پاکستان تحریک انصاف کا تکفیری چہرہ (شبیر حسین طوری)

پاکستان تحریک انصاف کا وجود نوے کی دہائی میں ہوا لیکن اسے ایک قومی پارٹی بننے کے لئے طویل جدوجہد کا سامنا کرنا پڑا مگر خاص کامیابی حاصل نا ہو سکی۔ پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی کا سفر 2008 میں شروع ہوا جو لیفٹننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کی مرہون منت ہے، جب وہ ڈی جی آئی ایس آئی مقرر ہوئے۔ اس دوران مسلم لیگ ن دبے لفظوں میں شکوہ کرتی نظر آئی اور کبھی کبھار جنرل شجاع پاشا کا نام بھی سامنے آیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے ماضی اور حال کے قول و فعل میں بے انتہا تضاد دیکھنے میں آیا ہے اور کچھ لوگ اسے طالبان خان سے بھی یاد کرتے تھے۔ یہ الزام کس حد تک صحیح تھا، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اگر حالات و واقعات کو جوڑ کر دیکھا جائے تو تصویر قدرے واضح ہو جاتی ہے۔ جب وزیرستان میں شدت پسندی عروج پر تھی اور مقامی افراد بھی اپنے علاقے میں جانے کا رسک نہیں لیتے تھے تب عمران خان نے اس علاقے میں ریلی کی شکل میں جلوس نکالا حالانکہ اس وقت پشاور میں بھی سیاسی اجتماع میں خودکش حملے ہو رہے تھے۔

اس کے بعد جب پیپلز پارٹی کی وفاق حکومت اور اے این پی کی صوبائی حکومت نے طالبان سے مذاکرات کرنے کی کوشش کی تو طالبان نے چند نام ثالثی کے طور پر دیئے، جن میں عمران خان کا نام بھی شامل تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ طالبان نے حکومت وقت کو خبردار کیا کہ اگر عمران خان کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کی ذمہ دار حکومت ہو گی۔ طالبان جیسی سفاک تنظیم جو معصوم بچوں پر بھی رحم نہیں کرتی تھی، اسے آخر عمران خان سے اتنی ہمدردی کیوں تھی؟

2013 میں جب انتخابی مہم کا آغاز ہوا تو پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی اور یہاں تک کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، جس کی وجہ سے یہ جماعتیں جلسے جلوس کرنے کے بجائے صرف کارنر میٹنگ تک محدود ہو کر رہ گئیں۔ جو جماعتیں ان خطرناک حالات میں بھی کھلے عام سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئی تھیں، ان میں مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف تھیں اور اس کی وجہ صرف ایک ہی تھی کہ ان جماعتوں کو راولپنڈی کے گیٹ نمبر 8 کی آشیرباد حاصل تھی۔

یہ الگ بات ہے کہ گزشتہ حکومت میں خلائی مخلوق شریف خاندان سے ناراض ہوئی تو ان کے لئے تحریک لبیک پاکستان لے آئے اور یوں مسلم لیگ ن کے لئے بھی وہی خوف کی فضاء تیار کی گئی جو ماضی میں دوسری سیاسی جماعتوں کو کارنر کرنے کے لئے استعمال کی جاتی تھی۔

پاکستان تحریک انصاف نے دہشت گردی کے عروج میں صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنائی مگر اس کے باوجود دہشت گردانہ حملوں سے محفوظ رہے۔ اس کی وجہ صاف تھی کہ صوبائی حکومت نے بجٹ میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے لئے 46 کروڑ روپے کی امداد مختص کی تھی جو کہ عام الفاظ میں دہشت گردوں کا پولٹری فارم کہلاتا ہے اور ان دہشت گردوں سے اظہار یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے عوام کے پیسے سے بھتہ دیا گیا۔

اب جبکہ عمران خان کو وفاق میں بھی حکومت مل چکی ہے تو اس جماعت کا تکفیری چہرہ سامنے آنا شروع ہو گیا ہے۔

گزشتہ کئی سالوں سے ریاست کا لال مسجد کے معاملے پر مولوی عبدالعزیز کے ساتھ تنازعہ چلا آ رہا تھا لیکن موجودہ حکومت میں نہایت خاموشی کے ساتھ مسئلہ حل کر لیا گیا۔ یہ خبر خوش آئند کے ساتھ ساتھ خوفناک بھی ہے کیونکہ ریاست اور مولوی عبدالعزیز کے درمیان ثالثی کا کردار بدنام زمانہ کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے سربراہ احمد لدھیانوی نے نبھایا۔ اس سے یہ سمجھنا قطعاً مشکل نہیں کہ عمران خان کی حکومت میں دہشت گرد تنظیموں کو کس حد تک پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حال ہی میں مولوی عبد العزیز نے اسلام آباد کے ایف سیون سیکٹر میں قائم ایک مدرسہ جامعہ فریدیہ پر اپنی بیوی اور طلباء کے ہمراہ دھاوا بول کر مدرسے کے مہتمم مولانا عبدالغفار کو برطرف کر کے قبضہ کر لیا۔ کل تک جو شخص لال مسجد میں داخل نہیں ہو سکتا تھا، آج وہی شخص اتنا دلیر ہو گیا کہ دوسرے مدارس پر قبضہ کرتا نظر آ رہا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ سب حکومت کی آشیر باد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی، پنجاب حکومت نے حال ہی میں سالانہ بجٹ میں کالعدم تنظیموں کے سرکاری تحویل میں لئے گئے مدارس کے لئے ایک ارب پینتیس کروڑ روپے کا فنڈ مختص کیا ہے جبکہ بھٹہ خشت مزدوروں کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے جو شہباز شریف نے تقریباً ایک ارب روپے مختص کئے تھے، اس میں کٹوتی کر کے صرف دس لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں یعنی کہ اپنے بچوں کو تعلیم سے محروم کر کے دہشت گردوں کے بچوں کو نوازا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ جو ایک خطرناک بات سامنے آ رہی ہے کہ تعلیمی اداروں میں جو باشعور اور انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھانے والے پروفیسرز تھے، انہیں مختلف حیلے بہانوں سے ملازمت سے فارغ کیا جا رہا ہے اور گزشتہ ایک ماہ میں محمد حنیف، پروفیسر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اور ڈاکٹر علی جان شامل ہیں یعنی کہ نہایت خاموشی سے ایک بار پھر ضیائی دور واپس لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کے ذاتی طور پر بہت سے بیانات بھی ان کی انتہا پسندانہ سوچ کی ترجمانی کرتے ہیں۔ جیسے کہ گزشتہ حکومت میں عمران خان نے طالبان کو خیبرپختونخوا میں دفتر قائم کرنے کی آفر کی اور حال ہی میں قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے دہشت گرد اسامہ بن لادن کو شہید قرار دے دیا۔

آخر طالبان اور اسامہ بن لادن کی مسلم امہ کے لئے کون سی ایسی خدمات ہیں جو ان کو اتنا اعزاز دیا جا رہا ہے۔ ہمارے ہی بچے ذبح کئے ہیں جن کو دفاتر کھولنے کی بات کی گئی یا شہید قرار دیا گیا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان یہ سب اپنے بل بوتے پر کر رہا ہے؟ ایسا نہیں ہے بلکہ جن سیلیکٹرز نے اسے کٹھ پُتلی کے طور پر وزیراعظم بنایا تھا، وہی ان تکفیری اور دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی بھی کر رہے ہیں۔ عمران خان تکفیریت کا وہ لبرل چہرہ ہے جو کلین شیو کی صورت میں رہ کر انتہا پسندی کو فروغ دے رہا ہے اور یہ چہرہ طالبان اور القاعدہ سے زیادہ خطرناک ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں