پاکستان میں پنپتی سازشی تھیوریاں (ساجد خان)

ہمارے معاشرے میں ایک بنیادی خامی ہے کہ اگر آپ سچی اور فائدہ مند بات کریں تو ایک بڑی اکثریت آپ سے دلیل اور ثبوت کا مطالبہ کرے گی لیکن وہیں آپ اگر سازشی تھیوری بیان کریں تو ناقابل یقین ہونے کے باوجود آپ سے ثبوت کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ وہی اکثریت اس سازشی تھیوری پر ایمان کی حد تک یقین کرتی نظر آئے گی۔ اس کی تازہ مثال کرونا وائرس ہے،جس کے بارے میں ایک تھیوری یہ ہے کہ اس قسم کی کوئی بیماری سرے سے وجود ہی نہیں رکھتی بلکہ یہود و نصاریٰ کی مسلم امہ کے خلاف سازش ہے لیکن اگر دنیا پر نظر دوڑائی جائے تو اس وباء سے سب سے زیادہ متاثر ہی مغربی ممالک ہوئے ہیں،جنہوں نے ہماری سازشی تھیوری کے مطابق ہمارے خلاف منصوبہ تیار کیا ہے۔

دوسری سازشی تھیوری پہلی سے بھی زیادہ ناقابل یقین مگر خطرناک ہے کہ دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس نے ایک خفیہ میٹنگ کی ہے، جس میں اس نے شرکاء کو اپنے منصوبے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کے ذہنوں سے اللہ تعالیٰ کی محبت ختم کی جا سکے، جس کے لئے اس نے ایسی چپ تیار کی ہے جسے ویکسین کے ذریعے مسلمانوں کے جسم میں داخل کی جائے گی اور وہ چپ مسلمانوں کے ذہن سے اللہ تعالیٰ کی محبت کا حصہ ختم کر دے گی حالانکہ اگر یہود و نصاریٰ ایسا کچھ کرنا چاہتے تو انہیں اس عالمی وباء کا ڈرامہ رچانے کی ہرگز ضرورت نہیں تھی بلکہ جو چپ ویکسین کے ذریعے ڈالنی ہے، وہی چپ پیناڈول یا دوسری ادویات میں ڈال دیتے تو اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بجائے مسلمانوں ہی کی خریدی دوا سے منصوبے کو با آسانی مکمل کیا جا سکتا تھا۔

اب اہم سوال یہ ہے کہ یہ انتہائی خفیہ میٹنگ کب اور کہاں کی گئی، اس میٹنگ میں کون کون شریک ہوا اور مسلمانوں کے دماغ سے اللہ تعالیٰ کی محبت ختم کر کے کیا فائدہ حاصل کیا جائے گا، اس کے بارے میں کچھ بھی تفصیل منظر عام پر نہیں آسکی مگر یہ میٹنگ اتنے غیر محفوظ ماحول میں ہوئی کہ اس کا ایک ایک لفظ براہ راست پاکستان کے بچہ بچہ تک پہنچ چکا ہے جبکہ پاکستان میں ماہر سازشی تھیوری زید حامد نے اس میٹنگ کا انکشاف ایک نیوز چینل کے پروگرام میں بھی کیا ہے۔

اس سازشی تھیوری پر بظاہر ہنسا ہی جا سکتا ہے جبکہ ان کو حقیقت سمجھنے والوں کی ذہنی حالت کے لئے دعا کی جا سکتی ہے مگر آپ نے کبھی سوچا کہ جن سازشی تھیوریوں کو ہم ہنس کر ٹال دیتے ہیں، وہ بعض اوقات کتنی خطرناک ثابت ہوتی ہیں؟ کرونا تھیوری سے پہلے ہمارے معاشرے میں پولیو تھیوری چل رہی تھی۔
جس کے بارے میں کہا گیا کہ اس ویکسین کے پیچھے یہود و نصاریٰ نے سازش کے ذریعے ایسی دوا ڈال دی ہے، جس سے مردانہ کمزوری ہوتی ہے۔

اس سازشی تھیوری پر وہ والدین بھی یقین رکھتے ہیں جنہوں نے خود بھی ویکسین پی رکھی تھی مگر اب وہ اپنے آدھ درجن بچوں کو پلانے کے خلاف نظر آتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مردانہ کمزوری کے باوجود ہماری آبادی میں نہایت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

1971 میں پاکستان کی آبادی تقریباً چھ کروڑ تھی جبکہ بنگلہ دیش کی آبادی ساڑھے چھ کروڑ تھی۔ 2020 میں ہماری آبادی بائیس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ بنگلہ دیش کی آبادی انیس کروڑ سے بھی کم ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ کافروں نے پولیو ویکسین سے ہمیں نامرد کر دیا ورنہ آج ہمارے ملک میں چالیس کروڑ بھوکے ننگے گھوم رہے ہوتے، جن کے پاس وسائل کی بے انتہا کمی ہے۔

اس سازشی تھیوری پر سخت ردعمل سامنے آیا اور اس تھیوری کو سچا ظاہر کرنے کے لئے متعدد بار پروپیگنڈہ کیا گیا، جس کا ایک مظاہرہ آپ گزشتہ سال پشاور کے ایک سکول کی طرف سے بھی دیکھ چکے ہیں، جس میں افواہ پھیلائی گئی کہ پولیو ویکسین پینے سے سینکڑوں بچوں کی حالت غیر ہو گئی اور کئی بچے ہلاک ہو گئے۔ اس جھوٹ کا پول تب کھلا جب ایک ویڈیو میں ایک شخص واقعہ کی تفصیلات بتا رہا تھا اور ساتھ ہی کھڑے بچوں کو پشتو میں بے ہوش ہونے کی اداکاری کرنے کا کہتا ہے، جس کے بعد سب بچے اچانک دھڑام سے گر پڑتے ہیں۔ یہ پروپیگنڈہ صرف زبانی نہیں رہا بلکہ 2012 سے لے کر اب تک تقریباً ایک سو پولیو ورکرز قتل ہو چکے ہیں جبکہ ان کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی فورسز کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

اب آپ تصور کریں کہ پولیو مہم پر صرف مردانہ کمزوری کا الزام لگایا گیا تو سینکڑوں افراد کو صرف اس لئے قتل کر دیا گیا کہ وہ بچوں کو بیماری سے بچانے کے لئے سرکاری مہم کا حصہ تھے تو جب کرونا ویکسین تیار ہو کر پاکستان میں آئے گی تو اس پر کتنا سخت ردعمل ہو گا کہ جس تھیوری میں اللہ تعالیٰ کی محبت ختم کرنے کا الزام ہو گا۔

بدقسمتی سے پاکستان میں پھیلائی جانے والی سازشی تھیوری کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی بلکہ مجرمانہ خاموشی اختیار رکھی جاتی ہے حالانکہ جانتے ہیں کہ یہی تھیوری بعد میں سینکڑوں انسانوں کی جان لینے کا سبب بنتی ہے۔ زیادہ نہیں مگر کم از کم میڈیا کو ایسی سازشی تھیوری پھیلانے سے روکا جا سکتا ہے، جس کے لئے پیمرا جیسا ادارہ موجود ہے لیکن وہ ادارہ بھی حکومت اور ایک مخصوص ادارے کے عیب چھپانے کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے۔

ریاست کو اس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہئے، اس سے قبل کہ کرونا سازشی تھیوری بھی ہمارے معاشرے میں بند دماغ طبقے کے مفادات اور کمائی کا ذریعہ بن جائے اور پھر اس معاملے میں بھی خون کی ندیاں بہنے لگیں، ریاست کو اس معاملے پر عملی قدم اٹھانے چاہئیں۔
ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ انہی سازشی تھیوریوں کی وجہ سے پولیو جیسی بیماری ہمارے ملک سے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی حالانکہ وہ کم خطرناک ہے کہ نا ہی اچھوت ہے اور نا ہی زیادہ عمر کے افراد پر اثر ہوتا ہے، اس لئے اس بیماری کا شکار وہی خاندان ہوتے ہیں جو پولیو ویکسین کے خلاف ہوتے ہیں جبکہ کرونا وائرس اچھوت بھی ہے اور ہر عمر کے انسان کے لئے خطرناک ہے تو ہم اس وباء کے ساتھ کیسے زندگی گزار سکیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں