سانحہ ہزارہ ٹاون اور سوشل میڈیا کا دہشتگردانہ استعمال (لیاقت علی ہزارہ)

دو دن پہلے ہزارہ ٹاون کوئٹہ میں رونماء ہونے والے اندوہناک واقعہ نے پاکستان میں بسنے والی قومیتوں کے بقائے باہمی اور برادرانہ تعلقات کے بارے میں تشویشناک سوالات اٹھائے ہیں جنہیں حل کرنے کی سعی پاکستانی شہریوں کے ساتھ ساتھ، حکومت اور سیکورٹی سے متعلق اداروں کو کرنی چاہیئں۔ اس واقعہ کے فورا بعد سوشل میڈیا کے ذریعے جس اشتعال و فتنہ انگیزی، تشدد اور دہشتگردانہ روش کی ترویج اور پرچار کی گئی اس سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ آدھا تیتر آدھا بٹیر قسم کے اتائی صحافی اور انسانی حقوق کا دم بھرنے والے کارکن پیش پیش رہیں۔ اس سے ذیادہ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ یہی جعلی صحافی اور نام نہاد انسانی حقوق کے کارکن اپنے آپکو عالمی ایوارڈ یافتہ کہتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں مگر اس واقعہ کے اصل محرکات اور وجوہات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات میں جائے بغیر ہی ایسا ہسٹریا پیدا کیا تاکہ لوگ تشدد اور دہشتگردانہ اقدامات کی طرف مائل ہو یعنی انہوں نے عوام کو تشدد اور دہشتگردی کے لئے اکسایا۔ اس واقعہ کے فورا بعد، سوشل میڈیا پر جاری رجحانات کا تجزیہ کرنے سے یہ بات بخوبی آشکارا ہو جاتی ہے کہ بظاہر پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے ہونے کے باوجود، انہی اتائی صحافی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا بغض، تعصب، نفرت اور دہشتگردانہ طر‌ز فکر انکے مصنوعی چہرے سے ظاہر ہونے لگے جو انہوں نے برسوں سے شیطانی طریقے سے چھپائے ہوئے تھے تاکہ بوقت ضرورت ان اوصاف کو تخریب کاری کی غرض سے استعمال کیا جاسکے۔

بدقسمتی سے پاکستان کا شمار دنیا کر ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں سوشل میڈیا پر تشدد اور دہشتگردانہ جذبات کی طرف اکسانے والے عناصر کے لئے کوئی سخت قوانین موجود نہیں جسکا سب سے ذیادہ فائدہ وہی عناصر اٹھاتے ہیں جو عوام کو غیر ریاستی اقدامات اٹھانے میں مددگار ہو۔ تادم تحریر، ہزارہ قوم کے تمام سیاسی جماعتوں، اکابرین اور برجستہ شخصیات کے علاوہ، ہزاروں دیگر افراد نے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس کے ذریعے اس واقعہ کی مذمت اور لواحقین کے ساتھ دلی ہمدردی کیں مگر سوشل میڈیا پر نا تھمنے والے دہشتگردانہ اقدامات، اشتعال و فتنہ انگیز جذبات اور تشدد کی ترغیب بدستور جاری ہیں جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ پشتون برادری کی اکثریت کے نزدیک دہشتگردی، تشدد اور فتنہ انگیزی روز مرہ کے کاموں کی طرح معمول کی سرگرمی ہیں اور انکی ترویج و ترغیب سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔

اس واقعہ کے محرکات کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ اسے غیرجانبدارانہ انداز میں چھلنی سے گزارا جائے تاکہ حقائق کا صحیح اداراک ہو جو آگاہانہ فیصلہ سازی اور اس طرح کے واقعات کی روک تھام میں مد و معاون ثابت ہو۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ غیر متعلقہ اشخاص ہزارہ ٹاون میں کس لئے گئے تھے۔ کیا ہزارہ ٹاون سیر و تفریح کی جگہ ہے؟ کیا ہزارہ ٹاون کوئی پکنک پوائنٹ ہے یا کیا ہزارہ ٹاون شہر کے دوسرے علاقوں سے ذیادہ سہولت یافتہ ہے؟ ان سب سوالوں کے جوابات میں یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ہزارہ ٹاون نا ہی سیر و تفریح کی جگہ ہے، نا ہی کوئی پکنک پوائنٹ ہے اور نا ہی یہ علاقہ شہر کے دوسرے علاقوں کی بہ نسبت ذیادہ ترقی یافتہ ہے۔

ہماری تحقیقات کے مطابق غیر متعلقہ اشخاص وہاں ہلڑ بازی اور مستورات کو چھیڑتے ہوئے انکی تصاویر اور ویڈیوز بناتے ہوئے دیکھے گئے جس سے اہل علاقہ طیش میں آ گیا اور ہجوم کو جب انکے موبائل فونز کی تلاشی کے دوران وہ تصاویر اور ویڈیوز ملی تو ان حرکات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ جب ان تصاویر اور ویڈیوز کی بابت ان غیر متعلقہ اشخاص سے پوچھا گیا تو وہ کوئی جواب نہیں دے سکے۔ یہ تصاویر اور ویڈیوز انہوں نے علاقے میں گھومتے ہوئے بنائی تھی۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک ویڈیو سے نظر آ رہا ہے کہ ان اشخاص نے راہ چلتی لڑکیوں کی تصویریں اور ویڈیوز بنائیں۔ یہی سے مشتعل ہجوم نے ان پر تشدد کیا۔

یہ اپنی نوعیت کا ایسا واقعہ ہے جو اگر تمام برادر اقوام ٹیسٹ کیس اور سبق کے طور پر دیکھے تو اس طرح کے واقعات کی روک تھام ممکن ہیں کیونکہ سب کو معلوم ہیں کہ کوئٹہ کے مشرق میں واقع علمدار روڑ اور مغرب میں کرانی اور بروری روڈ کے درمیان میں واقع پورا علاقہ جسمیں ہزارہ ٹاون بھی شامل ہیں، ہزارہ قوم کی آبائی ملکیت ہیں۔ یہ قوم دہائیوں سے ان علاقوں میں رہ رہی ہیں، باقاعدگی سے ہر قسم کے ٹیکس بشمول پراپرٹی ٹیکس ادا کرتی ہیں، تمام تجارتی اور کاروباری مراکز، دکانیں، املاک اسی قوم کی ملکیت ہیں اور انکے مالکانہ حقوق بحق مالکان محفوظ ہیں۔ اسکی وضاحت اس لئے بھی ضروری ہے کہ جس علاقہ میں لوگ ذاتی ملکیت کے جائیداد، کاروبار اور املاک رکھتے ہو انہیں تجارتی علاقوں سے الگ دیکھنا ہوگا کیونکہ وہ علاقے رہائشی کہلاتے ہیں۔ رہائشی علاقوں میں اگر ایک ہی قوم اور قبیلہ سے تعلق رکھتے ہو اور وہی املاک انکی ذاتی ملکیت ہو تو انکا احترام کرنا لازم ہو جاتا ہے۔

برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں بھی ایسی رہائشی علاقے موجود ہیں جہاں صرف سیاہ فام لوگ زندگی بسر کرتے ہیں اور کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں صرف سفید فام لوگ رہتے ہیں۔ گو کہ برطانیہ میں کوئی ایسا قانون موجود نہیں کہ کوئی غیر متعلقہ شخص ان علاقوں میں نہیں جا سکتا مگر اگر کوئی غیر متعلقہ شخص مشکوک نظر آئے تو اہل علاقہ خود بھی پوچھ گچھ کے علاوہ پولیس کو اطلاع دے سکتے ہیں۔ یہ “نو گو ایریاز” نہیں بلکہ حفظ ماتقدم کے تحت اہل علاقہ اسطرح کے اقدامات کرتے ہیں تاکہ تسلی سے رہ سکے۔ ان علاقوں کی بابت امریکہ کر موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی پچھلے سال بات کی تھی۔ اس وضاحت کا مقصد یہ ہے کہ اگر قارئين سوال کرتے ہیں کہ کیا علمدار روڑ اور ہزارہ ٹاون آپکے باپ دادا کی جگہ ہے تو اسکا جواب “ہاں” میں ہے۔ کیونکہ ان رہائشی علاقوں میں بنے مکانات، تجارتی مراکز اور دیگر املاک کے مالکانہ حقوق وہاں کے ہزارہ باسیوں کے پاس موجود ہیں تو وہ برملا کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہمارے آباواجداد کی میراث ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ قوم اس علاقے کے مالکانہ حقوق رکھتے ہیں تو کیا وہ کسی غیر متعلقہ شخص یا اشخاص کو ان علاقوں میں آنے سے روک سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پاکستانی اور عالمی قوانین کے مطابق ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ وہ آذادانہ نقل و حرکت کر سکے مگر رہائشی علاقے میں داخل ہو کر مستورات کے ساتھ چھیڑ خانی، ہلڑ بازی اور بلااجازت انکی ویڈیوز اور تصاویر بنانے کی نا قانون اجازت دیتا ہے اور نا ہی شریعت۔ جو لوگ ان غیر متعلقہ اشخاص کی حمایت میں یہ کہتے ہیں کہ اگر انہوں نے اسطرح کی قابل سزا حرکت کی بھی تھی تو انہیں پولیس کے حوالے کیا جانا چاہيئے تھا۔ ایسی بات اس وقت صحیح ثابت ہوتی ہے جب پولیس اور پراسیکوشن اپنے فرائض غیر جانبدارانہ انجام دے رہے ہو اور ملک کا عدالتی نظام انصاف فراہم کر رہا ہومگر جب ادارے اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں مکمل ناکام ہو چکے ہو تو لوگ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے سے نہیں ہچکچاتے۔ اس لئے اداروں کی اطمینان بخش کارکردگی سے متعلق انگریزی کا محاورہ صادق آتا ہے کہ “انصاف سچ کو عمل پذیر ہوتے دیکھنے کا نام ہے”۔

اس اندوہناک واقعہ کے رونماء ہونے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ چونکہ ہزارہ قوم پچھلے بیس سالوں سے اپنے علاقوں میں مقید ہیں، شہر میں آذادانہ نقل و حرکت نہیں کر سکتے۔ خوف اور غیر یقینی برسوں سے پیچھا کرتی رہیں ہیں یا یوں کہيئے کہ جسطرح نازی دور میں یہودی قیدی کانسنٹریشن کمیپس یا نظربندی کمیپس میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے، ہزارہ قوم کی تمام آبادی بالکل اسی طرح نظر بندی کمیپس میں قید کی زندگی گزار رہی ہیں۔ ایسی قوم جس پر 1400 سے ذیادہ دہشتگردانہ حملے ہوئے جنمیں تین ہزار سے ذیادہ شہید اور 4800 سے ذیادہ زخمی ہو گئے ہیں۔ ریاست اس بیس سالہ نسل کشی کو روکنے میں مکمل ناکام رہی جسکا اثر یہ ہوا کہ لوگ مسلسل ذہنی دباؤ کی وجہ سے بیمار ہوتے گئے۔ انہیں ذہنی اور جسمانی بیماری نے پکڑ لیا۔ اس لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ علمدار روڑ اور ہزارہ ٹاون میں ذہنی مریضوں کی تعداد شہر کے دوسرے علاقوں میں رہنے والے باسیوں سے کئی سو گنا ذیادہ ہیں کیونکہ اس قوم کے تقریبا ہر گھر نے اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھائی ہیں۔ ان پہ در پہ رونماء ہونے والے دہشتگردانہ واقعات میں جہاں بہت سارے سوالات جواب طلب ہے وہاں ہر کسی کے زبان پر مندرجہ ذیل اہم سوالات بدستور موجود ہیں کہ آخر کیونکر انہیں دن دھاڑے ہدف بناکر قتل کیا گيا؟ کیونکر ریاستی ادارے بیس سالوں تک خاموش تماشائی بنے رہے۔ ان سب محرومیوں نے پوری آبادی کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔

ترقی یافتہ ملکوں میں ذہنی بیماری کو جسمانی بیماری کے برابر سنجیدہ اور حل طلب معاملہ سمجھ کر اس موضوع پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں اسطرح کا کوئی نظام موجود نہیں اور یہاں ہر تیسرا شخص ذہنی بیماری کا شکار ہے۔ ذہنی بیماری، جوکہ دیکھنے میں تو نظر نہیں آتا مگر جسمانی بیماری سے کئی گنا ذیادہ خطرناک اسوجہ سے ہے کیونکہ ذہنی مریض جب کوئی کام سرانجام دے رہا ہوتا ہے تو وہ اپنی ذہنی صلاحیتوں کا پورا استعمال نہیں کرپاتا۔ جسکا نتیجہ معاشرے کی مزید بگاڑ، سماجی بے ربطگی اور تشدد پسندانہ رجحانات کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ ذہنی مریض کو نیم پاگل بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ ان میں چڑچڑاپن، عدم برداشت، غصیلہ پن اور شدید ذہنی دباؤ وغیرہ عام پائے جاتے ہیں۔ ان حقائق کی روشنی یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ واقعہ کیونکر پیش آیا۔

واقعہ کے اصل موضوع پر نظر ڈالتے ہیں۔ کسی کی اجازت کے بغیر اسکی تصویر اتارنا، ویڈیو بنانا، ہلڑ بازی اور چھیڑخانی کرنا قابل سزا جرم ہے۔ ان غیر متعلقہ اشخاص نے رہائشی آبادی میں داخل ہوکر موبائل فون سے مستورات کی تصویریں اور ویڈیوز بنائی اور انہیں چھیڑنا شروع کر دیا جو کوئی بھی ذی شعور شخص برداشت نہیں کر سکتا وگرنہ علمدار روڑ اور ہزارہ ٹاون میں روزانہ سینکڑوں ایسے افراد داخل ہوتے ہیں جو سوکھی روٹی جمع کرتے ہیں، استعمال شدہ اشیاء علاقہ مکین سے خریدتے ہیں، کوڑا کرکٹ جمع کرتے ہیں، پھل سبزی کی ریڑی لگاتے ہیں۔ یہ سارے لوگ نسلی اعتبار سے پشتون ہوتے ہیں مگر آج تک نا ہی علاقہ مکینوں کو ان سے شکایت ہوئی اور نا ہی انکو علاقہ مکینوں نے علاقے میں داخل ہونے سے منع کیا۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ علمدار روڑ سے ملحقہ علاقے جنمیں کاسی قبرستان اور پیر محمد روڑ شامل ہیں، وہاں مخلتف قومیتیں کئی دہائیوں سے آباد ہیں جنمیں پشتون برادری کی بڑی تعداد قابل ذکر ہیں۔ اسکے علاوہ، ہزارہ محلوں میں سینکڑوں کی تعداد میں پشتون اور بلوچ خاندان عرصہ چالیس سال سے ذیادہ سے وہاں رہتے آ رہے ہیں، یہی پشتون لڑکیاں علاقے کے انگلش لینگوئج سینٹرز اور مقامی اسکولوں میں پڑھ رہی ہیں۔ یہی لڑکیاں ہزارہ لڑکیوں کی سکول کی سہلیاں ہیں اور گھروں میں بغیر کسی روک ٹوک کے ان کا آنا جانا رہتا ہے مگر آج تک نا ہی کسی نے انکی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا اور نا ہی انہیں کسی نے چھیڑنے کا سوچا۔ تمام اہل علاقہ بہن بھائیوں کی طرح گذشتہ کئی دہائیوں سے رہتے آ رہے ہیں۔ اگر ہزارہ قوم نے کسی کو اپنے علاقوں میں آنے سے روکنا ہوتا، تو علاقہ میں رہنے والی قومیتیں سب سے پہلے ہدف بن جاتی۔

اسی سال ماہ رمضان میں، ہزارہ آبادی کے بیچوں بیچ اور رہائشی علاقے میں پشتون برادری نے “بابا سپر مارکیٹ” کے نام سے ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور کھولا ہے جسکے ملازم بھی پشتون ہیں مگر نا ہی ہزارہ قوم نے انہیں روکا اور نا ہی انہیں تنگ کیا۔ اسکے علاوہ، جنرل موسی ڈگری کالج میں درجنوں ایسے طالب علم پڑھتے ہیں جو پشتون برادری سے تعلق رکھتے ہیں مگر چونکہ یہ سب علاقہ میں مستورات کو چھیڑنے کی غرض سے نہیں آتے اور انہیں اس چیز کا بخوبی احساس ہے کہ عورتوں اور لڑکیوں کا احترام ہر حال میں کرنا ہے، تصاویر اور ویڈیوز نہیں بنانی تو آج تک کسی اہل علاقہ نے انہیں تنگ نہیں کیا۔ کیا پشتون برادری اتنے فراغ دل واقع ہوئے ہیں کہ اگر کوئی ہزارہ کسی پشتون رہائشی آبادی میں کوئی ڈیپارٹمنٹل اسٹور کھولنا چاہے اور جسکے تمام ملازمین بھی ہزارہ ہو، تو وہ انہیں اجازت دے؟ کیا وہ اسطرح کے طرز زندگی کی حوصلہ ا‌فزائی کرینگے؟

ہزارہ ٹاون کے واقعہ کو لیکر جسطرح سے سوشل میڈیا پر دہشتگردانہ طرز فکر کی پرچار کی گئی، لوگوں کو اکسایا گیا اور تکفیر کرنے کے سینکڑوں توہین آمیز اور اخلاق باختہ پوسٹس کی گئيں، ان سے واضح ہوتا ہے کہ پشتون برادری پر حاکمانہ طرز فکر اب بھی نمایاں ہے جو انکی احساس کمتری کی علامت ہے۔انہیں اس طرح کی سوچ سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا جہاں وہ سجھتے ہیں “گردا ازما دی، ٹول ازما دی”۔ سینے کے زور سے بات کرنا، ڈرانا، دھمکانا، دھونس اور اس طرح کے بتیرے دوسرے حربے استعمال کرنے سے کسی اور کا نقصان ہو نا ہو، انکا اپنا نقصان ہونا لازمی امر ہے۔

سانحہ ہزارہ ٹاون سے بچنے کے لئے بردار اقوام کو چاہيئے کہ نئی نسل کو مل جل کر دوسری قومیتوں کے ساتھ رہنے کا گر سیکھائے۔ انکو بتانا ہوگا کہ دوسری کی عزت کو اپنی عزت سمجھو۔ اگر دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہتے ہو تو بلا مقصد کسی ایسے رہائشی علاقے میں جانے سے گریز کرو جہاں انہیں تمھارے جانے سے خطرہ محسوس ہو۔

اس واقعہ کے بعد، سوشل میڈیا پر اسطرح کا ماحول پیدا کیا گیا کہ جیسے اس اکلوتے واقعہ کے پیچھے پوری ہزارہ قوم کی منظم منصوبہ بندی تھی حالانکہ اسں واقعہ میں اہل علاقہ سے کچھ مشتعل جوان صرف اسوجہ سے اپنے ہوش و حواس کو قابو میں نہیں رکھ سکے جب انہوں نے ان اجنبی چہروں کو مستورات کو چھیڑتے ہوئے دیکھا۔ اسکے بعد، انہیں ہجام کی دکان میں لے جایا گیا جہاں موبائل فونز چیک کرنے پر لڑکیوں کی تصاویر اور ویڈیوز برآمد ہوئی۔ جسکا نتیجہ جانی نقصان کی شکل میں سامنے آیا۔

قارئین کی یاد آوری کے لئے بتانا ضروری ہے کہ ہزارہ قوم پر 1999 سے 2018 تک دہشتگردی کے جتنے بھی واقعات ہوئے ان میں سینکڑوں واقعات پشتون نشین علاقوں میں ہوئے تو کیا ہزارہ قوم نے کبھی پوری پشتون برادری کو کسی ایک واقعہ کا مورد الزام ٹھہرایا؟ کیا اس قوم نے کبھی ان دہشتگردانہ واقعات کو لسانی یا فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی؟ کیا کبھی ہزارہ قوم نے ان واقعات کے بعد متعلقہ تھانے کے انچارج کو محض اس وجہ سے معطل کرنے پر زور دیا کہ وہاں کا انچارج پشتون تھا اور یہ واقعہ اسی تھانے کی حدود میں ہوا ہے؟

کچھ سالوں پہلے سانحہ ہزارہ ٹاون سے ملتا جلتا ایک واقعہ لیاقت بازار میں ہوا تھا جہاں رضا ہزارستانی کو ہجوم نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا مگرحکومت نے نا ہی ہجوم کو ہاتھ لگایا اور نا ہی علاقہ تھانہ کا انچارج معطل ہوا۔ ستم بالائے ستم کہ رضا ہزارستانی کو جیل ہوئی اور اس نے سزا کاٹی۔ کیا ہزارہ قوم نے اس واقعہ میں پوری پشتون برادری کو مورد الزام ٹھہرایا یا لعن طعن کیا؟ کیا اس واقعہ کی وجہ سے اس قوم نے اشتعال یا فتنہ انگیزی کی؟

اگر ہم کبھی اس طرح کی لسانی اور فرقہ وارانہ حرکات کے مرتکب نہیں ہوئے تو پشتون کیونکر ایک واقعہ کی وجہ سے کوئٹہ شہر میں خانہ جنگی کروانے کی کوششیں کر رہی ہے؟ کیونکر لوگوں کو تشدد اور دہشتگردانہ اقدامات کے لئے اکسایا جا رہا ہے؟ کیونکر اس قوم کی تکفیر کی جارہی ہے؟ اگر اس طرح کے واقعات میں کچھ لوگ ملوث ہیں تو پشتون برادری کو سامنے آکر انکی مذمت کرنی چاہئيں اور انہیں اس طرح کی شر انگیزی سے روکنا چاہئيں تاکہ بھائی چارگی کو فروغ ملے۔

کوئٹہ سب کا مشترکہ گھر ہے۔ یہاں ہندو بھی رہتے ہیں، عیسائی بھی رہتے ہیں، پنجابی آبادکار بھی رہتے ہیں، ہزارہ، بلوچ اور پشتون بھی رہتے ہیں اور ہم سب اس شہر میں صدیوں سے رہ رہے ہیں مگر اس شہر میں بڑے کاروباری مراکز پشتون برادری کے پاس ہیں۔ زرا سوچے اگر چند شرپسندوں کی وجہ سے اس شہر کو آگ لگتی ہے تو سب متاثر ہونگے۔ سوچنا چاہئیے کہ اگر تشدد پسندانہ، دہشتگردانہ، اشتعال انگیز اور فتنہ انگیز رجحانات کی ترویج سے اگر شہر کے حالات خراب ہو جاتے ہیں تو جو طبقہ سب سے ذیادہ متاثر ہو گا وہ تجارتی طبقہ ہے اور تجارتی طبقہ میں پشتون برادری کے کاروباری مفادات سب سے ذیادہ ہیں۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ان دکانوں سے ستر فیصد سے ذیادہ کی خریداری ہزارہ قوم کے باسی ہی کرتے ہیں۔ اگر حالات خراب ہو جاتے ہیں تو ہزارہ ٹاون اور علمدار روڑ پر کاروبار کرنے والے چھوٹے تاجر جو تمام پشتون برادری سے تعلق رکھتے ہیں جنمیں پھل، سبزی فروش، سوکھی روٹی اور استعمال شدہ چیزیں خریدنے والے تاجر سب ان دہشتگردانہ جذبات سے براہ راست متاثر ہونگے تو کیا سینکڑوں پشتون گھروں کے ذرا‏ئع روزگار کو مکمل بند کروانے کے بعد، کیا یہی سوشل میڈیا صارفین ان متاثرہ خاندانوں کی مالی معاونت کرینگے؟

کل ہی سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ خبریں گردش کرتی رہی کہ ھنہ اوڑک اور زیارت میں ہزارہ قوم کے گھومنے پھرنے پر پشتون برادری نے پابندی لگائی ہے۔ اسطرح کے اقدامات سے ہزارہ قوم کا کوئی نقصان نہیں ہوگا مگر ان سیاحتی علاقوں میں کاروبار کرنے والے شدید متاثر ہونگے کیونکہ دنیا کا کوئی بھی سیاحتی خطہ سیاح کے آمدو رفت سے کاروبار کرتے ہیں، اسی سے انکے گھر کا چولھا جلتا ہے۔ اگر کسی شرپسند نے اس طرح کی بے پرکی اڈائی ہے تو پشتون مشران اور سیاسی اکابرین کو سامنے آکر ہزارہ قوم کے شکوک و شبہات کو دور کرنا چاہيئے اور شرپسندوں کے عزا‏ئم ناکام بنائے۔

جب ہزارہ قوم کے باسی خریداری کے لئے بازار جاتے ہیں تو آج تک کسی تاجر نے انہیں کافر کہہ کر انہیں سودا سلف بیچنے سے انکار نہیں کیا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی کافر ہو، قابل قبول نا ہو مگر اسکا پیسہ مسلمان اور قابل قبول ہو؟ جب تمام مسلمانوں کا خدا ایک، کعبہ ایک، رسول ایک، قرآن ایک اور کلمہ ایک ہے تو بھلا کوئی یہ دعوی کیسے کر سکتا ہے کہ صرف وہی مسلمان ہے، باقی سب کافر ہے؟

جن کو پاکستان کی تاریخ کا معلوم نہیں تو انہیں یہ بتانا فرض سمجھتا ہوں کہ جس گھر میں وہ رات کو آرام سے سوتے ہیں، جس دکان میں تسلی سے کاروبار کرتے ہیں اور جس سرکاری دفتر میں کرسی پر بیٹھکر کام کرتے ہیں، انہیں یہ آگاہ ہونا چاہيئے کہ یہ سب آرام و آسائش جنرل موسی خان ہزارہ کی بدولت انہیں ملی ہیں کیونکہ وہی 1965 کی پاک بھارت جنگ میں آرمی چیف تھے۔ انہیں کی دلیر اور مدبرانہ قیادت کی بدولت انڈیا پاکستان پر قبضہ نہیں کر سکا وگرنہ بعد کے سالوں میں ہونے والی جنگ میں پاکستان نے اپنا آدھا حصہ کھو دیا۔ اگر جنرل موسی خان ہزارہ 1965 کی جنگ میں آرمی چیف نا ہوتے تو موجودہ دور میں پاکستانیوں کی حالت ویسی ہی ہوتی جو کشمیر میں ہے جہاں ایک سال سے ذیادہ عرصے سے تمام شہری آذادیاں مکمل طور پر بند اور لوگ اپنے گھروں میں مقید ہیں۔

اگر پاکستان کی جانچ فرقہ وارانہ بنیاد پر کر کے کی جائے تو اسکو بنانے والا قائداعظم بھی شیعہ تھا اور اسکو بچانے والا جنرل موسی خان بھی شیعہ تھا۔ اسی ملک کی کرنسی جس پر شیعہ کی تصویر بنی ہوئی ہے، اسی پیسے سے کھانا تناویل کرتے ہو، مسجدیں بناتے ہو، عمرہ حج پر جاتے وہ سب حلال ہیں مگر ملک کو بنانے والے شیعہ کافر۔
جنرل موسی خان کی دلیرانہ قیادت نے انڈیا کے تمام عزائم ناکام بنا ديئے اور رہتی دنیا تک پاکستان کو محفوظ کیا۔ جسکی قربانیوں کی وجہ سے تمھارا جان، مال، بیوی، بچے، بہنیں، بیٹیاں محفوظ ہیں مگر اسکی قوم کافر۔
اگر کوئی تعصب پسند شخص ہماری دلیل کو کمزور کرنے کے لئے یہ کہتا ہے کہ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں جنرل موسی خان ہزارہ نے اکیلے جنگ نہیں جیتا یا قائداعظم نے اکیلے پاکستان نہیں بنایا تو انہیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ جو کوئی بھی لیڈر ہوتا ہے، اسمیں قائدانہ صلاحیتیں ہوتی ہے، وہی اہم فیصلہ کے وقت آخری “ہاں” یا “ناں” کہنے کا اختیار رکھتا ہیں اور دوسروں نے انہی کے “ہاں” اور “ناں” کو من و عن تسلیم کرکے عمل کرنا ہوتا ہے۔ ویسے بھی فوج میں آرمی چیف ہی سب چیزوں کا اختیار رکھتا ہے۔ چونکہ دہشتگردانہ رجحان، اسکا پرچار، ترغیب اور فروغ ایک معمول بن رہا ہے تو وفاقی حکومت کو چاہيئے کہ ہنگامی اور ٹھوس بنیادوں پر ایف آئی اے کی سائبر کرائم ونگ کو فعال کرے اور ملک میں ایسے قوانین کا اطلاق یقینی بنائے جہاں سوشل میڈیا پر تکفیر کرنے والوں کو سخت ترین سزائیں دی جائیں۔ سائبر کرائم ونگ پر شکایت ہوتے ہی فوری اور غیر جانبدارنہ تحقیقات شروع ہو اور چوبیس گھنٹے کے اندر تکفیری کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے۔ اسکے علاوہ یہی ونگ سوشل میڈیا پر اشتعال و فتنہ انگیزی کرنے، دہشتگردانہ جذبات کو ابھارنے، فروغ دینے یا پرچار کرنے یا تشدد پر اکسانے والوں کے خلاف بھی بروقت کاروائی کرکے چوبیس گھنٹے کے اندر ملزم کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرے۔ علاوہ ازیں، ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سوشل میڈیا پر صفحہ بنانے والے کے لئے ایسے قوانین بنائے کہ متعلقہ شخص یا اشخاص کے لئے یہ قانونی تقاضے رکھے کہ فیس بک پر صفحہ یا گروپ بنانے والا، یوٹیوب پر چینل بنانے والا یا کسی اور سوشل میڈیا کو پلیٹ فارم پر کوئی بھی پیج چلانے والوں کے لئے اپنے تمام دستاویزات ایف آئی اے کے پاس جمع کروانے لازمی ہو اور قانون پیج کے ایڈمن کو پابند کرے کہ صفحہ پرکامنٹ کرنے والے صارفین کے کامنٹس، تبصروں اور پوسٹس کو مسلسل مانیٹر کرے اور اگر کوئی صارف اخلاق باختہ، اشتعال یا فتنہ انگیز اور دہشتگردانہ کامنٹ کرتا ہوا پایا جائے، تو اسے بغیر کسی تنبیہ کے بلاک کر دیا جائے اور اگر پیج ایڈمن اپنی قانونی ذمہ داری میں کوتاہی کرتا ہوا پایا جائے تو اسکے خلاف مقدمہ درج کرکے سزا دے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں