مثبت اور منفی سوچ…! (سید ابرار ہمدانی)

مثبت سوچ پتہ ہے کس کو کہتے اس چیز کے بارے میں سوچنا جو انسان کے پاس بچ گئی ہو۔ اور منفی سوچ اس چیز کے بارے میں سوچنا جو کھو کئی ہو۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس چیز کے بارے سوچنے کے عادی ہیں۔ جو ہم کھو چکے ہوتے ہیں۔ اور اس سب کے دوران ہم اس چیز کو بھی بھول جاتے ہیں جو ہمارے پاس ہوتی ہے۔ جو ہماری دسترس میں ہوتی ہے۔ کیا آپ کو پتہ ہے برے حالات میں بھی مثبت سوچ بنائے رکھنے سے کیا ہوتا ہے۔ انسان کو برے حالات میں سرویو کرنے کی طاقت ملتی ہے۔ اور وہ طاقت انسان کو زندگی میں لڑنا سکھاتی ہے، آگے بڑھنا سکھاتی ہے۔ مگر ہم اپنی منفی سوچ کی وجہ سے ہر وقت ماضی میں کی گئی غلطیوں اور گناہوں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ ان کا گلٹ لے کے بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم گناہ کرنے کے بعد عذاب اور سزا پر بس فوکس کرتے ہیں مگر اس بات پر فوکس نہیں کرتے کے قرآن میں جہاں پر اللہ نے گناہ کی سزا کا ذکر کیا ہے۔ اس سے پہلے کی یا بعد کی آیات میں اپنے غفور ورحیم ہونے کا ذکر بھی کیا ہے۔ اگر کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو اس کے گلٹ میں ساری زندگی گزارنے اور منفی رویہ اختیار کرنے کی بجائے اللہ سے معافی مانگے اور خود بھی خود کو معاف کرنا سیکھیں۔ پتہ نہیں کیوں ہم لوگ اتنی منفی سوچ کیوں رکھتے ہیں ہر وقت منفی سوچتے رہتے ہیں۔ جو چیز ہوئی ہی نہیں ہوتی اس کے بارے میں سوچ کے پریشان ہوتے رہتے ہیں۔ ہر وقت یہ سوچتے رہتے ہیں کہ بری چیز ہمارے ساتھ کتنا برا کر سکتی ہے۔ مگر مجھے یہ سمجھ ہی نہیں آتا ہم اس کے بارے میں کیوں ہر وقت سوچتے رہتے ہیں۔ جو ہم کھو چکے ہوتے ہیں۔

“ یہ دنیا بہادر اور ڈرائنگ لوگوں کی ہے۔ جو آگے بڑھیں اور اس کو اپنی مثبت سوچ سے فتح کریں”
دنیا میں ایک واحد مثبت سوچ ہی ہے جو انسان کو آگے بڑھانے، کچھ کرنے کے لیے اکساتی ہے۔ انسان صرف مثبت سوچ سے ہی اس دنیا میں اپنی جگہ بنا سکتا ہے۔ مثبت سوچ سے انسان کے اندر مثبت شعائیں پیدا ہوتی ہیں۔ اور مثبت شعائیں پتہ ہے کیا ہوتی ہے۔ جب انسان اچھے کام کرے، لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرے تو وہ ان سے بدل کا لالچ رکھنا چھوڑ دے۔ ایک مثبت سوچ رکھنے والا انسان کبھی حالات سے ہارتا نہیں ہے۔ وہ وقتی مشکلات اور حالات کے بارے میں سوچنے کی بجائے انعام ( پھل ) پر نظر رکھتا ہے۔ وہ جو صبر کا پھل ہوتا ہے اس پہ۔ ایک مثبت سوچ رکھنے والے انسان کے لیے کوئی بھی تجربہ برا تجربہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ زندگی میں پیش آنے والے تمام حالات واقعات اس کو کچھ سکھانے کے لئے ہیں۔ ان میں اس کے لیے مگر ایک منفی سوچ رکھنے والا انسان ہر وقت یہ سوچتا ہے کہ برے، حالات واقعات اس کے ساتھ کتنا برا کر سکتے ہیں۔ ہم اکثر ان چیزوں کے بارے میں سوچ کر پریشان ہوتے رہتے جو کھبی ہوئی ہی نہیں ہوتی۔ منفی سوچ انسان کو مفلوج کر دیتی ہے ۔انسان کی گروٹھ کو روک دیتی ہے۔ اور انسان ناکامیوں کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔

مثبت سوچ انسان کو مضبوط کرتی ہے۔اور منفی سوچ انسان کو کمزور اور ڈرپھوک بنا دیتی ہے۔ انسان کے اندر کی ساری توانائیوں کو دمگ کی طرح کھا جاتی ہے۔ مگر مثبت سوچ انسان کو آگے بڑھانے اور کچھ کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ انسان کو حالات کے آگے ہتھیار ڈالنے نہیں دیتی۔ مثبت سوچ رکھنے والے5 لوگ کچھ نہ ہونے کے باوجود بھی پر امید ہوتے ہیں۔ ان کے اندر شکر گزاری کی عادت ہوتی ہے۔ مگر منفی سوچ کا ملک انسان ہر وقت مایوسیوں میں گھرا رہتا ہے اور ہر وقت گلے شکوے کرتا دکھائی دیتا ہے۔

انسان بہت عظیم مخلوق ہے اس میں بہت طاقت ہے اسے دنیا کو سنبھالنا ہے اور وہ اپنے آپ کو ہی نہ سنبھال پائے کتنے دکھ کی بات ہے۔ ہمیں اگر زندگی میں خوشی اور کامیابی حاصل کرنی ہے تو ہمیں مثبت رویہ اپنانا ہوگا۔ اگر ہم مثبت رویہ اپنا چاہتے ہیں تو پہلے قدم کے طور ہمیں اپنے موڈ کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لینا ہوگا۔ لوگوں کی بجا تنقید سے پریشان ہو کے منفی سوچنے کی بجائے ان کی بجا تنقید کو وقار کے ساتھ اگنور کرنا سیکھنا ہوگا۔ یہ سوچ کے پریشان ہونا چھوڑنا ہو گا کہ بری چیز ہمارے ساتھ کتنا برا کر سکتی ہے۔ بلکہ اس چیز پہ فوکس کرنا ہوگا کہ ہم دنیا میں کتنی اچھی پھیلا سکتے ہیں۔ اللہ سب کو آسانیاں عطا فرمائے اور ان کو تقسیم کرنے کا شرف بھی عطا فرمائے اور اللہ ہم سب مثبت رویہ اختیار کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے آمینانسان کی سوچ اس کی زندگی پر حکمرانی کرتی ہے۔ اس ایک خیال پر مائنڈ پاور کی ساری سائنس کی بنیاد ہے۔ مائنڈ پاور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی ذہن جو کچھ سوچتا ہے یا پھر جو مسلسل سوچ اس کے ذہن میں پیدا ہوتی ہے وہی تصویر اس کی زندگی میں بنتی چلی جاتی ہے۔ اہے۔ ظاہر ہے زندگی میں ہمیشہ مشکلات اور چیلنجز انسان کو درپیش رہتے ہیں کون ہو گا جس کی زندگی کا سفر ایک سیدھی ہموار سڑک پر گزر رہا ہو۔ لیکن جب ہمارا ذہن صرف انہی مسائل بارے سوچتا رہتا ہے تو کڑھتے رہنے سے مشکلات کا احساس اور بڑھ جاتا ہے۔ اس سے مسائل کم ہونے کے بجائے دوگنا زیادہ محسوس ہونے لگتے ہیں۔ سچے علم کے شناور حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ ’’پریشانی میں پریشان ہونا سب سے بڑی پریشانی ہے‘‘ اس پر غور کریں تو بات سمجھ میں آنے لگتی ہے کہ پریشان ہونا ایک ذہنی کیفیت کا ہی تو نام ہے۔ جب مسلسل یہی منفی ذہنی کیفیت انسان کی رہے گی تو ظاہر ہے اس کے سوچنے سمجھنے اور کام کرنے کی صلاحیت کو گھن لگ جائے۔ حکمت کی بات یہی ہے کہ انسان آزمائش میں بھی گھرا ہو تو مثبت سوچ کی کھڑکیوں کو کھلا رکھے۔ مثبت سوچ تازہ ہوا کی طرح گھٹن اور حبس کو کم کر کے شہر احساس کے ماحول کو خوشگوار بناتی ہے۔مثبت سوچ کا ماخذ وہ یقین اور توکل ہے جو ہمیں اپنے رب کی ذات پر ہے۔ میرے نزدیک توکل پورے جذبے کے ساتھ کوشش کرتے رہنے کا نام ہے: تو دیوا بال کے تے رکھ خدا جانے ہوا جانے شاکر شجاع آبادی کا حکمت سے لبریز خیال اور اسی خیال کو میاں محمد بخش نے کیسے بیان کیا: مالی دا کم پانی لانا تے بھر بھر مشکاں پاوے مالک دا کم پھل پول لاوے یا نہ لاوے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں