مائنس ون دراصل امریکی رجیم چینج پالیسی ہے (انشال راٶ)

معاشی، سفارتی و سیاسی میدان میں لڑکھڑاتے بھارت و امریکہ اور جارحیت کے میدان میں زخم خوردہ جوڑی ایک بار پھر پاکستان کو فساد کی دلدل میں دھکیلنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے منظم پلان کے تحت براستہ پاکستان چین پر حملہ آور ہیں، امریکہ چین کے تیزی سے بڑھتے ہوے اثررسوخ سے پریشان ہے اور پاکستان حقیقتاً نان الائنمنٹ کے طور پر سامنے آرہا ہے لیکن اس نان الائنمنٹ سے چین کی طرف جھکاو یا اس کا فائدہ سب سے زیادہ چین کو پہنچ رہا ہے، ایسے میں امریکہ کی پوری پوری کوشش ہے کہ وہ پاکستان کو اپنی طرف کھینچے یا پھر کسی کام کا نہ رہنے دے، بھارت کی اصل حیثیت تو فقط ایک پپٹ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے اور حقیقتاً بھارت اس وقت امریکہ کی China Threat Theory میں ایک کارڈ ہے جسے ماہرین India Card کا نام دے رہے ہیں امریکہ کی طاقت کے حصول کے لیے سرگرمیوں کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو اس میں حکومت کی تبدیلی Regime Change Policy کا کردار سب سے اہم ہے اور شاید ہی کوئی ترقی پذیر ملک اس سے محفوظ رہ سکا ہو، امریکہ نے اس پالیسی کا آغاز 1898 سے کیا جس کے تحت براہ راست فوجی کاروائیوں کا سہارا لیا گیا، اس ضمن میں کچھ تبدیلی صدر ووڈرو ولسن کے بعد امریکی پالیسی میں تبدیلی آئی جس کا کہنا تھا کہ Teach Them To Elect Good Men اور جب روس امریکہ کی سرد جنگ کا آغاز ہوا تو 1947 میں CIA کے وجود کے ساتھ اس حکمت عملی میں تبدیلی کرکے امریکہ نے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے لیے خفیہ آپریشنز کا سہارا لینا شروع کیا، جمہوریہ کانگو اس کی زندہ مثال ہے کہ جب CIA کو کانگو کے وزیراعظم پیٹرائس لممبا کا جھکاو سوویت یونین کی طرف نظر آیا تو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ کانگو افریقن یونین سوویت کے قریب لے جاسکتے ہیں تو CIA نے کانگو میں حکومت کی تبدیلی پر کام شروع کردیا اور ہر سطح پر پیٹرائس لممبا کے خلاف پتوپیگنڈہ کیا گیا جس کے لیے میڈیا، سوشل ایکٹیوسٹ اور اپوزیشن کو استعمال کیا گیا جب لممبا کا تخت کلٹی کرواچکے تو اس کے بعد سے آج تک کانگو خانہ جنگی کا شکار ہے، آج کل پاکستان میں مائنس ون یعنی مائنس عمران خان کی گونج بڑے زور و شور سے سنائی دے رہی ہے وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب چین امریکہ سرد جنگ اپنے عروج پر ہے اور کون ہے جو نہیں جانتا کہ پاکستان اس وقت چین کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، سی پیک کی اہمیت سے بھی ہر ذیشعور بخوبی واقف ہے اور امریکہ و بھارت کو سی پیک کسی صورت برداشت نہیں جس امریکی انتظامیہ پر براہ راست تنقید بھی کرچکی ہے اور گیم چینجر سی پیک کو ناکام بنانے کے لیے اب امریکہ کے پاس ایک ہی آپشن ہے کہ وہ کسی بھی طرح سے پاکستان کو مسائل کی دلدل میں پھنسادے اور اس کے لیے اسے سب سے پہلے اپنے Good Men کو اقتدار کی مسند پہ پہنچانا لازم ہے جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ عمران خان لبرل ہو یا کچھ بھی ہو لیکن خودغرض نہیں اور پاکستان کے بہترین مفاد کی سوچ رکھتا ہے اسی لیے عمران خان عسکری قیادت ہر قسم کے قومی معاملات میں ایک پیج پہ نظر آتے ہیں ایسے میں افغانستان میں جارحیت کے زخم خوردہ امریکہ کی “جمہوریت بہترین انتقام” پالیسی بھی ناکام ہوکر رہ گئی جوکہ پاک فوج کو سبق سکھانے کے لیے پاکستان میں نافذ کی گئی تھی جس کی اصل وجہ امریکہ کے نزدیک پاک فوج کا پس پردہ کھیل ہے جو اس نے طالبان کو مدد دیکر کھیلا جس پر اکثر و بیشتر امریکہ اظہار بھی کرتا رہا ہے کہ پاکستان ڈبل گیم کھیل رہا ہے، یہی وجہ تھی کہ ڈونلڈ رمز فیلڈ نے صدر بش سے کہا تھا کہ امریکہ کی کامیابی کے لیے افغانستان کے پڑوسی ملک یعنی پاکستان میں حکومت کی تبدیلی لازم ہے اور اسے بطور پالیسی اپناکر مشرف کو ہٹایا گیا جس کے لیے میڈیا پر بڑے پیمانے پر مشرف مخالف مہم چلائی گئی، دہشتگردی کا بازار گرم کرکے اس کا زمہ دار مشرف کو قرار دیا گیا اور پھر بیرونی پریشر کے زریعے مشرف کو NRO کے لیے مجبور کیا گیا، یہاں یہ بات ذکر کرنا اہم ہے کہ Democracy is best revenge درحقیقت پاک فوج کو سبق سکھانا تھا جس کے تحت ایک سطح پر تو افواج پاکستان پر بڑے پیمانے پر دہشتگرد حملے کیے گئے دوم یہ کہ فوج مخالف پروپیگنڈہ مہم چلائی گئی جو آج بھی جاری ہے جس کے تحت تمام خرابیوں و مسائل کی زمہ دار فوج کو کہا جاتا ہے۔ جس طرح مشرف حکومت کو ختم کیا گیس اسی طرح ایک بار پھر عمران خان مخالف پروپیگنڈہ مہم کا آغاز شروع سے ہی کردیا گیا تھا جس میں وقت کے ساتھ تیزی لائی جاتی رہی اور مختلف مصنوعی بحران پیدا کرکے عوام میں عمران مخالف فضا ہموار کرنے کی کوشش کی جاتی رہی اور اب یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ تمام مسائل کی وجہ عمران خان ہیں اور مائنس ون پہ زور دیا جارہا ہے جوکہ درحقیقت امریکہ کی Regime Change Policy ہے اور بقول Benjamin Denison ترقی اس ضمن میں امریکہ سہ جہتی حکمت عملی اپناتا ہے اول خانہ جنگی یا دہشتگردی جس کے لیے India Card موجود ہے جو اپنی پراکسیز کے زریعے پاکستان میں دہشتگردی، لسانیت، صوبائیت کو ابھار رہا ہے اور موجودہ وفاق و صوبہ سندھ میں مصنوعی تناو بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے ثانیاً انسانی حقوق کے نام پہ مختلف پروپیگنڈوں کو ہوا دی جاتی ہے جیسا کہ ایک طرف کہا جارہا ہے بلوچوں کے حقوق، دوسری طرف PTM کی صورت پشتون حقوق کے نام پہ واویلہ مچانے والے کھڑے ہیں اور سندھ میں آجکل سندھی نیشنلزم کے گڑھے مردے میں جان ڈالی جارہی ہے ثلاثاً بین الاقوامی تنازعات کو ابھارا جاتا ہے یا کوئی جواز بناکر بین الاقوامی مسئلہ بنادیا جاتا ہے جیساکہ پاکستان کو دبوچے رکھنے کے لیے دہشتگردوں کی پناہ گاہ کا الزام دیکر اور FATF کی گرے لسٹ میں ڈلوایا گیا۔ اگرچہ پاکستان کو دس بارہ سال سے شدید نقصان برداشت کرنا پڑا ہے لیکن بفضل اللہ تعالیٰ افواج پاکستان کی قربانیوں سے دشمن کو ہر محاذ پہ شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں یہ کپتان ہی تھے جو اس وقت فوج کے ساتھ کھڑے ہوے جب فوج کو ایک طرف دہشتگردوں سے سامنا تھا دوسری طرف ملکی سیاسی سطح پر تنہائی کا سامنا تھا اور اب اسی عمران خان کو مائنس کرنے کے لیے شکست خوردہ جوڑی نے اپنے سارے پتے کھیلے ہیں جیسا کہ بقول بنجامن ڈینیسن ڈیموکریسی کا چورن، امداد اور میڈیا پہ مخصوص پروگرامز امریکی ٹروجن ہارس Trujan Horse ہیں اس حساب سے کچھ مخصوص میڈیا پرسنز جو کردار اس وقت ادا کررہے ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور اس کھیل کا اصل ہدف بظاہر تو مائنس ون ہے لیکن حقیقتاً یہ مائنس پاکستان اور اس سے آگے مائنس چین ہے اس لیے پاکستان اب مائنس ون کا کسی طور بھی متحمل نہیں ہوسکتا اور اگر خدانخواستہ ایسا ہوگیا تو پھر شاید حالات قابو میں نہ آسکیں کیونکہ اس بار امریکہ اکیلا نہیں ہے اس کے ساتھ بھارت بھی جُڑا ہے اور دونوں کے مقاصد کی فہرست میں ایک قدر مشترک ہے پاکستان کی بالکنائزیشن تاکہ امریکہ کو چین سے چھٹکارہ مل سکے اور بھارت کا اکھنڈ بھارت کے خواب کی راہ ہموار ہوسکے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں