روز بچوں کا لہو ہوتا ہے اور وہ چپ ہیں (نسیم الحق زاہدی)

ان دنوں پاکستان میں مندر کی تعمیر کی باز گشت سنائی دے رہی ہے ایک جانب اس کی مخالفت اور دوسری جانب اس کی حمایت میں ایک بحث شروع ہے، سوشل میڈیا پر اس کے خلاف پیغامات کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا جبکہ مندر کی تعمیر کے خلاف عدالت میں ایک درخواست بھی زیرِ سماعت ہے۔سوشل میڈیا پر مندر کی تعمیر کے حق میں ایک ہندو گلوکارہ کا گانا بھی زیرِ گردش ہے۔ گلوکارہ کے پہلے ہی شعر کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ پاکستان پرستوں کو اوقات میں رہنا چاہئے کیونکہ مودی حکومت کے دوران اسلام آباد میں مندر بنے گا جس سے ہندوتوا کی پیروکار گلوکارہ کے توسیع پسندانہ عزائم واضح ہیں۔ غور کیا جائے تو مودی حکومت تو بھارت میں ہے، مودی حکومت کے عہد میں اسلام آباد میں مندر کی تعمیر بیان کرنے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ہندوتوا کے پیروکار نعوذ باللہ پاکستان پر قبضے کا خواب اس طرح دیکھ رہے ہیں۔ اور ایسے میں جب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت عروج پر ہے۔ ننھے نواسے کے سامنے اس کے نانا کی شہادت نے جھنجھووڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں عالمی ادارے کہاں ہیں جن کو یورپ کی سڑکوں پر مرنے والے جانوروں کے حقوق کا تو بہت خیال ہے لیکن کشمیر کی سڑکوں پر بہنے والے انسانی خون پر انہوں نے آنکھیں موند رکھی ہیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ دنیا پر حکمران قوم مسلم ہی زیر عتاب ہے۔ نائن الیون کا بہانہ بنا کر ان پر زمین ہی تنگ کر دی گئی ہے۔ دہشت گردی کے چھوٹے الزامات کے تحت افغانستان پر چڑھائی کر دی گئی اور وہاں امریکی افواج نے وحشت و بربریت کا جو کھیل کھیلا وہ انسانیت کے نام پر سیاہ دھبہ ہے۔ اتنا بارود برسایا گیا کہ سنگلاخ پہاڑوں کے اندر موجود کیڑے مکوڑے بھی راکھ کا ڈھیر بن گئے تو وہاں انسانوں کا کیا حال ہوا ہوگا یہ سوچ ہی دل ہلا دیتی ہے۔ سینکڑوں افغانیوں کو نام نہاد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور اب امریکہ انہی دہشت گردوں یعنی ”طالبان” سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہا ہے کہ اس کی باقی ماندہ فوج افغانی سرزمین سے صحیح سلامت نکل جائے۔ وگرنہ ٹرمپ اور اس کی انتظامیہ امریکیوں کو کیا منہ دکھائے گی؟۔ دنیا کا کوئی جگہ کوئی علاقہ، خطہ ایسا نہیں جہاں مسلمان بے بس نہ ہو اور انہیں قتل نہ کیا جا رہا ہے۔ ان کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا رہی ہے فلسطین میں ستر سال، افغانستان میں سترہ سال، عراق میں چودہ سالوں سے ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے اور ہم ہیں کہ خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ افغانستان کی بربادی کے بعد دشمنی کا یہ سلسلہ رکا نہیں، یکے بعد دیگرے عراق، لیبیا بعدازاں شام کو وہاں بسنے والے مسلمانوں کیلئے خون آشام بنا دیا گیا۔ یہاں پر مسلمانوں نیست و نابود کرنے سے ان کی اسلام اور مسلمان کے خلاف آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی۔ داعش کا فتنہ چھوڑ دیا گیا۔ ہر اسلامی ملک میں یہود و ہنود کی مدد سے داعش داخل ہو چکی ہے۔ جو بے گناہ لوگوں کا قتل کر رہی ہے۔ المیہ یہ کہ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم (او آئی سی) عضو معطل بن کر رہ گئی ہے اور ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان، 61 اسلامی ریاستیں تیل کی دولت و معدنی ذخائر سے مالا مال یہ اسلامی ملک انتشار باہمی رنجشوں و رقابتوں کا شکار نظر آتے ہیں۔ انہی اختلافات کی بدولت سلطنت عثمانیہ ٹکڑوں میں بٹ گئی، یورپ سے مسلمان دھکے دیکر نکالے گئے جہاں ان کی حکمرانی کا سورج طلوع ہوتا تھا وہاں آج مسلمان بھٹکنے پر مجبور ہیں ان کا مسلسل استحصال کیا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے۔ بھارت انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے والے 38 ممالک میں شامل ہے۔ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو کی جاری کردہ رپورٹ میں بھارت کا نام بھی شامل ہے۔ گذشتہ 29 برسوں میں 8 ہزار سے زائد کشمیر لاپتہ ہوئے۔ مقبوضہ وادی میں ہزاروں گمنام قبریں دریافت ہوئیں۔ شبہ ہے گمنام قبریں بھارتی فورسز کی حراست سے لاپتہ افراد کی ہیں۔ بھارتی صحافی رعنا ایوب نے بھارتی گھنائونے مظالم بے نقاب کرتے ہوئے ٹویٹ میں کہا کہ مقبوضہ کشمیر سے ابھی لوٹی ہیں، مقبوضہ وادی میں جو دیکھا وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا ہوگا۔ بھارتی فورسز کی جانب سے 12 سالہ بچے کو حراست میں لے کر پیٹا جارہا تھا، خواتین کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ رعنا ایوب نے کہا کہ لڑکوں کو الیکٹرک شاکس دئیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کے اندر بھارتی میڈیا کے لیے جو غصہ اور نفرت ہے وہ پہلے کبھی نہیں دیکھی ہے۔ بی بی سی کے رپورٹر نے مقبوضہ کشمیر کے جنوبی اضلاع کے علاقوں کا دورہ کیا جہاں عوام نے انہیں بھارتی افواج کی جانب سے ڈھائے گئے مظالم کی داستانیں سنائیں۔ رپورٹ کے مطابق کشمیریوں نے رات گئے بھارتی چھاپوں، مار پیٹ اور تشدد کی ملتی جلتی کہانیاں سنائیں اور بھارتی سکیورٹی فورسز پر مارپیٹ اور تشدد کے الزامات لگائے۔ مقبوضہ وادی کے محصور شہریوں نے یہ بھی بتایا کہ آرٹیکل 370 ختم کرنے کے متنازع فیصلے کے چند گھنٹوں بعد ہی فوج گھر گھر گئی، بھارتی فوج نے راتوں میں چھاپے مار کر گھروں سے لوگوں کو اٹھایا اور سب کو ایک جگہ پر جمع کیا۔ شہریوں نے بتایا کہ بھارتی فوج نے ہمیں مارا پیٹا، ہم پوچھتے رہے ہم نے کیا کیا ہے لیکن وہ کچھ بھی سننا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے کچھ بھی نہیں کہا اور بس ہمیں مارتے رہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق شہریوں نے بتایا کہ بھارتی فوج نے ہمیں لاتیں ماریں، ڈنڈوں سے مارا، بجلی کے جھٹکے دیئے، تاروں سے پیٹا، جب بیہوش ہو گئے تو انہوں نے ہمیں ہوش میں لانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیئے، بھارتی فورسز نے ہمیں ڈنڈوں سے مارا اور ہم چیخے تو انہوں نے ہمارے منہ مٹی سے بھر دیئے۔ ایک کشمیری نوجوان نے بتایا کہ میں خدا سے موت کی دعا کر رہا تھا کیونکہ یہ تشدد ناقابل برداشت تھا، بھارتی فورسز سے کہا کہ ہم پر تشدد نہ کریں، بس گولی مار دیں۔ بھارتی فوجی کشمیریوں کو ایسے مارتے ہیں جیسے جانوروں کو مارا جاتا ہے۔ بھارتی فوجی انہیں انسان ہی نہیں سمجھتے۔ مقبوضہ وادی کے ڈاکٹرز صحافیوں سے کسی بھی مریض کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے۔ بڑی تعداد میں اسرائیلی مقبوضہ کشمیر پہنچ گئے ہیں۔ بھارتی اخبار نے لکھا ہے کہ اسرائیلی سیاحوں کی کثیر تعداد اب لیہہ کے سارے علاقہ میں سڑکوں سے لے کر ہوٹلوں تک اور رستورانوں سے بودھ راہبوں کی خانقاہوں تک ہر جگہ موجود ہیں۔ مسلسل کرفیو سے میں کشمیریوں کی مزاحمت میں کمی نہ آئی ساڑھے چار ہزار سے زائد زیرحراست کشمیریوں پر کالا قانون لاگو کیا گیا۔ گرفتاریوں نے کشمیریوں خاندانوں کی زندگی تباہ کردی۔ کشمیر میں بھارتی فوج کی بربریت کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ کشمیر کی نوجوان نسل کی بینائی چھینی جارہی ہے۔

روز بچوں کا لہو ہوتا ہے اور وہ چپ ہیں
کاش مر جائیں سبھی مردہ ضمیروں والے


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں