سی ایس ایس امتحانات میں دہشتگردی کا شکار قومیتوں کا کردار (لیاقت علی ہزارہ)

جدید ریاستوں کو اپنی آئینی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لئے تین شعبوں پر لامحالہ انحصار کرنا پڑتا ہے کیونکہ اگر یہی تین شعبے اپنا کام احسن طریقے سے نہیں نبھاتے تو امور مملکت کی انجام دہی میں بالیدگی نظر نہیں آئے گی جسکا براہ راست اثر ملکی ترقی پر پڑے گا۔ ان تینوں شعبوں میں قابل، باصلاحیت اور اعلی تعلیم یافتہ افراد کا ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ معاشرہ پڑھا لکھا، سلجھا ہوا اور ترقی پسند سوچ رکھنے والا ہے۔ اگر ان شعبوں میں ایسے افراد شامل کئے جائے جو سفارش، اقربا پروری اور رشوت کے بل بوتے پر ہو تو ملک کی تباہی یقینی ہو جاتی ہے۔

جہاں قانون ساز اسمبلی اور عدلیہ کے ساتھ ساتھ انتظامیہ میں قابل اور اعلی تعلیم یافتہ لوگ شامل کئے جاتے ہیں تو اس معاشرہ میں مثبت مقابلہ سازی کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ مقابلہ سازی کی فضا کو ہموار کرنے کے لئے ایسے اقدامات اٹھانا ہوتے ہیں جو نوجوانوں کو اس چیز کی طرف راغب کرے کہ انہیں انکی محنت کا صلہ ضرور ملے گا۔ ایسے میں ہر کوئی محنت کرتا نظر آئے گا کیونکہ انہیں اس بات کا اطمینان ہو جائے گا کہ بلاتفریق رنگ و نسل، قوم و قبیلہ اور مذہب و عقیدہ، انکی صلاحیتوں کی پرک خالصتا قابلیت کی بنیاد پر ہوگی تو وہ کیونکر محنت نہیں کرینگے۔ یہی فارمولہ ترقی یافتہ ملکوں میں صدیوں سے آزمایا جا رہا ہے۔ یہی ترجیحات معاشرے کو اعلی معیار بنانے میں مددگار ثابت ہو رہی ہیں اور ان ملکوں میں رہنے والے لوگ محض اس بناء پر ایک دوسرے سے سب‍قت لے جانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ انکی محنت ضرور رنگ لائے گی۔ اگر پاکستان نے ترقی کرنی ہے اور آگے بڑھنا ہے تو ہر شعبے میں قابل اور باصلاحیت لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہو گی۔

محنت اور لگن سے آگے بڑھنے والے نوجوانوں کے لئے ایک ایسا ہی نادر موقع سی ایس ایس کے پلیٹ فارم سے مہیا کیا جاتا ہے جہاں انہیں اس بابت یقین ہوتا ہے کہ انکی محنت رنگ لائے گی اور وہ سخت محنت کرتے ہوئے اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی کچھ بدھ کے روز اعلان ہونے والے سی ایس ایس کے فائنل امتحانات کے نتائج کی صورت میں دیکھنے کو ملا جہاں 14521 امیدواروں نے طالع آزمائی کی مگر صرف 214 امیدوار ہی اپنی پسندیدہ گروپوں میں سیٹ لینے میں کامیاب ہو سکے۔

حالیہ سی ایس ایس امتحانات پاس کرنے والے امیدوارں کی حتمی فہرست، جو میرٹ کی بنیاد پر ترتیب دی جاتی ہے، اسمیں نویں نام فروہ بتول ھزارہ کی تھی جنکو پاکستان ایڈمینسٹریٹیو سروس (پی اے ایس) ملی ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ، وہ بلوچستان سے کامیاب ہونے والے امیدواروں میں پہلے نمبر پر رہی۔ اس امتحان میں شریک ہونے والے تقریبا تمام امیدواروں کا پہلا انتخاب پی اے ایس ہی ہوتا ہے کیونکہ اس گروپ میں کام کرنے والے آفسیرز کے پاس بہت ذیادہ انتظامی اختیارات ہوتے ہیں۔

فروہ بتول اسوجہ سے بھی داد تحسین کے مستحق ہے کیونکہ اسکا تعلق پاکستان کی اس اقلیتی کیمونٹی سے ہے جو پچھلے بیس سالوں سے نام نہاد دہشتگردی کا شکار رہی ہے۔ دہشتگردی کا شکار یہ کیمونٹی پاکستان کے ایسے شہری ہیں کہ جن سے زبانی ہمدردی تو ہر کوئی کرتا نظر آتا ہے مگر پچھلے دو دہائیوں سے مارے جانے یہ لوگ آج بھی یہی سوال پوچھتے نظر آتے ہیں کہ کیونکر انہیں دن دھاڑے بازاروں، چوراہوں اور گنجان آبادیوں میں قتل کیا جاتا رہا اور کیونکر ہر واقعہ کے بعد دہشتگرد فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے۔ شومئی قسمت کہ ہزارہ قوم کے قتل میں شامل عناصر ایسی ویڈیوز بھی با بانگ دھل جاری کرتے رہے جنمیں سینکڑوں معصوم لوگوں کو ایک ہی دہشتگردانہ حملہ میں قتل کرنے والوں کی مدح سرائی کی گئیں اور انکے ملکی اور مقامی سہولت کاروں کو بھرے مجمع میں پھولوں کے ہار پہنائے گئے مگر حکومت اور سیکورٹی ادارے ان دہشتگردانہ واقعات میں بیرونی ہاتھ تلاش کرتے رہے۔ ان سب دہشتگردانہ حملوں کا نتیجہ یہی ہوا کہ وفاقی، صوبائی حکومت اور سیکورٹی اداروں نے ملکی دہشتگردوں کے خلاف فیصلہ کن کاروائی کرنے کی بجائے تقریبا دس لاکھ افراد پر مشتمل آبادی کو کوئٹہ کے مشرقی اور مغربی علاقوں میں نظر بندی کمیپوں تک محصور کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا اور عرصہ بیس سال سے پوری ہزارہ قوم ان نظر بندی کیمپوں میں قیدیوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

واپس اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں کہ کیونکر فروہ بتول ھزارہ کی کامیابی اس نہتی قوم کے لئے تہنیتی پیغام اور مسرت کا باعث ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ اس قوم پر نام نہاد دہشتگردی مسلط کرنے کے باوجود، انہوں نے پاکستان سے محبت کرنا نہیں چھوڑا۔ چاہے تعلیم کا میدان ہو یا کھیل کا۔ جہاں بھی انہوں نے اپنے قدم رکھے تو اپنی جیت کا لوہا منوایا۔ انہوں نے پاکستان کے اندر اور باہر کامیابی کی ایسی مثالیں قائم کیں جن سے ملک کا سر فخر سے بلند ہو گیا۔

دنیا بھر میں باصلاحیت اور قابل لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ایسے جامع اور نتیجہ خیز پروگرامز ترتیب ديئے جاتے ہیں جن سے ملک میں باصلاحیت لوگ سامنے آئے اور ملک و قوم کا نام روشن کرے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں اس طرز فکر کا فقدان پایا جاتا ہے جس سے باصلاحیت اور قابل لوگ اپنی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ اسی برین ڈرین کی وجہ سے نااہل لوگ کلیدی عہدوں پر براجمان ہوتے ہیں جسکا نتیجہ افراتفری اور بدانتظامی کی صورت میں نکلتا ہے۔

حکومت کو چاہئے کہ ہزارہ نوجوانوں کی گذشتہ بیس سالہ احساس محرومی کو ختم کرنے اور اس قوم کی باصلاحیت اور قابل لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ایسے جامع اور دراز مدت پروگرامز ترتیب دے جہاں انہیں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ملک سے تجدید وفا کا موقع مل سکیں۔ اسکے لئے ضروری ہے کہ حکومت تعلیم اور نوکری کے شعبوں میں ڈھائی سے تین فیصد تک کوٹہ مختص کرے جس پر صرف اسی قوم سے تعلق رکھنے والے افراد بھرتی ہو سکے تاکہ انکی جذبہ حب الوطنی کو اتاہ مایوسیوں سے نکال کر دوبارہ قومی دھارے میں شامل کرنے کا موقع میسر آئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں