہ پرور مذہبی انتہا پسند کی صورت اختیار کر لیتی ہے کیونکہ جب بھی اور جہاں بھی موقع ملا اس جماعت نے نہایت بھونڈے طریقے سے مذہب کارڈ کا بے دریغ استعمال کیا۔
اس جماعت کے آغاز میں اس کے مذہب کارڈ کا شکار پیپلز پارٹی خصوصاََ بے نظیر بھٹو بنیں۔ کون نہیں جانتا کہ اسی (80) کی دہائی میں جب پیپلز پارٹی کی مقبولیت عروج پر تھی تب بادشاہی مسجد کے ضمیر فروش پیش امام نے فتویٰ جاری کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دینا کفر ہے۔ صرف یہی نہیں تب مولانا فضل الرحمٰن جو کہ شریف خاندان کی بی ٹیم کا حصہ تھے، انہوں نے بھی پیپلز پارٹی کو شکست دلوانے کے لئے اسلام میں عورت کی حکمرانی کو غیر اسلامی قرار دیا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ اس وقت ایک بات ہر شخص کی زبان پر ہوا کرتی تھی کہ بے نظیر بھٹو جو ہر وقت چادر لپیٹے پھرتی ہے، جیسے ہی گھر کے کمرے میں داخل ہوتی ہے تو غصہ سے چادر ایک طرف پھینک کر کہتی ہے، یہ کیا مصیبت میرے گلے پڑ گئی ہے۔ تب مجھے بھی یہ بات حقیقت لگتی تھی کیونکہ ہر دوسرا شخص یہی بات کہتا نظر آتا تھا کہ یہ عورت صرف ووٹ اور دکھاوے کے لئے چادر کرتی ہے اور کبھی مجھے یہ خیال نہیں آیا کہ بند کمرے میں ایسا کون شخص موجود ہوتا ہے جو یہ سب باتیں سن کر لوگوں کو آ کر بتاتا ہے۔

امریکی اداکارہ کی نیم عریاں تصویر پر بینظیر بھٹو کی تصویر چسپاں کر کے تقسیم کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ پیپلز پارٹی کی لیڈر کو اسلام سے دور ہو جانے والی عورت قرار دیا جائے۔ اس سب پروپیگنڈہ کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ شریف خاندان کو اقتدار حاصل ہو جائے۔ اقتدار کے معاملہ میں شریف خاندان ہمیشہ سے ہی خوش قسمت رہا ہے، ہر مرتبہ انتہائی بھاری مینڈیٹ سے آتے رہے مگر دل کے ہمیشہ چھوٹے ہونے کی وجہ سے اسی خامی کی وجہ سے ہمیشہ اقتدار سے ہاتھ بھی دھونے پڑے۔

نوے کی دہائی میں شریف خاندان نے سپاہ صحابہ کو گود لیا اور یوں پنجاب میں سیاسی انتہا پسندی اور مذہبی انتہا پسندی کا انتہائی قںیج گٹھ جوڑ نظر آیا۔ بات سپاہ صحابہ سے ہوتی ہوئی لشکر جھنگوی تک پہنچ گئی اور پھر سرکاری سرپرستی میں لشکر جھنگوی نے مخالف فرقے کا قتل عام شروع کر دیا مگر حکومت کی نظر میں سب اچھا تھا۔ یہ سلسلہ تب رکا جب لشکر جھنگوی نے شیعہ برادری کے ساتھ ساتھ سپاہ صحابہ لدھیانوی گروپ کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا، جس کی ایک مثال چند سال قبل لاہور میں لدھیانوی گروپ کے پنجاب کے صدر شمس الرحمن معاویہ کو قتل کر دیا جبکہ ان کے اگلے نشانے سپاہ صحابہ کے اہم لیڈرز، ڈاکٹر خادم ڈھلوں اور احمد لدھیانوی تھے، جس پر ریاست فوراً حرکت میں آئی اور ملک اسحاق کو بیٹوں اور قریبی ساتھیوں کے ہمراہ پولیس مقابلے میں مار دیا جبکہ دوبئی سے بھٹی گروپ کے پانچ افراد کو واپس لا کر پولیس مقابلے میں پار کر دیا، اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے ووٹ کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی سے زیادہ تھے لہذا اس کا ساتھ دیا گیا جو سیاسی طور پر فائدہ مند ثابت ہو۔

پیپلز پارٹی کو شکست دینے کے لئے کبھی نو ستارے کا اتحاد قائم کیا گیا جس میں اکثریت مذہبی جماعتوں کی تھی، کبھی پیپلز پارٹی کی حکومت گرانے کے لئے جماعت اسلامی کو استعمال کیا گیا جس نے “ظالمو! قاضی آ رہا ہے” کے نعرے کے ساتھ مخالف تحریک شروع کی۔ بات صرف یہاں تک ہی محدود ہوتی تو شاید اعتراض نا ہوتا مگر کچھ معاملات میں مسلم لیگ ن تمام حدود پار کر گئی۔

آسیہ بی بی توہین کیس میں پیپلز پارٹی کے گورنر سلمان تاثیر نے جب پریس کانفرنس کی تو فوراً ہی لیگی رہنماؤں نے اسے آڑے ہاتھوں لیا، کسی نے سلمان تاثیر کے سر کی قیمت مقرر کر دی تو کسی نے گستاخ قرار دے دیا اور اس سب کا آغاز مسلم لیگ ن سے شروع ہوا جو بعد میں کنٹرول سے باہر ہوتا چلا گیا اور اس میں سلمان تاثیر اپنے ہی سرکاری محافظ کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔

مکافات عمل ہے کہ گزشتہ حکومت میں مسلم لیگ ن خود بھی مذہبی مسئلہ میں پھنس گئی اور تب انہیں احساس ہوا کہ سیاست میں مذہب کارڈ کتنا خطرناک ہوتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف پر جوتے پھینکے گئے تو کسی رہنما پر سیاہی پھینکی گئی، یہاں تک کہ وزیر داخلہ احسن اقبال کو گولی تک مار دی گئی۔

ان واقعات کے بعد محسوس ہو رہا تھا کہ شاید مسلم لیگ ن نے سبق حاصل کر لیا ہو گا لیکن سیانے کیا خوب کہہ گئے ہیں کہ عادتیں سر کے ساتھ ہی جاتی ہیں۔ مسلم لیگ ن شاید موقع کی تلاش میں تھی اور اب جبکہ ملک نہایت نازک حالات میں گھرا ہوا ہے، لیگی قیادت اس موقع پر بھی مذہب کارڈ استعمال کرنے سے نہیں کترائی۔

اس کا آغاز سابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران کیا جب تفتان بارڈر سے آئے زائرین کے بارے میں بے پر کی خبر سنائی کہ زائرین کو وزیراعظم عمران خان کے مشیر زلفی بخاری کی سفارش پر پاکستان میں اپنے علاقوں میں جانے کی اجازت دی گئی، جس سے کرونا وائرس پھیلا۔ اس کے بعد سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی پریس کانفرنس میں یہی راگ الاپا اور پاکستان تحریک انصاف کے دو رہنماؤں کو زائرین کو بنا ٹیسٹ اپنے علاقوں میں جانے کی اجازت دینے کا الزام لگایا، ان دونوں رہنماؤں کا تعلق کیونکہ شیعہ برادری سے تھا، اس لئے ان کو زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

مسلم لیگ ن کے اس الزام کے بعد شیعہ مخالف کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ نے ان الزامات کو سچ قرار دینے کے لئے تقاریر اور سوشل میڈیا پر شیعہ برادری اور ایران کی پاکستان دشمنی قرار دینا شروع کر دیا۔ ابھی یہ بحث شروع ہی ہوئی تھی کہ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے بھی پاکستان واپسی پر تفتان بارڈر کی رٹ لگائے رکھی۔

اس پروپیگنڈا کے دو خاص مقاصد تھے اول یہ کہ حکومت کی ناکامی ثابت کی جائے اور دوسرا حکومت کو شیعہ نواز قرار دے کر نفرت پیدا کی جائے، اس کے ساتھ ساتھ ایران کے خلاف عام عوام میں نفرت پھیلائی جائے، اب اگر حقائق پر مبنی بات کی جائے تو ایران سے آئے زائرین اپنے اپنے صوبوں میں قائم قرنطینہ سینٹر میں رہائش پذیر ہیں جبکہ پوری دنیا سے نو لاکھ افراد ائر پورٹس سے بنا ٹیسٹ کے پورے ملک میں پھیل گئے ہیں، جن میں سعودی عرب سے آئے پندرہ ہزار افراد بھی شامل ہیں جن میں سے کم از کم دو افراد کی موت بھی واقع ہو چکی ہے جبکہ مردان میں ایک شخص جو سعودی عرب سے واپس آیا تھا، اس کی وجہ سے پوری یونین کونسل میں کررونا وائرس پھیلا جسے لاک ڈاؤن کرنا پڑا مگر کسی بھی سیاسی یا مذہبی رہنما میں اتنی جرآت نہیں ہوئی کہ وہ سعودی عرب سے واپس آئے افراد پر انگلی اٹھا سکیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایسا کرنا سیاسی خودکشی کے مترادف ہو گا اور ریال آنا بند ہو جائیں گے۔

اب سوال یہ ہے کہ آخر کررونا وائرس پر فرقہ واریت کیوں پھیلائی گئی۔ اس کے لئے آپ کو سرکاری سعودی نیوز ویب “سعودی گزٹ” کو کھنگالنا پڑے گا جس پر دس مارچ کو ایک کالم چھپا جس کا عنوان تھا Facing Iranian Corona اور اس کالم میں دل کھول کر بغض نکالا گیا گویا کررونا وائرس چین سے نہیں بلکہ ایران میں پہلی بار آیا۔

چلیں سعودی عرب میں آپ ایران پر الزام لگا سکتے ہیں مگر اسرائیل میں کیسے پھیلا جہاں کوئی بھی انسان ایرانی پاسپورٹ پر سفر ہی نہیں کر سکتا۔
امریکہ نے بھی ایرانی ویزوں پر عرصہ سے پابندی عائد کی ہوئی ہے وہاں وائرس کس نے پھیلایا ؟؟؟سعودی عرب کے حکمران ایسے کم ظرف ہیں کہ فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کے لئے کوئی بھی موقع ضائع نہیں ہونے دیتے اور یہ جو پاکستان میں مسلم لیگ ن اور برسات میں نکل آنے والے مینڈکوں کی طرح تکفیری ٹولہ ایک دم سے شور مچانے لگ گیا ہے، اس کے تانے بانے کہیں نا کہیں سعودی پالیسی سے جا کر ملتے ہیں کیونکہ شریف خاندان بھی سعودی حکمرانوں کو خوش کرنے کے چکر میں ہے جبکہ دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ تو ویسے ہی سعودی پیرول پر زندہ ہے، اس لئے انہوں نے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے ایک عالمی وباء میں بھی فرقہ واریت کے راستے نکال لئے حالانکہ زائرین کی وجہ سے نا ہی وائرس پھیلا اور نا ہی پاکستان میں کوئی اموات ہوئیں البتہ سعودی عرب سے آئے افراد ضرور وفات پا چکے ہیں۔

اس پالیسی کو جہاں سوشل میڈیا نے اپنایا وہیں الیکٹرانک میڈیا بھی پیچھے نہیں رہا۔ مسلم لیگ ن کی دیکھا دیکھی چند لفافہ صحافی بھی ہم آواز ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ رؤف کلاسرا جیسے صحافی بھی پیچھے نا رہے، اب یہ نہیں معلوم کہ وہ براہ راست سعودی زبان بول رہے ہیں یا ن لیگ کے دور کی عیاشیاں ایسا بولنے پر مجبور کر رہی ہیں۔
رؤف کلاسرا کو جیو نیوز کے مالک شکیل الرحمٰن کی گرفتاری پر تو بہت دکھ ہو رہا ہے مگر گزشتہ حکومت میں جب بول نیوز کے مالک شعیب شیخ کو گرفتار کیا گیا تھا تب نجانے کیوں رؤف کلاسرا کو آزادی صحافت پر حملہ نظر کیوں نہیں آیا تھا
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کہیں نا کہیں رؤف کلاسرا کے الفاظ میں ن لیگی رنگ ضرور واضح ہے۔

شریف خاندان ہو یا مسلم لیگ یہ اپنے پاؤ گوشت کے لئے دوسرے کی گائے ذبح کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
انہیں اس بات کی پرواہ ہی نہیں ہے کہ ان کے چھوٹے سے مفاد کے نتیجہ میں پاکستانی قوم میں ایک فرقہ کے لئے کتنی نفرت پیدا ہو جائے گی جو کہ ایک فطری عمل ہے کیونکہ عام شہری کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ پڑوسی ملک ایران اور پاکستان میں بسنے والی شیعہ برادری آپ کی دشمن ہے اور آپ کو مارنے کے لئے وہ کررونا وائرس پھیلا رہے ہیں۔
نجانے ہمارے ریاستی اداروں کو ان معاملات میں مذہبی نفرت کیوں نظر نہیں آتی۔

شریف خاندان بھی عجیب ہے کہ اقتدار کے مزے پاکستان میں لوٹتا ہے مگر رہتا لندن میں ہے جبکہ پالیسی سعودی عرب کی اپناتا ہے، پتا نہیں یہ خاندان اس ملک سے کب مخلص ہو گا یا شاید کبھی بھی نا ہو اور یوں ہی اقتدار کی ہوس میں یا اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے مذہبی منافرت پھیلاتا رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں