امداد کرو خواہ دکھاوے کیلئے ہی سہی! (ساجد خان)

پاکستان میں جب سے لاک ڈاؤن کی صورتحال پیش آئی ہے، ملک بھر میں فلاحی تنظیمیں مستحقین افراد کی امداد کے لئے میدان میں آگئی ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن، جے ڈی سی اور الخدمت جیسی بڑی تنظیمیں روزانہ کی بنیاد پر راشن تقسیم کرتی نظر آ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ہر شہر میں مقامی تنظیموں کے ساتھ ساتھ انفرادی طور پر بھی صاحب حیثیت شہری حسب توفیق امداد کرتے نظر آ رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر میرے بہت سے دوست احباب بھی اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں جو کہ نہایت قابل تعریف عمل ہے لیکن یہاں بھی ایک مسئلہ ہے۔
چند دنوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ ایک نئی بحث کا آغاز ہو چکا ہے کہ جو لوگ مستحقین کی امداد کر رہے ہیں انہیں امداد فراہم کرنے کی تشہیر اور تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرنی چاہئیں یا نہیں، کچھ واقعات میں تشہیر پر براہ راست تنقید بھی کی جا رہی ہے جس سے تلخی پیدا ہو رہی ہے جس کا انجام گالم گلوج پر بھی ہوتا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ اسلام اور انسانیت کی رو سے اگر آپ کسی کی مدد کرتے ہیں تو اسے نہایت پوشیدہ رکھا جائے تاکہ مستحقین کی عزت نفس مجروح نا ہو مگر میرا مؤقف کچھ الگ ہے جس سے بہت سے افراد اختلاف بھی کریں گے جو ان کا حق ہے۔

میرا ماننا ہے کہ بعض اوقات حالات کے تناظر میں اصول اور قوانین بدل جاتے ہیں جو چیز عام حالات میں جائز نہیں ہوتی وہی چیز مخصوص حالات میں جائز ہو جاتی ہے۔ شاید غزوہ بدر کا میدان تھا جب ایک صحابی رسول نہایت اکڑ کر اور غرور کے ساتھ چلتا ہوا میدان جنگ میں جا رہا ہوتا ہے اور زبان سے اپنے اور اپنے آباء و اجداد کی بہادری کے قصے جاری ہوتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا کہ اگر یہ عام حالات میں ایسا کرتا تو جائز نا ہوتا مگر اس موقع پر ایسا کرنا جائز ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ چال اور فخر صرف دشمن پر خوف اور ہیبت طاری کرنے کے لئے تھا نا کہ عام حالات میں لوگوں پر اپنا رعب جمانا یا خود کو دوسروں سے افضل ثابت کرنا تھا۔

اب یہاں ایک ہی عمل حالات کے مطابق جائز بھی ہو جاتا ہے اور حرام بھی بالکل اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ آج جو دنیا اور ہمارے ملک کے حالات ہیں، اس کے مطابق دکھاوا بھی جائز ہو گیا ہے۔ میں یہ بات دین کے تناظر میں نہیں کہہ رہا اور نا ہی میں اتنا علم رکھتا ہوں کہ فتویٰ دے سکوں بلکہ یہ فقط میرا ذاتی خیال ہے جو کسی کی نظر میں غلط بھی ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں غربت ایک بہت بڑا مسئلہ ہے،اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں ہزاروں بلکہ لاکھوں ایسے گھرانے موجود ہیں جن کا کوئی کمانے والا ہی نہیں ہے لیکن آج جو حالات ہیں ان میں مستحقین کی تعداد دگنی سے بھی بڑھ چکی ہے کیونکہ ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جو روزانہ کی بنیاد پر محنت مزدوری سے اپنا گھر چلاتا تھا،آج وہ طبقہ مزدوری کر کے اپنا گھر چلانے کی سکت تو رکھتا ہے مگر لاک ڈاؤن کی وجہ سے اسے مزدوری ہی میسر نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ بھی اس طبقے میں شمار ہو گیا ہے جو کما نہیں سکتا۔
اس لئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان مخصوص حالات میں اگر کوئی دکھاوے کے لئے بھی کسی مستحق کی امداد کرتا نظر آ رہا ہے تو اگر آپ اس کے اس عمل کو پسند نہیں کرتے تب بھی اپنی چونچ چند دنوں کے لئے بند رکھیں کیونکہ اس شخص کے لئے خواہ دکھاوا ہی ہو لیکن کیا پتا مستحق شخص کے لئے وہ دکھاوا زندگی بچانے کے لئے کافی ہو،کم از کم کچھ نا کچھ اور کسی نا کسی طریقے سے مستحقین تک پہنچ تو رہا ہے اگر آج دکھاوے کی خاطر دینے والے افراد کسی کی تنقید کی وجہ سے امداد کرنا ترک کر دیں تو اس کا نقصان کس کو ہو گا۔کسی نا کسی گھر میں بچے بھوکے بلک رہے ہوں گے۔
اس لاک ڈاؤن میں جہاں ہم نے گھر سے نکلنا محدود کر دیا ہے وہیں اگر کچھ دن کے لئے دوسروں پر تنقید کرنی بھی محدود کر دیں تو شاید یہ ہمارے لئے اور ہماری قوم کے حق میں بہتر ہو گا۔
لوگ یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسلام میں جہاں امداد تنہائی میں کرنے کا حکم ہے وہیں تنقید بھی سب کے سامنے نا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ہم لوگ مذہب کے معاملے میں صرف اپنی پسند کی باتیں ہی نکال کر لاتے ہیں اور دوسری باتوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔
آپ نہایت رازداری کے ساتھ مستحقین کی امداد کر رہے ہیں اچھی بات ہے،آپ کو اللہ تعالیٰ کی ذات اجر دے گی لیکن اگر کوئی دکھاوے کی خاطر امداد کر رہا ہے،اس پر تنقید کرنے کی ضرورت نہیں ہے،وہ اس کا اور اللہ کا معاملہ ہے اگر اسے اجر نہیں بھی ملے گا تو کم از کم کسی مستحق کا دو چار دن کے لئے چولہا تو جل ہی جائے گا۔اس دکھاوے کی بدولت ہی سہی اسے تو راشن مل جائے گا۔

ہمیں بحیثیت قوم حالات کی نزاکت کو سمجھنا چاہئے اور دوسروں کے اچھے کاموں پر تنقید کرنے کے بجائے خود بھی کوئی اچھا کام کر لینا چاہئے تاکہ ہم اس مصیبت سے سرخرو ہو کر نکلیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں