دین اسلام کل اور آج (نرجس کاظمی)

ہمارے سکول پڑھنے کے وقتوں میں ہمیں نصاب کی کتابوں میں پڑھایا جاتا تھا کہ جب انگریزوں نے متحدہ ہندوستان اور دوسری مسلمان  ریاستوں پہ قبضہ کیا تو انہوں نے ہمارے قیمتی علم و دانش کے خزانے یعنی لائبریریوں کو جلا کے خاکستر کر دیا تھا جو کہ بعد میں ہماری جہالت اور زوال کا باعث بنا۔

مگر جس علم و دانشمندی کی ہم وکالت کر رہے ہیں  وہ علم و دانش وہی تھا جو کہ ہم مسلمانوں کا 1400 سال سے ہی زوال کا باعث بنتا رہا ہے۔ میں نے اپنی ایک گزشتہ دنوں اپنی وال پہ لکھا تھا کہ کیمیا کے بانی مسلمان سائنسدان جابر بن حیان رض نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے حکم پر  ایک ایسا کاغذ ایجاد کیا تھا جسے آگ نہ پکڑ سکے اور امام الصادق علیہ السلام اپنے شاگردوں کو دوران درس ہمیشہ تلقین کرتے کہ میں جو بات سمجھایا کروں سمجھ آنے پر لکھ لیا کرو۔ جب آپ ع نے آگ سے محفوظ رہنا والا کاغذ ایجاد کروایا تھا۔تو ان معلومات و تحقیقات کو اسی کاغذ پہ محفوظ کر دیا گیا تھا۔ یونانی اور مغربی حکمران شروع دن سے ہی جابر بن حیان رض اور ان کے دور کے دوسرے مسلمان سائنسدانوں کو خریدنے کی کوششیں کرتے رہے تاکہ اپنے ممالک میں بھی علم کے چراغ مذید روشن کئے جا سکیں۔ بعض سائنسدانوں نے ان کی درخواستیں خود قبول کیں اور بعض نے مسلمان حکمرانوں کے دباو کے باوجود جانے سے انکار کردیا۔ انکار کرنے والوں میں جابر بن حیان رض سر فہرست رہے مگر اپنا علم مغرب تک پہنچانے سے انکار نہ کیا۔ مسلمان حکمرانوں کی بے پناہ انعام و اکرام کے لالچ میں جابر بن حیان رض اور ان جیسے چنیدہ شخصیات کو تلاشنے اور انہیں قید کرکے طرح، طرح کی اذیتیں دے کر مغرب کے حوالے کرنے کی، تمام تگ و دو کے کارنامے آج بھی تاریخ کے صفحوں میں روشن ہیں۔

اب کچھ قصے ان علمی خزانوں کے جلاو گھیراو کے جس کا ماتم ہم آج بھی کرتے نہیں تھکتے کہ کاش ہمارے پاس وہ علم ہوتا تو ہم چاند ستاروں پہ مغرب سے پہلے کمند ڈال چکے ہوتے۔ ان لاکھوں کروڑوں کتابوں میں سے چند ایک کا ماتم واقعی بنتا ہے کہ جب لائبریریاں جلائی جا رہی تھیں۔ تو حکم تھا کہ ایسی آگ جلائی جائے کہ سب کچھ راکھ ہو جائے۔ آگ کے ٹھنڈا ہونے پر راکھ کرید کر  وہ تمام کتابیں نکال کر مغرب منتقل کر دی جائیں جن پہ آگ کا قطعا اثر نہ ہوا ہو۔ اہل مغرب کیلئے ہماری راکھ ہونے والی کتابیں صرف ردی کا ڈھیر تھیں جس سے ان کو غرض بھی نہیں تھی ان کیلئے اہمیت کی حامل صرف یہی کتابیں تھیں۔ ہمارے معلومات کے خزانے کے ساتھ متھا ماری پہ وہ اپنے کئی قیمتی سو سال ضائع نہیں کر سکتے تھے۔ انہیں سب سے آسان اور دیرپا حل یہی نظر آیا اور ان کی، چند گھنٹوں کی جدوجہد نے گوہر مقصود آسانی سےان کے حوالے کردیا۔ یہ وہی معلومات کا خزانہ تھا۔ جن کی بنیادوں پہ آج ان کی قابل فخر و ناقابل تردید کامرانیوں کی عمارت مضبوطی سے ایستادہ ہے۔ 

مسلمانوں کے آج کے حالات کو دیکھا جائے اور 1400 سال قبل کے حالات سے اس کا موازنہ کیا جائے تو ہمیں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ  وسلم کا فرمان کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی کرم اللہ وجہہ اس کا دروازہ ہیں، کی حقیقت تاریخ ثابت کرتی ہے۔ دین اسلام ایک نیا دین تھا اس وقت کے لوگ آج کے دور کے لوگوں سے مختلف تھے مگر جو عقل و شعور ہم آج رکھتے ہیں، وہ اس دور میں جینے والے بھی رکھتے تھے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان کہ پوچھ لو مجھ سے اس سے پہلے کہ میں تم لوگوں کے درمیاں نہ رہوں، کیونکہ میں زمینوں سے زیادہ آسمانوں کے راستوں سے واقف ہوں۔ عربی مذاق میں ان کی باتوں کو اڑاتے رہے کسی نے کہا کہ یا علی ع یہ تو بتائیں کہ میرے سر کے بال کتنے ہیں دوسرا ٹھٹھے لگاتا بولا چھوڑیں یہ ہی بتا دیں صبح میں نے کیا کھایا تھا۔افسوس کا مقام کہ زمینوں سے زیادہ آسمانوں کے راز جاننے کے دعوے داروں کو اس دور میں بھی مذاق اڑانے اور تنقید کرنے والے ہی ملے۔ اگرچہ نبی پاک ص اور ان کے بعد آنے والے ان کے اہل بیت ص کے چند ہی صحابہ کرام رض کو مدینہ العلم، باب العلم  اور ان کے اہل بیت سےاصل اور حقیقی علم حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس دور کے ملنے والے علم کے اہم اور ناقابل تردید ثبوت آج بھی ترقی یافتہ ممالک کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں، قلمی نسخوں کی صورت میں ہی محفوظ  ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ مسلم اکثریت اس بات کی حقیقت سے ہی ناواقف ہے مگر شکر ہو گوگل کا جب اس پر نامور مسلمان سائنسدانوں کے نام سرچ کریں تو ان کے استادوں کے ناموں میں اہل بیت رسول ص کے نام روشن ہو کر سامنے آجاتے ہیں۔ 

مسلمان سائنسدانوں پر قید و بند جیسی سختیوں نے انہیں اپنی جان چھپانے اور ان کا حال دیکھنے والوں کو عبرت پکڑنے پر مجبور کردیا۔ یہ سختیاں ان پر کیوں لائی گئیں؟ انہیں اذیت ناک موت سے ہمکنار کیوں کیا جانے لگا؟ اس کی بنیادی وجہ ان کا اہل بیت سے تمسک تھا۔ اور اس طرح اہل بیت ع اپنے ہر طرح کے علوم سے واقفیت کی بناء پر عالمگیر شہرت حاصل کرتے جا رہے تھے۔ دنیا ان کے ناموں سے واقف ہوتی جارہی تھی۔یہاں پر آکر بہت سی باتیں مغربی ممالک بھی اپنی لادینیت کی بناء پر چھپانے پر مجبور ہیں۔ نبی پاک ص کا فرمان کہ “علم کسی کی میراث نہیں، جو جتنی جدوجہد کرے گا وہ اتنا ہی فیض یاب ہوگا” اور وقت نے ہمیں دکھایا  کہ مدینہ العلم ص سے حاصل کردہ علم بیرونی دنیا میں منتقل ہوتا رہا اور ہماری جھولیاں اس علم سے خالی ہوتی رہیں۔

تعلیم کو خیرباد کہنا، اہل بیت رسول ص اور ان  سے علم حاصل کرنے والوں  کو نشانہ عبرت بنانا مسلمانوں کی فاش غلطیاں تھیں جو بار، بار دہرائی گئیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ نبی پاک ص کی تعلیمات  وہ نہیں تھیں جن پر آج ہم عمل کر رہے 1400سال قبل دین اسلام کی شکل کچھ اور تھی۔ مگر بدقسمتی سے آپ ص کے وصال کے بعد اہل بیت ع اور آپ کے مکرم صحابہ کرام رض کو سازشوں کے ذریعے اذیت ناک انداز  میں شہید کیا جاتا رہا۔ ان بے خطا مظلوموں کی شہادتوں سے دین کی صورت اس کے ابتدامیں ہی مسخ ہوچکی تھی۔ نبی پاک ص اور ان کے اہل بیت ع و صحابہ رض اپنے اصل علوم و حقوق کے ساتھ ہی پس پردہ ہوتے چلے گئے۔

اب مسلمان قوم اپنی نئی اور بد صورت شکل کیساتھ ایک خونخوار و جنگجو قوم کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آتی گئی۔ جنگ وجدل ہوتے رہے فتوحات پہ فتوحات اور جنگی چالوں نے انہیں سلطنتیں تو عطا کیں۔ مگر ان سلطنتوں کا نظام عدل و انصاف سے چلانے میں مہارت نہ ہونے کی بناء پر آئے دن مسائل سر اٹھائے رہتے۔اب نتیجہ یہ نکلتا ایک طرف سے ذرا توجہ ہٹتی تو وہاں بغاوت سر اٹھانے لگتی وہاں سے نمٹتے تو دوسری طرف نئے سرے سے بغاوت شروع ہوجاتی۔ مسلمان بادشاہوں کی ساری طاقت صرف  بغاوتوں کا سر کچلنے میں ضائع ہوتی رہی۔ اپنے ہی بکھیڑوں کے بھنور میں پھنسے یہ حکمران اپنی ہی بنائی دلدل میں دھنس کر محدود ہوگئے۔ جبکہ اسی دوران  ان کی پہنچ سے کہیں دور علاقوں میں بسنے والی یورپی اقوام جو کبھی جابر بن حیان رض جیسے گوہر نایاب کیلئے ڈھیروں دولت انعام و اکرام کے طور پر لا کر مسلمان حکمرانوں کے قدموں میں جھکتے رہے۔جابر بن حیان رض کو  اپنے استاد محترم حضرت امام جعفر الصادق کو ظالموں کے رحم و کرم پہ چھوڑنا ہر گز قبول نہ تھا وہ ہمیشہ اپنے امام صادق ع کے ساتھ سائے کی طرح لگے رہے اور ہمیشہ یورپی حکمرانوں کیساتھ جانے سےسختی سے انکار کرتے رہے۔جبکہ امام صادق ع کے حکم پر اور کچھ جان کے خوف میں مبتلا ماہرین یورپی حکمرانوں کے ہمراہ روانہ ہوگئے یہاں یورپی اور دیگر غیر مسلم ممالک کی ترقی کے ادوار شروع ہوتے ہیں یہ اقوام تعلیم و ترقی کے زینے طے کرتی ہوئی، اور اپنی بہترین ھکمت عملی کی بناء پر آج انہی مسلمانوں  کے سروں پہ قابض ہو کر بیٹھی ہیں۔ جبکہ  مسلمان اپنی جنگجو فطرت کی بناء پر اب چھوٹی، چھوٹی اور  کمزور ریاستوں کے وارث ہیں۔ اگرچہ کچھ ترقی یافتہ بھی ہیں مگر وہ بھی غیر مسلم طاقتور ریاستوں کی غلامی پہ مجبور ہیں۔ آج بھی مسلمانوں  کے جنگجو پن کو جذباتی ہتھیار کے طور پر استعمال تو کیا جارہا ہے مگر افسوس کہ  ترقی کے حوالے سے انہیں مکمل طور پر بانجھ کردیا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں