مغرب کی تقسیم سے امریکہ مشکلات میں! (انشال راٶ)

امریکہ و برطانیہ کو اس بات کا پورا پورا احساس ہے کہ عالمی نظام پر ان کی گرفت کے خیموں کی طنابیں آہستہ آہستہ اکھڑ رہی ہیں اس میں سب سے اہم بحری گزرگاہوں پہ امریکی کنٹرول ہے لیکن اب چین و روس کی جوڑی بالخصوص چین تیزی سے سمندری پانیوں پر اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے بحیرہ جنوبی چین اہم ترین سمندری گزرگاہ ہے جہاں سے دنیا کی ایک تہائی سمندری تجارت ہوتی ہے جوکہ 5.3 ٹریلین ڈالر بنتی ہے اب تقریباً چین کے کنٹرول میں آچکا ہے اس کے علاوہ بحر ہند میں سری لنکن پورٹ اور گوادر پورٹ کی وجہ سے پہلے ہی چین کا پلڑا بھاری ہے دوسری طرف افریقی ممالک میں چین کا اثررسوخ غیرمعمولی ہے، معاشی میدان میں چین نہ صرف دنیا کی دوسری بڑی معیشت بلکہ دنیا کی سب سے بڑی ایکسپورٹ مارکیٹ ہے جسے قابو کرنا امریکہ کے لیے موجودہ صورتحال میں انتہائی محال ہے جب چین نہ صرف سمندری گزرگاہوں میں امریکہ کو چیلنج کررہا ہے بلکہ خلاء میں بھی امریکہ کے مدمقابل آچکا ہے ماہرین کے مطابق چین و روس خلاء پہ راج کرنے کی پوزیشن میں ہیں اس کے علاوہ امریکی GPS کے مقابلے میں چین اب اپنا گلوبل نیویگیشن سسٹم بیڈو Beidou لانچ کرچکا ہے جوکہ امریکی جی پی ایس کے مقابلے میں سو گنا بہتر ہے یہ ابتک کا سب سے بڑا سسٹم ہے جس کے 35 سیٹلائٹ ہیں جوکہ امریکی GPS، روسی GLONASS اور یورپی GALILEO سے کہیں زیادہ بہتر ہے اس کے نفاذ کے بعد امریکی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور ایسے میں اس کے اپنے اتحادی اس کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں، جرمنی کی زیر کمان یورپی ممالک بظاہر امریکہ سے دوریاں اختیار کررہے ہیں، جون میں جب امریکہ چین سرد جنگ عروج پر تھی تو ایک صحافی کے سوال کے جواب میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے کہا کہ چین سے ان کے تعلقات نہ صرف مضبوط بلکہ اسٹرٹیجک نوعیت کے ہیں، یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ چین جرمنی کی آٹوموبائل انڈسٹری کا سب سے بڑا خریدار ہے اور تجارتی حجم 100 ارب ڈالر سے زائد ہے اس کے علاوہ بحیرہ جنوبی چین سے جرمن شپنگ کی مالیت 117 ارب ڈالر ہے ایسے میں جرمنی کسی طور بھی چین کے مقابلے میں امریکہ کے ساتھ کھڑے ہونے کا رسک نہیں لے سکتا۔ یورپ سے امریکی مفادات سے بغاوت 2016 میں ہوئی جب امریکہ کی سخت مخالفت و ناپسندیدگی کو یکسر مسترد کرتے ہوے جرمنی، اٹلی، فرانس نے چین کے منصوبے ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک میں شراکت کرلی اس کے بعد یورپ نے جرمنی ہی کی زیر کمان لاطینی امریکی معاشی و سیاسی بلاک مرکوسر Mercosur سے ایک ہزار ارب ڈالر کا تجارتی معاہدہ کیا اور اب 20 اپریل کو ایک بار پھر امریکہ کو بائی پاس کرتے ہوے جرمنی نے میکسیکو سے تجارتی معاہدہ کیا، ردعمل کے طور پر امریکہ نے ناٹو اتحاد سے عملی طور پر نکل جانے کی دھمکی دی اور اب وہ بتدریج اپنی فوجیں جرمنی و دیگر یورپی ممالک سے نکال رہا ہے جس کے ردعمل میں جرمنی کا سخت موقف سامنے آیا اور اس نے کھل کر کہا کہ یورپ کو اب اپنا دفاع خود کرنا ہوگا جرمن چانسلر نے یورپی یونین کی صدارت کرتے ہوے کہا کہ
Look at the World, Look at China or India
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ کووڈ بحران کے وقت یہ جرمنی ہی تھا جس نے یورپی ممالک کی مالی امداد کی اسی لیے جرمن چانسلر نے یہ بات کہی کہ
Europe needs Us, just as We need Europe
امریکہ روس سرد جنگ کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب یورپ امریکی مفادات کے خلاف کھڑا ہے جس میں اہم کردار بلاشبہ جرمنی کا ہی ہے وہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت امارت کی بحالی چاہتے ہیں، جس کے معاشی و سفارتی نتائج کے علاوہ دفاعی و فوجی نتیجے بھی سامنے آرہے ہیں جیسا کہ لیبیا کے معاملے میں جرمن موجودگی کے خلاف آنے سے فرانس نے عملی انکار کیا اور اب ہنگری نے جرمنی سے اسلحہ و دفاعی آلات خریدنے کا بڑا معاہدہ کیا ہے گویا یوں کہا جاسکتا ہے کہ چین و روس کے ساتھ ساتھ اب امریکہ کو جرمنی سے بھی سرد جنگ کا سامنا ہے۔ یا پھر یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ آج مغرب دو حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے ایک حصہ جرمنی کے ساتھ ہے جبکہ دوسرا امریکہ کے ساتھ ہے بالخصوص فائیو آئی جن میں امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں اور یہ امریکہ کے لیے پریشان کن مرحلہ ہے ایسے میں امریکی چبوترے سے ایک ایک کرکے اس کے روایتی حلیف اترتے جارہے ہیں حال ہی میں جاپان نے امریکی ایجس میزائل دفاعی سسٹم کا معاہدہ منسوخ کردیا ہے اور اوکیناوا میں موجود 26000 امریکی فوجیوں کو ناپسندیدگی سے دیکھ رہا ہے اہم بات یہ کہ یہ اس وقت ہوا ہے جب اوکیناوا سے امریکی ٹروپس میں کرونا آوٹ بریک کی خبریں آرہی ہیں اور دوسری طرف روس نے جاپان سے جنگ عظیم دوم کے بعد کے تنازعات کے پرامن حل کے لیے پیشکش کی ہے جس پر پس پردہ بات چیت جاری ہے یا پھر یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ آج مغرب دو حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے ایک حصہ جرمنی کے ساتھ ہے جبکہ دوسرا امریکہ کے ساتھ ہے بالخصوص فائیو آئی جن میں امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں اور یہ امریکہ کے لیے پریشان کن مرحلہ ہے ایسے میں امریکی چبوترے سے ایک ایک کرکے اس کے روایتی حلیف اترتے جارہے ہیں حال ہی میں جاپان نے امریکی ایجس میزائل دفاعی سسٹم کا معاہدہ منسوخ کردیا ہے اور اوکیناوا میں موجود 26000 امریکی فوجیوں کو ناپسندیدگی سے دیکھ رہا ہے اہم بات یہ کہ یہ اس وقت ہوا ہے جب اوکیناوا سے امریکی ٹروپس میں کرونا آوٹ بریک کی خبریں آرہی ہیں اور دوسری طرف روس نے جاپان سے جنگ عظیم دوم کے بعد کے تنازعات کے پرامن حل کے لیے پیشکش کی ہے جس پر پس پردہ بات چیت جاری ہے اور بدلتی صورتحال کے پیش نظر بھارت بھی کلٹی مارنے کی سوچ رہا ہے اس ضمن میں بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کا بیان کہ وہ نان الائنمنٹ کی پالیسی پہ یقین رکھتے پیں انتہائی معنی خیز ہے اور یہ تمام تر صورتحال امریکہ کے لیے پریشان کن ہے ایسے میں امریکہ جوابی وار کے طور پر وقت اور موقع کا منتظر ہے جوکہ چین نے اسے مہیا بھی کردیا ہے ایران چین ڈیل کے زریعے جس پر اگلی قسط میں بات کرونگا۔ فی الحال امریکہ کے پاس اور کوئی موقع نہیں وہ نہ معاشی پابندیاں لگاسکتا ہے کیونکہ جواباً اگر چین نے 1.1 ٹریلین ڈالر کے امریکی بانڈز مارکیٹ میں پھینک دئیے تو یقیناً ڈالر کریش ہوسکتا ہے ایسے میں فی الحال امریکی بس اتنا سوچ رہے ہونگے کہ کاش چین میں بھی پاکستان جیسا نظام ہوتا تو وہ آزادئ اظہار کی آڑ میں چین کے اندر ہی عدم استحکام پیدا کردیتے، کاش پاکستان جیسے لیڈر و صحافی ہوتے تو جمہوریت کو خطرہ پیدا کرکے زی جن پنگ کو داخلی طور پر ہی الجھا دیتا لیکن وہ چین ہے پاکستان نہیں اس لیے یہ آپشن کاش تک محدود ہے اور پاکستان کے لیے ایک سبق جس پر حبیب جالب نے برسوں پہلے جلتے ہوے کہا تھا کہ
چین اپنا یار ہے، اس پہ جاں نثار ہے
پر وہاں ہے جو نظام، اس طرف نہ جائیو
اس کو دور سے سلام ہیں۔

ورنہ بائیس کروڑ کا رش عوام بن جائیگا اور خوامخواہ دنیا میں ایک اور طاقتور کی اینٹری ہوکر ایک نئی سرد جنگ شروع ہوسکتی ہے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں