کررونا، علاج سے پہلے احتیاط (محمد گلزار چودہدی)

کررونا وائرس کا ذکر وزیراعظم ہاؤس سے لے کر ہر اس جگہ پر ہو رہا ہے جہاں دو تین افراد جمع ہوجاتے ہیں۔ ہر کوئی اس کے متعلق جان چکا ہے۔ لیکن ہر کوئی مطلوبہ اقدام نہیں کر رہا ہے۔ حکومت اپنے محدود وسائل کے ساتھ اس وائرس کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ یہ ایک عالمی وبائی مرض اور اپنے آپ کو دنیا بھر میں پھیلا چکا ہے۔ ممکن ہے اس طرح کی آفتیں پہلے بھی آتی رہی ہوں لیکن ان کا چرچا اس قدر نہ ہوا ہو۔ یہ میڈیا کا دور ہے۔ ہر تیسرے پاکستانی کے ہاتھ میں کیمرہ اور انٹرنیٹ ہے۔ سوشل میڈیا نے تو ایک طوفان برپا کر رکھا ہے۔ اس کی بے تُکی خبروں، افواہوں اور بے بنیاد علاج کے ٹوٹکے عوام میں خوف و ہراس پھیلا رہے ہیں۔ ان کی تردید سرکاری اور الیکٹرانک میڈیا کو کرنا پڑ رہی ہے۔ پاکستان ایک روایت پرست معاشرہ ہے جہاں پابندیاں لگانا اور ان پر عملدرآمد کرانا ایک دشوار ترین کام ہے۔ ہم ابھی تک ایک قوم نہیں بن سکے۔ ہمارا قومی نکتہ نگاہ نا صرف مختلف ہے بلکہ سخت اور کٹر پن کا حامل ہے۔ ہم ثقافتی اور سماجی جکڑ بندیوں کے طلسم کے قیدی ہیں جو ملک و ملت کے مفاد کے بجائے فرسودہ قسم کے تصورات اور اوہام میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ غیر صحت مندانہ رجحانات اور تصورات کو فروغ دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ کررونا ایک وائرس ہے جس پر ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا سو یہ جان لیوا ثابت ہو رہا ہے۔ اب تک اٹلی، چین، سپین، ایران، فرانس اس سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک ہیں۔ پاکستان میں ایک ہزار مریضوں کی تشخیص ہوئی ہے جو روز بروز بڑھ رہی ہے۔

اسلام میں ایسی جگہوں پر جانا منع ہے جہاں وبائی مرض پھوٹ چکا ہو۔ پتا نہیں ہم ایسی سرگرمیوں کو کیوں جاری رکھنا چاہتے ہیں جو مذہب کے بجائے ثقافتی ہیں۔ یا ان کا ان دونوں میں سے کسی سے بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ حکومتی ارکان، پڑھے لکھے، باخبر اور با اثر افراد کو چاہیے کہ اس موذی مرض کے متعلق عوام کو آگاہ کریں اور سرکار کی اعلان کردہ احتیااطی تدا بیر پر عمل کریں۔ کررونا پر قابو پانا تنہا حکومت کے بس کا روگ نہیں۔ حکومت پالیسیاں بنا سکتی ہے، لوگوں میں بیماری کی تشخیص اپنی استعداد کے مطابق کر سکتی ہے۔ حفاظتی اقدامات پر عملدرآمد کرنا عوام کا کام ہے۔ لیکن بہت افسوس ناک خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ اگر کسی میں یہ وائرس پایا جاتا ہے تو وہ اسے چھپانا چاہتا ہے جو اس کے اپنے، خاندان، بچوں اور دیگر لوگوں، جو اس کے ساتھ وابستہ ہیں، کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ بیرون ملک سے آنے والے پاکستانی اپنے اعداد و شمار دینے سے گریزاں ہیں۔ وہ خوف میں مبتلا ہیں کہ ہمیں اپنے پیاروں کے ساتھ رہنا چاہیے نہ کہ خود کو علاج کے لیے محکمہ صحت کے حوالے کر دینا چاہیے۔ چین نے اگر اس پر قابو پا لیا ہے تو اس میں ان کے عملے اور حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کا بھی بہت کردار ہے۔ انہوں نے ووہان کی مکمل ناکہ بندی کر کے اسے کم از کم سطح پر لانے کی کوشش کی ہے۔ اس وبائی مرض کو محدود کر کے ہی اس کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انتظار کیے بغیر ملک کی ناکہ بندی کر دینی چاہیے تھی۔ سرحدوں سے باہر لوگ پاکستان میں داخل اس لیے ہوئے کہ ہم اس کے متعلق سنجیدہ نہیں تھے۔ ملک کے اندر ابھی تک عوام اسے تماشائیوں کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ ہر کوئی اپنی عقل کے مطابق اس کے پھیلاؤ کی تشریح اور حکومت پر تنقید کر رہا ہے لیکن احتیاط نہیں کرتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ ابھی تک ایک دوسرے کے ساتھ سلام لیتے ہوئے ہاتھ ملاتے ہیں اور گلے بھی ملتے ہیں۔ دعوتیں بھی چل رہی ہیں اور مل کر کھانا کھانے کا عمل بھی جاری ہے۔

اس کا علاج ان معاشروں میں آسانی سے کیا جا سکتا ہے جہاں ایسی حکومتیں قائم ہیں جو کسی کو جوابدہ نہیں۔ جو اپنی دھرتی اور ہم وطنوں سے محبت کرتے ہیں اور قانون پر عمل کرنا فرض سمجھتے ہیں۔ جن معاشروں میں ان کے علاوہ دوسری چیزوں سے محبت کی جاتی ہے وہاں ایسی بیماریوں پر قابو پانے کے لیے انتہائی اقدامات درکار ہوتے ہیں۔ ہم جب مثال دیتے ہیں تو ایسی قوموں کی دیتے ہیں جن کی سب سے اول ترجیح ان کا ملک اور عوام ہیں لیکن ہم خود کہاں کھڑے ہیں؟؟؟ جب تک ملک کے لیے جان دینے کا جذبہ اول ترجیح نہیں بنتا اس وقت تک ہم ایک ایسی قوم نہیں بن سکتے جس کی مثال دی جا سکے۔

مسلم معاشروں کے عوام غیر مسلموں سے نالاں ہیں کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک سازش ہے۔ حالاں کہ اگر مسلمان اپنے دین پر ایک سچے مسلمان کی طرح عمل کریں تو وہ بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ایک بات جو ان میں زیر گردش ہے وہ یہ ہے کہ کوئی یہودی اس وائرس کا شکار نہیں ہوا۔ ا نہوں نے اس کا علاج دریافت کر لیا ہے یا انہیں پہلے ہی اس کا علم تھا اور وہ احتیاطی تدابیر کر کے اس سے محفوظ ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ مکمل تنہائی میں رہیں اور اپنی حفاظت پر توجہ دیں۔ یہی دوسروں کے لیے بھی بہتر ہے۔ یہی اس بیماری کو روکنے کا واحد طریقہ ہے۔ دنیا اس وقت دو محاذوں پر لڑ رہی ہے۔ ایک اس بیماری کو پھیلنے سے روکنا دوسرا اس کا علاج۔ پاکستان جیسے ممالک کو تین محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے۔ پہلے دو کے ساتھ ساتھ اسے عوام کو راشن پہنچانا اور انہیں آگاہی دینا۔ میڈیا کو چاہیے کہ تنقید و تنقیص سے پرہیز کرے اور سنسنی پھیلانے کے بجائے ٹھوس حقائق کی بنیاد پر لوگوں میں آگاہی عام کرے۔ غیر حقیقی اور غیر سائنسی بحث وتکرار کے بجائے با مقصد اور مفید پروگرام عوام کو دکھائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں