“یہ بچی کی شام ہے، طالب جوہری” (ملک شفاعت حسین اعوان)

شب عاشور کی بیداری اور پھر دسویں محرم کو سارا دن غم حسینؑ میں پیدل چل چل کر جب شام کو تھکے ماندے گھر لوٹتے تو ابو جی طالب جوہری کی مجلسِ شام ِغریباں سننے کے لئے ٹی وی لگا کر بیٹھے ہوتے تھے 9 بجے کے خبرنامہ میں امی سارے ملک میں عزاداری سید الشہدا ؑ کے جلوسوں کا احوال دیکھتیں اور جلوسوں کے اپنی منازل پر بخیرو عافیت اختتام پذیر ہونے کی خبریں دیکھ کر خدا کا شکر ادا کرتیں۔

مجلس کا وقتِ آغاز 10:30 تھا۔ سب گھر والے سو جاتے لیکن میں اور ابو مجلس کے لئے جاگتے رہتے۔ طالب جوہری قرآن حکیم کی آیات بینات سے عظمت مصطفیؐ اور فضائل آل محمدؐ بیان کرتے تو روح کِھل جاتی طبیعت میں طَراوت محسوس ہوتی یہ روایت اپنے امی ابو کے ساتھ بیتے زندگی کےہر روز عاشور قائم رہی۔ کبھی کبھار ایسا ہوا ایام محرم میں مسلسل شب بیداری اور تھکاوٹ کی وجہ سے دوران مجلس اگر آنکھ لگ جاتی تو ابو جگا دیتے اسوقت اٹھ کر ٹی وی دیکھتے تو طالب جوہری مصائب شام غریباں بیان کر رہے ہوتے۔

” ہائے بچی ، ہائے یہ بچی کی شام ہے،

جب شام ہوگئی ہر طرف لاشے پڑے تھے حسینؑ کی بچی پکار رہی تھی بابا تم کہاں ہو اچانک ایک کٹے ہوئے گلے سے آواز آئی بیٹیؑ ادھر آؤ میں ہو تمھارا بابا ؑ”

یوں طالب جوہری کی اکثر مجالس شام غریباں کا اختتام سکینہؑ، پانی، عباسؑ اور باباؑ پر ہوتا۔ مجلس کے اختتام پر سید اسد جہاں سوز وسلام پیش کرتے
“گھبرائے گی زینبؑ” اور “مصیبتیں تو امامت کی پہلی منزل ہیں” یہ کلام سن کر ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے میں اور ابو حیرت و سوگ میں ڈوب جاتے کافی دیر ہم چپ چاپ بیٹھے رہتے دل میں شاید یہ خیال آتا۔۔۔

اے آل محمدؐ، اے حسین مولا ؑ!
آپؑ پر مصائب کی انتہا ہوگئی آپ نے لن تنالوا البرا حتی تنفقوا مما تحبون کی عملی تفسیر پیش کرتے ہوئے اپنے تمام عزیز تر رشتے راہ خدا میں قربان کردئیے !!!

آج 22 جون کے دن طالب جوہری بھی ہم سے جدا ہوگئے انکی یادیں انکے کہے ہوئے الفاظ انکے انمول انداز میں ہمیشہ ہمارے قلوب و اذہان کو مودت اہل بیت ع سے معطر کرتے رہیں گے یہ سن 98 یا 99 کی بات ہے جب میں پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا طالب جوہری ماڈل ٹاون میں سادات رہائش گاہ “عطیہ پنجتن ” میں سالانہ مجلس پڑھتے تھے اسوقت طالب جوہری کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا طالب جوہری محض خطیب یا ذاکر نہیں تھے آپ ایک عظیم مفسر قرآن، مورخ کربلا اور شاعر تھے ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے شاید مجھ سمیت بہت کم لوگ پہلے یہ جانتے ہونگے طالب جوہری نے مذہبی تعلیم نجف اشرف عراق سے حاصل کی وہاں آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی کے زیر انتظام حوزہ میں داخلہ لیا۔طالب جوہری آیت اللہ شہید باقر الصدر کے شاگرد رہے۔ وہ آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی کے ہم جماعت تھے۔ اگرچہ آیت اللہ سیستانی ان سے کچھ بڑے تھے۔ علامہ زیشان حیدر جوادی بھی نجف میں ان کے ہم درس رہے۔ (بحوالہ وکی پیڈیا)

یہ ہے وہ علمی کمال و فضل جسکے حامل تھے طالب جوہری۔ ہمارے بھائی عاطف شیرازی کے بقول “برصغیر پاک و ہند میں طالب جوہری کے نام سے ہر کوئی واقف ہوگا شاید سیستانی اور جوادی سے واقف نہ ہو”

آج اہل سنت ہوں یا اہل تشیع ، علما ہوں یا عوام دلیل ، منطق اور عقلی اعتبار سے جانچ پرکھ کرنے والا ہر شخص طالب جوہری کی باتوں پر یقین رکھتا ہے۔ فکر و فلسفہ قرآنی کی تشریح ہو ،عظمت و ذکر مصطفی کا حوالہ ہو ، یا فضائل و مصائب آل محمد ع ہوں طالب جوہری نے ہمیشہ اپنے سننے والوں کو فکر کی بالیدگی عطا فرمائی، قلوب مومنین میں احساس و عشق کی تپش دوڑائی۔۔ آپکی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے گی نوجوان نسل چاہے تو انٹرنیٹ پر موجود آپکی تقاریر و تصانیف سے فیض یاب ہوسکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں