ابو جی کی یاد میں (نرجس کاظمی)

میں نے اپنے بچپن میں اپنی دادی کی زندگی تک، جب بھی دادی جان کو جلال میں دیکھا تو ساتھ ہی ابو کو اضطراب میں مبتلا دیکھا۔ جیسے انہیں کوئی انجانا سا خوف ہو۔ کبھی ہنسی بھی آتی اور کبھی کبھی دکھ بھی ہوتا کہ کیا چھوٹے بچوں کی طرح گڑگڑا رہے۔ اس وقت دادی کو کچھ کہنے کی اخلاقی جرات ہم میں نہیں تھی کہ جس ہستی سے ابو ڈر رہے وہ یقینا بہت ہی طاقتور ہستی ہیں۔ پھر ابو جذبات میں آ کے اپنی کمزور اور ضعیف ماں کے ہاتھ اپنے مضبوط اور طاقتور ہاتھوں میں عقیدت سے تھام لیتے۔ انہیں بوسہ دیتے ماں کے قدموں میں بیٹھ کر پاؤں چومتے، بچوں کی طرح معافی مانگتے، دادی کہتیں تو نے میری حکم عدولی کر کے مجھے دکھ پہنچایا ہے۔ ابو پاؤں چومتے جاتے اور کہتے بے جی میری جگہ آپ کے قدموں میں میرے رب نے رکھی ہے۔ مجھے اپنی جنت چومنے دیں مجھے یہیں سے معافی ملنی پھر بےجی یعنی دادی شان بے نیازی سے ابو کو معاف کردیتی تھیں۔ حالانکہ ابو کی خطائیں بلکل معمولی ہوتی تھیں۔ ورنہ دادی کے سامنے ابو کی جرات نہیں تھی کہ اونچی آواز میں بات بھی کرلیتے۔ اسی لئے جب ابو سامنے نہ ہوتے تو بے جی جھولیاں اٹھا، اٹھا کر گریہ کرتے ہوئے میرے ابو کیلئے خصوصی دعائیں کرتی تھیں۔

ایک دفعہ تو میں نے ابو سے پوچھ ہی لیا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں مجھے اچھا نہیں لگتا۔ ابو کہتے میرے والدین کا درجہ میرے رب نے بہت بلند کیا ہوا ہے۔ سختی سے حکم ہے کہ اپنے بوڑھے والدین کو اف تک نہ کہو مبادا تمہاری نیکیاں حبط ہوجائیں۔

ابو اپنے والد یعنی ہمارے دادا جی کا ذکر بھی بہت اداس لہجے میں کرتے بعض اوقات رو بھی پڑتے تھے۔ کہتے جب تمہارے دادا ابو فوت ہوئے تھے نا۔ میں ان کے ساتھ حیدرآباد کے ایک ہسپتال میں تھا، گھر اطلاع پہنچانا ضروری اور میت کو نواب شاہ تک پہنچانا آج سے 50 سال پہلے کافی دشوار کام تھا۔ میرا اپنی یتیمی کے بارے میں سوچ کر دماغ بلکل کام چھوڑ گیا تھا کہ مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ زمانے میں کیسا چلن رکھنا ہے۔ سب شاہ جی یعنی دادا جی بتاتے۔ اسی پریشانی میں ایک رکشہ تو کر لیا پر محلے کی گلیوں میں راستہ بھول گیا پھر رکشے والے کو کہا کہ میں نشانیاں بتاتا ہوں تم مجھے میرا گھر ڈھونڈ کے پہنچا دو۔ میں ہر کام کا مشورہ اپنے باپ سے پوچھ کر کرتا تھا، تو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب کس سے مشورہ کروں، ویسے اپنی میت کا مسئلہ دادا خود ہی حل کرگئے تھے کہ نواب شاہ دفنا دینا۔ پھر بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیسے کروں۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ان کی رہنمائی کے بغیر بھی زندگی گزارنی پڑ جانی۔ اس کے بعد دادی جان تھیں جن کے مشورے دادا کبھی نہیں مانتے تھے۔ لیکن ابو نے دادی کے مرنے تک بچوں کی طرح ان کا ہی دامن تھامے رکھا۔

بےجی کو ویسے تو اپنی ساری اولاد ہی بہت پیاری تھی مگر ابو ان کی فرمانبرداری کی وجہ سے زیادہ قریب تھے۔ اپنے بزرگوں سے محبت اور عقیدت کا درس میں نے اپنے باپ سے ایسا سیکھا کہ جب بھی ابو کی قبر پہ جاتی ہوں تو پہلے ان کے قبر کی پائنتی بوسہ دیتی ہوں پھر ان کی قبر کے سرہانے ان کے ماتھے پہ۔ کہ مولا ہماری نیکیوں کو ضبط کر لینا مگر حبط ہرگز نہیں۔ کہ ہم اپنے والدین کی فرمانبردار اولادوں کی اولاد ہیں۔

آج میرے ابو جی کو ہم سے بچھڑے 14سال مکمل ہوگئے ہیں۔ مولا ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں