سانحہ ہزارہ ٹاؤن، سیکورٹی اداروں کی مجرمانہ غفلت (لیاقت علی ہزارہ)

پچھلے ہفتے رونماء ہونے والے دلخراش سانحہ ہزارہ ٹاون کے محرکات اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات کی غیرجانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کے بغیر اسطرح کے واقعات کی روک تھام شاید ہی ممکن ہو سکے کیونکہ اسمیں ایسے مشکوک کردار بھی سامنے آئے ہیں جنہوں نے عوام میں افراتفری اور اضطرابی کیفیت پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا۔

ہزارہ ٹاؤن کے واقعہ کے فورا بعد، سوشل میڈیا کے توسط سے ایسی دہشتگردانہ فضاء بنائی گئی جسمیں شرپسندوں نے جلتی پر تیل ڈالنے کا فریضہ بخوبی نبھایا۔ ان میں سوشل میڈیا پر پیجز چلانے والے نام نہاد اور نااہل صحافیوں نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا جنہوں نے اس واقعہ کو بلا کسی تحقیق کے یکطرفہ رخ دیا تاکہ لوگوں کو اشتعال دلایا جا سکے۔ بعد میں اس کہانی میں اپنا تڑکا لگانے کے لئے من گھڑت باتیں بھی شامل کیں تاکہ عوام دہشتگردی میں کھود پڑے اور ملک کے حالات قابو سے باہر ہو جائے۔ ایسی گھڑی ہوئی باتیں اسوجہ سے شامل کی گئی تاکہ اصل معاملہ کی روح مسخ ہو سکے۔ مثلا یہ کہا گیا کہ وہ لڑکے وہاں لین دین کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے اور انہوں نے حجام سے ایک گاڑی کا سودا کیا ہوا تھا جو سراسر جھوٹ ہے۔ واقعہ کے ایک دن بعد حجام نے اپنی تصویر کے ساتھ ایک تحریری بیان جاری کرتے ہوئے اس بات سے انکار کیا کہ اسکا کوئی لین دین کا معاملہ پشتون لڑکوں کے ساتھ ہوا تھا یا طے ہونا تھا۔ حجام نے ان سے گاڑی خریدنے سے بھی انکار کیا۔

سانحہ ہزارہ ٹاؤن کے بعد، سوشل میڈیا جائزوں کا مشاہدہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہزارہ قوم کے خلاف اشتعال، فتنہ و نفرت انگیزی، توہین اور دھمکی آمیز اور دہشتگردانہ ترغیبات کی شرح تشویشناک حد تک 700 فیصد سے اوپر چلی گئی تھی۔ عوام نے پاکستان کے سائبر کرائم اور دہشتگردی کے قوانین کا بھرپور مذاق اڑایا. انہوں چھوٹے اور بڑے خودکار ہتھیاروں کے ساتھ دھمکی اور توہین آمیز ویڈیوز اور تصاویر شائع کئيں اور ھزارہ قوم کو قتل کرنے کی کھلم کھلا دھمکیاں دیتے دکھائی دیئے مگر نا ہی ایف آئی اے سائبر کرائم نے اس بابت کوئی کاروائی کی اور نا ہی سیکورٹی سے منسلک اداروں ںے کسی کو گرفتار کیا۔

ایف آئی اے اور سیکورٹی اداروں کو چاہيئے کہ سب سے پہلے ان تمام سوشل میڈیا پیج ایڈمنز کے خلاف دہشتگردی کے مقدمات درج کرکے انکو سزائيں دلوائیں جنہوں نے دیدہ دلیری سے لوگوں کے جذبات کو دہشت گردی کی غرض سے ابھارا۔ انہیں اشتعال و فتنہ انگیزی کی طرف مائل کیا اور دہشتگردانہ طرز عمل کی کھل کر پرچار کیں۔ اسکے ساتھ ساتھ ان تمام سوشل میڈیا صارفین کے خلاف دہشتگردی کے مقدمات درج ہونے چاہئیں جنہوں نے ہتھیاروں سمیت دھمکی آمیز ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کئیں تاکہ حالات مزید خراب ہو۔

اگر سیکورٹی ادارے یا ایف آئی اے اس اہم معاملے میں نااہلی برتتے ہوئے یہ عذر پیش کرتی ہیں کہ دہشتگردانہ جذبات کو ابھارنے والے ہمسایہ ممالک سے تعلق رکھتے ہیں تو یہ پہلی دفعہ نہیں جب ہمارے ادارے اپنی آئينی اور قانونی ذمہ داریوں کی عدم ادائيگی کے لئے بہانے تلاش کر رہے ہو کیونکہ جنہوں نے سوشل میڈیا پر دہشتگردانہ حملات کی پرچار کیں ان میں سے درجنوں صارفین نے اپنی وہ تصاویر بھی سوشل میڈیا پر اپلوڈ کیں جو انہوں نے کوئٹہ کے گرد و نواح میں گھومتے ہوئے اور ہتھیار لہراتے ہوئے بنائی اور دعوی کیا کہ وہ ھزارہ کو قتل کرنے نکلے ہیں۔

سانحہ ہزارہ ٹاؤن کے بعد صوبائی انتظامیہ اور سیکورٹی اداروں کی نا اہلی کی قلعی اس وقت کھل گئی جب انہوں نے واقعہ میں ملوث افراد کی فہرست میں ایسے پاکستانی کا نام بھی شامل کر لیا جو گذشتہ ایک سال سے سعودی عرب میں کام کر رہے ہیں اور وہ اس عرصے کبھی پاکستان نہیں آئے تو جو افراد گرفتار کئے گئے ہیں، کیا واقعی یہ سب وہی کردار ہیں جن پر شک کیا جا رہا تھا یا گرفتار شدگان میں معصوم اور بے گناہ افراد بھی شامل ہیں؟

سانحہ ہزارہ ٹاؤن کے بعد کوئٹہ سول ہسپتال میں سرکاری فرائض سرانجام دیتے وقت ہادی ہزارہ پر درجنوں افراد نے تشدد کیا جس سے ہادی کے سر اور ہاتھ پر شدید چوٹیں آئیں اور اسے ہسپتال منقتل کروانا پڑا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اعلی پولیس افسران اس معاملے میں کوتاہی کے مرتکب نہیں ہوئے جب انہوں نے ہادی کو ایک ایسے نازک وقت میں سول ہسپتال میں فرائض کی انجام دہی سے نہیں روکا جب ہزارہ قوم کے خلاف نفرت، اشتعال اور فتنہ انگیزی اور دہشتگردانہ حملات کی ترویج 700 گنا سے اوپر جا چکی تھی؟ اعلی پولیس افسران کو چاہيئے تھا کہ ہادی کا تبادلہ کسی محفوظ جگہ پر کرتے تاکہ اس ناخوشگورا واقعہ سے بچا جا سکے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس دہشتگردانہ واقعہ میں ملوث کوئی بھی شخص تا دم تحریر گرفتار نہیں ہوسکا حالانکہ حملہ آوروں کے چہرے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے شناخت کئے جا سکتے ہیں۔

اگر سانحہ ہزارہ ٹاؤن سے جڑے کردار گھنٹوں میں گرفتار ہو سکتے ہیں تو اول ہسپتال میں ہادی پر حملہ کرنے والوں کئی دن گزرنے کے باوجود کیوں گرفتار نہیں ہو سکے؟ کیا انتظامیہ اور سیکورٹی ادارے کسی ایک فریق کو خوش کرنے کے لیے پسند و نا پسند کی بنیاد پر کاروائی کر رہے ہیں؟
ہادی پر حملہ کے بعد، کاسی قبرستان کے عقب میں واقع پہاڑ پر دہشتگردوں نے اسما‏عیل نامی 16 سالہ نوجوان کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا گيا اور حسب معمول موقع واردات سی بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔

واقعہ کے بعد ڈی سی کوئٹہ نے گورنر ہاوس کے سامنے ديئے گئے دھرنے میں مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے چار وعدے کئے اور انکی فوری عملدرآمدی کا یقین دلایا۔ انہوں نے مظاہرین کی تمام شرطیں قبول کرتے ہوئے کہا کہ اسماعیل کے قتل میں ملوث ملزمان کو جلد ہی گرفتار کیا جائے گا، کاسی قبرستان سے متصل پہاڑ پر ایف سی اور پولیس کی کل وقتی چیک پوسٹیں قائم کی جائے گی، اس سلسلے میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی جائے گی اور سوشل میڈیا پر اشتعال، فتنہ اور نفرت انگيزی، دھمکی اور توہین آمیز اور دہشتگردانہ حملات کی ترغیب دینے والوں کے خلاف بھرپور کاروائی کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا مگر اس واقعہ کے دو روز گزرنے کے باوجود ان شرائط میں سے کوئی بھی پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔

اوپر ذکر کئے گئے معاملات میں انتظامیہ اور سیکورٹی اداروں کی نااہلی کے علاوہ، بدھ کو ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا جب بی این پی مینگل نے مرکزی قائدین عبدالولی کاکڑ اور لشکری رئیسانی کی سربراہی میں پریس کانفرنس کی جسمیں عبدالولی کاکڑ نے متکبرانہ اور حاکمانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے ہزارہ قوم کو کہا کہ انہیں سانحہ ھزارہ ٹاون میں ملوث افراد کو اپنے علاقوں سے نکال باہر کر دینا چاہیے. ساتھ ہی انہوں معطل ایس ایچ او بروری کے خلاف بھی بھرپور قانونی کاروائی کا مطالبہ کیا کیونکہ، بقول انکے، وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں۔

عبدالولی کاکڑ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ سانحہ ہزارہ ٹاؤن میں نامزد تمام ملزمان پہلے ہی گرفتار کئے جا چکے ہیں اور اس وقت پولیس کی حراست میں ہیں مگر چونکہ موصوف نے اپنا بغض، نفرت اور تعصب مصنوعی مسکراہٹ کے پیچھے شاطرانہ انداز میں چھپایا ہوا تھا جسکا ظاہر ہونا اس بات کا ادراک کرتا ہے کہ یہی اس معاشرے کے اصل ناسور ہیں جو دوسروں سے کمال درجے کا تعصب، بغض اور نفرت رکھتے ہیں مگر چونکہ انہون نے لوگون سے ووٹ لینا ہوتا ہے تو مصلحتاً ان تمام اوصاف کو مہارت سے چھپا لیتے ہیں. بہرحال، سوال یہ اٹھتا ہے کہ گذشتہ بیس سالوں میں ہزارہ دن دھاڑے ہر گلی اور کوچے میں مارے گئے اور جہاں بھی مارے گئے وہاں یا تو بلوچ آبادی ہوتی ہے یا پشتون مگر آج تک اس نہتی قوم نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ بلوچ اور پشتون اپنے علاقوں میں دہشتگردوں کو چھپانے کی بجائے انہیں علاقہ بدر کر دے اور نا ہی لسانی بنیاد پر کسی پولیس اہلکار کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا۔

عبد الولی کاکڑ کے اس متعصبانہ رویہ کے خلاف ہزارہ قوم میں کافی اشتعال پایا جاتا ہے۔ اخلاقا‍ً، اس نفرت انگیز رويے کے بعد عبد الولی کاکڑ کو پارٹی عہدہ رکھنے کا کوئی حق نہیں اور انہیں چاہئیے کہ پارٹی عہدہ اور بنیادی رکنیت سے فوراً استعفی دے دے کیونکہ بی این پی مینگل تمام قومیتوں کے مساویانہ حقوق کا علمبردار رہی ہے اور اس پارٹی میں ھزارہ قوم سے تعلق رکھنے والوں کی اچھی تعداد شامل ہیں جو مرکزی عہدوں پر بھی فائض ہیں۔

سردار اختر مینگل بار بار اپنی تقریروں میں اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ بی این پی مینگل تمام قومیتوں کی پارٹی ہیں اور بلوچستان کے سائل و وسائل پر ھزارہ کا اتنا ہی حق ہے جتنا بلوچ کا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سردار اختر مینگل عبدالولی کاکڑ جیسے متعصب اور ھزارہ ستیز رکن کے خلاف کوئی بامعنی کروائی کرتے بھی ہیں یا وہ بھی، اپنے اصولوں کے برخلاف، مصلحت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

سانحہ ہزارہ ٹاؤن میں جہاں ہر کسی نے اپنی استعداد کے مطابق لوگوں کو گمراہ کرنے میں کردار ادا کیا وہا اسی واقعہ سے متعلق ایک اور مشکوک شخصیت کے بے پرکی نے انکی ساکھ اور اس سے جڑی پرتوں پر کئی سوالات چھوڑے ہیں جنکی بروقت جواب دہی ان کا فرض اولین ہے۔ اسی موضوع پر ایم ڈبلیوایم کے رکن اور سابقہ ایم پی اے آغا رضا کی پریس کانفرنس بھی اخبارات کی زینت بنی جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ بلوچستان میں حالات خراب کرنے کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔ موصوف کو بتانا ہوگا کہ انہیں کیسے معلوم ہوا کہ بلوچستان میں حالات خراب کرنے کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔ وہ نا ہی ممبر اسبملی ہے اور نا ہی کوئی اور عہدہ رکھتے ہیں۔ کیا موصوف کے پاس خفیہ اداروں کی کوئی رپورٹ موجود ہے جسکی بناء پر وہ یہ دعوی کر رہے ہیں اور اگر انکے پاس انٹیلجنس رپورٹ موجود ہے تو ایک عام شہری تک انٹیلجنس رپورٹ کسطرح پہنچی؟ اس بات کی بھی تحقیقات ہونی چاہیئے کہ کون اسکے ساتھ خفیہ رپورٹس شيئر کر رہا ہے۔ اگر اس بابت آغا رضا کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت یا رپورٹ موجود نہیں تو انہیں عوام کو گمراہ کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ انکے پاس عوامی مینڈیٹ نہیں اور نا ہی انکے پاس کوئی سرکاری عہدہ ہے جسکے بھروسے پر وہ اتنے حساس موضوع پر انکشافات کرتے پھرے۔

دنیا میں ایسا کہی نہیں ہوتا کہ ملکی حالات کی خرابی کا ذمہ دار ہمسایہ ملکوں پر ڈال کر اس سارے معاملے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں، خفیہ اداروں اور سیکورٹی فورسز کی گلو خلاصی کا بہانہ تراشہ جائے کیونکہ یہ داخلی سلامتی کا اہم معاملہ ہے جسمیں تمام وفاقی اور صوبائی اسٹیک ہولڈرز برابر کے شریک ہوتے ہیں۔

عوام کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ حالات خراب کرنے کے پیچھے کس بیرونی قوت کا ہاتھ ہے۔ سیکورٹی ادارے، خفیہ ادارے، انتظامیہ، وفاقی اور صوبائی حکومیتیں عوام کو جواب دے ہیں کیونکہ انکی تنخواہیں، مراعات اور بھاری بھر کم فنڈز عوام کی ٹیکس ادائيگی سے بنتے ہیں لہذا انہیں ہر حال میں عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو کو مکمل تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔

اگر پاکستان نے آگے بڑھنا ہے، ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونا ہے تو اسے چاہيئے کہ دہشت گردانہ نظریات کی پرچار کرنے والے عناصر کے خلاف، اچھے اور برے دہشتگرد کی تمیز کئے بغیر، فیصلہ کن کاروائی کرے کیونکہ پاکستان کی موجودہ 20 کروڑ آبادی کا 65 فیصد حصہ ان افراد پر مشتمل ہیں جنکی عمریں 20 سے 35 کے درمیان ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اشتعال اور فتنہ انگیزی کرنا، نفرت اور توہین آمیز پوسٹس اور کامنٹس کرنا اور دہشتگردی کی پرچار کرنا اتنے ہی خطرناک ہیں جتنا بارود پہنے کوئی دہشتگرد۔

اگر پاکستان چاہتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف جیسی عالمی تنظیمیں پاکستان کو بلیک لسٹ نا کرے اور سی پیک جیسے منصوبے بروقت مکمل ہو، لوگ خوشحال اور مطمئن ہو تو انتہاء پسند خیالات اور دہشتگردانہ جذبات کی تشہیر یا پرچار کرنے والوں کے خلاف دہشتگردی کے قوانین کے تحت کاروائی کرنی ہو گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں