امت مسلمہ کی زبوں حالی۔۔۔! (حاجی محمد لطیف کھوکھر)

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اس وقت امت مسلم امہ دل سوز، پرآشوب، صبرآزما اور دل شکستہ مراحل سے گزر رہی ہے، امت مسلمہ کے قلب و جگ پر جس قدر جس تیزی اور جس منصوبہ بندی اور منظم سازش کے تحت حملے ہو رہے ہیں، شاید تاریخ بھی اس بات پر شاہد ہو کہ اس کی مثال پیش نہ کر سکے۔ آج مسلمانوں کے مال و متاع لوٹے جارہے ہیں۔ ہمارے کارواں پر رہزن کا بسیرا ہو گیا ہے۔ عصمت و عفت کو تار تار کیا جا رہا ہے۔برطانیہ، امریکہ، تھائی لینڈ اور پورے مشرق و مغرب اور بھارت میں اس وقت اگر کوئی قوم قحط، خوفزدہ، ذلت و پستی، ظلم و بربریت، غارتگری اور غربت و افلاس کا شکار ہے تو وہ سادہ لوح قوم مسلم ہے، جب کہ دوسری جانب مذہبی گروہ بندیاں، فرقہ پرستی، قومیت و عصبیت کا بدبودار نعرے، مغربی افکار سے مرعوبیت، بے پردگی و عریانیت، فحاشی، یہ وہ تمام داخلی اور خارجی فتنے و انتشار ہیں جو ہمیں آج اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔آج ہمارے اندر افتراق و انتشار، سیاسی وطبقاتی تنائو، عہدہ و منصب کی لالچ، خود نمائی، خود غرضی، خودپسندی، خودپرستی اور انا و عجب کوٹ کوٹ کر بھرے ہوے ہیں۔ ہماری تہذیب وتمدن اور تعلیم و تعلم یہ سب کے سب فتنہ و فساد کی آماج گاہ بن چکے ہیں۔ آج ہم اپنے آپ میں مست و مگن ہیں، ہمیں اس خوش فہمی نے تنزلی کی راہ پر لاکھڑا کر دیا ہے کہ ہم جیسا عالم، فاضل، محقق و مدبر اور طاقتور دوسرا کوئی نہیں۔ آج ہمیں ہر طرف سے زبوں حالی اور پستی وتنزلی کا منھ دیکھنا پڑ رہا ہے۔ ہماری جو حالت ہے وہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے المناک ہے بلکہ ملت کے شیرازہ کو بالکل منتشر اور اتحاد و اتفاق کے باب کو پارہ پارہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ پوری دنیا کے قوم و مذہب کے مقابل ہم نے اپنا مقام و مرتبہ سب کچھ گنوا دیا ہے۔مادہ پرست قوموں کے اسیروغلام بن کراپنی زندگ کے پل گزارنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں۔ ہم اس خالص مادہ پرست تہذیب وثقافت کی تقلید اور خوشہ چینی کو ترقی اور کامبابی کی علامت گرداننے لگے ہیں۔ ہرمذہب اور باشعور قوم کا نظام حیات اس کے بنیادی عقاہد و نظریات، اقدار و روایات، اصول و ضوابط اور نظریہ حیات کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اگر آج مسلمانوں میں اسلامی طریقہ حیات نہیں تو ہمیں ماننا پڑیگا کہ ہم نیا سلام کو فقط زبانی دعووں اور کھوکھلے نعروں کے سوا اسے ایک کامل دین اور مکمل ضابطہ حیات کی حیثیت سے قبول نہیں کیا۔ آج کا جو اجتماعی نظام (معیشت، عدل و انصاف، اخوت و بھائی چارگی، الفت و محبت، قانون و سیاست) وغیرہ سے یہ بات عیاں ہے کہ یہ ایک اسلامی نظام حیات ہرگز نہیں۔کیا قرآن وسنت کا تعین کردہ نظم وضبط حق نہیں؟اگر حق ہے تو پھر حق کو چھوڑ دینے کے بعد ضلالت و گمراہی اور جہالت کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے جسے اپنا کر ہم کامیابی کی دولت سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔ بیشک قرآن و سنت ہی کامیابی کی سنگ میل ہے، لیکن ہم قرآن وسنت سے دور گمراہی کی اندھیری کوٹھری میں قید و بند ہیں، اور راہ راست سے ہٹ کر راہ فرار اختیار کیے ہوے ہیں۔ یہ احساس نہیں کہ کل رب کے حضور جواب دہی کے لیے حاضر ہو کر اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کا حساب دینا ہے۔ ہمارے دلوں میں خوف خدا موج زن نہیں،ہمارے اندر محبت ومودت کی پاکیزہ فضا قائم نہیں بلکہ عداوت و بغاوت کی صور پھونک دی گی ہے۔ ماضی کی تاریخوں میں جس قوم نے علم و حکمت کا چشمہ اپنے گھر سے بہایا تھا، آج وہی ایک ایک قطرہ کے لیے دوسرے اقوام کا غلام بن کر جی رہی ہے۔ وہی قوم جو دنیا کی ایک عظیم طاقت بن کر ابھری تھی، آج ظالم و جابر اور سفاک طاقتوں کے سامنے بے بس اور لاچار نظر آرہی ہے۔ یہ اتنا بڑا تاریخی سانحہ ہے جس کے مضمرات کا جاننا امت مسلمہ کے لیے بے حد ضروری ہے۔ آج ہم غیروں کے ہاتھوں بک چکے ہیں، اورہماری زمینوں پر اغیار کا قبضہ ہوچکا ہے۔ ہماری نیتوں میں خلوص کی جگہ فتور حلول کر گیا ہے۔ علمی، ثقافتی، سیاسی، اقتصادی اور نظام زندگی کے میدان میں تغافل و تساہلی نے گھیر لیا ہے۔ حب نفس، عشق پرستی، راحت طلبی، تنگ نظری، طلب دنیا اور ذاتی اغراض سے دوستی ہوگی ہے۔ اہل دانش و مفکر سرگرداں رہنے کے بجاے گوشہ نشین اختیار کر چکے ہیں۔ آج قوموں اور رریوڑوں میں تقسیم ہو رہے ہیں۔ یاد رکھیں جو قوم اپنے مقصد زندگی اور نصب العین کو بالائے طاق رکھ دیتی ہے، اس کے ضروریات اور تقاضوں کے مطابق طرز عمل اختیار نہیں کرتی اور ان کے حصول یابی کے لیے ایثار و قربانی اور جہد مسلسل کرنے کیلئے کمربستہ نہیں رہتی اس کا صفحہ دہر سے مٹ جانا یقینی ہوتا ہے۔ امت مسلمہ کے شکست اور زوال کے اسباب اور اس کا حل قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اور تم کو جو کچھ مصیبت آتی ہے تمہارے ہاتھوں کے کئے ہوئے کاموں کی وجہ سے آتی ہے۔ اور اللہ بہت سے لوگوں کو معاف ہی کر دیتا ہے۔ تم زمین میں بھاگ کر اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور تمہارا اللہ کے سوا کوئی حامی و مدد گار نہیں ہوگا”۔ (الشوریٰ ) اس آیت سے واضح ہے کہ مصائب، ہزیمت، پریشانی، اور ذلت بد اعمالی کی وجہ سے آتے ہیں۔ آج لوگ طرح طرح سے اللہ کی نا فرمانی کرتے ہیں۔ احکام خداوندی سے لا پرواہی برتتے ہیں، اسلامی تعلیمات سے روگردانی کرتے ہیں، جبکہ امت مسلمہ کو اسلام نے ایک نظام حیات سے نوازا اور اس میں ہر طرح کا علاج رکھا۔ امت مسلمہ نے اس نظامی زندگی کو فرسودہ سمجھ کر اپنی زندگی سے دور کر دیا اور طرح طرح کے برائیوں میں مبتلا ہوگئی۔ عیاشی و موج مستی معاشرے کا اہم جز بنا لیا، فحاشی و عریانیت تہذیب کا ایک حصہ قرار دیا۔ شراب نوشی، قمار بازی عام سی ہوگئی۔ امر بالمعروف، نہی عن المنکر کو زندگی کی ترقی کے لئے رکاوٹ سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے ہر طرح کی مصیبتوں سے دو چار ہیں۔ رسول ۖ نے ارشاد فرمایا: ”پانچ برائیاں ایسی ہیں جس میں تم ان میں مبتلا ہو جائوگے اور میں اللہ کی اس بات سے پناہ چاہتا ہوں تم ان میں مبتلا ہو۔ جب کسی قوم میں بے حیائی اعلانیہ ہونے لگے تو ان میں طاعون اور ایسی ایسی بیماریاں پھیل جائیں گی جو ان کے اسلاف میں نہیں تھیں۔ جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرنے لگے تو اس کو قحط سالی و تنگی اور بادشاہ کے ظلم میں گرفتار کیا جائے گا۔ جبکہ کوئی قوم زکوٰة کو روکے گی تو اس سے بارش روک دی جائے گی۔ اگر جانور نہ ہوتے تو اس پر کبھی بارش نہ ہوتی۔ جب کوئی قوم اللہ و رسول ۖ کے عہد توڑے گی تو اس پر غیر قوم میں سے کوئی دشمن مسلط کر دیا جائے گا جو اس سے ان کے مال چھین لے گااور جب ان کے ائمہ اللہ کی کتاب سے فیصلہ کرنا ترک کردیں گے اور اللہ کی نازل کر دہ احکام میں سے اپنی مرضی کے مطابق لیکر فیصلہ کریں گے تو اللہ ان کے درمیان آپس میں لڑائی ڈال دیں گے۔ (ابن ماجہ ) اس حدیث سے امت مسلمہ کی زبوں حالی کے اسباب واضح ہیں کہ اعمال خراب ہوگئے تو یہ قوم حاکم سے محکوم ہوگئی۔ غیر قوم کا تسلط ہوگیا۔ مال و زر پر دوسروں کا قبضہ ہوگیا۔ آپس کے معاملات خراب ہیں لین دین، اخوت و بھائی چارگی کا فقدان ہے، اختلافات نے امت مسلمہ کو برباد کر دیا ہے۔ ذلت و پستی، انحطاط و کمزوری، ہلاکت و تباہی امت مسلمہ کو جکڑ لیا ہے۔ پھر بھی یہ امت سبق لینے کے بجائے دنیاوی عیش و عشرت میں مست ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ خیال کرتی ہیں۔ آپس کے لین دین درست نہیں۔جب مسلمانوں کی حالت یہ ہوگئی تو اللہ نظر کر م ہٹا لیا۔ چنانچہ رسول ۖ نے ارشاد فرمایا : ”جب میری امت دنیا کو قابل عظمت و قعت سمجھنے لگے گی تو اسلام کی وقعت ہیبت دل سے نکل جائے گی۔ جب امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کردے گی تو وحی کی برکات سے محروم ہو جائے گی اور جب آپس میں ایک دوسرے کو گالی گلوچ کرنے لگے گی تو اللہ جل شانہ کی نگاہ سے گر جائے گی” (کنزالاعمال)۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں