ہمارے پردیسی حکمران (شبیر حسین طوری)

پاکستان کے ہزاروں بلکہ لاکھوں شہری مشرق وسطیٰ میں روزی روٹی کی تلاش میں کئی سالوں سے رہتے آ رہے ہیں۔ چند ایسے بھی ہیں جن کی ابھی داڑھی مونچھ بھی نہیں اتری تھی کہ وہ پردیس گئے اور آج ان کے سر میں چاندی اتر آئی ہے مگر تب بھی وہیں موجود ہیں۔ کئی سال ایک ملک میں گزارنے کے باوجود بھی وہ لوگ پردیسی ہی رہتے ہیں۔ جو کچھ کماتے ہیں وہ فوراً ہی اپنے ملک بھیج دیتے ہیں جہاں ان کے بچے اور خاندان اچھی زندگی گزارتے ہیں اور سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ جوں ہی ان کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب کمانے کی طاقت نہیں رکھتے یا ان کو نوکری میسر نہیں ہے تو وہ فوراً ہی بوری بستر اٹھاتے ہیں اور اپنے دیس روانہ ہو جاتے ہیں اور پھر وہ ملک ان کے صرف خیالات یا گپوں میں رہ جاتا ہے۔ جس ملک میں کمائی کر رہے ہوتے ہیں، اس کے حالات سے یا سیاست سے انہیں رتی برابر فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ میں تو پردیسی ہوں، حالات بہتر ہوں گے تو روزی روٹی کماتا رہوں گا اور اگر حالات خراب ہوں گا تو ٹکٹ کروا کر روانہ ہو جاؤں گا۔ یہ ملک جانے اور اس ملک میں رہنے والے جانیں، وہی بھگتے رہیں گے۔

اس کی ایک مثال آپ لیبیا کی دیکھ لیں، ہزاروں پاکستانی وہاں رہتے تھے لیکن جوں ہی حالات خراب ہوئے فورآ واپس آ گئے۔ اپنے وطن واپس آنا اور یہاں سرمایہ کاری کرنا ان کا بنیادی حق ہے کیونکہ ان کا مستقبل پاکستان سے جڑا ہوا ہے لیکن ہمارے ہاں ایک ایسا بھی پردیسی طبقہ موجود ہے جو یہاں کا ہی شہری ہوتا ہے، یہیں ہی پیدا ہوتا ہے اور یہیں کسی اہم عہدے پر فائز ہو جاتا ہے، یہاں سے ہی کروڑ پتی یا ارب پتی بنتا ہے مگر وہ ہوتا پردیسی ہی ہے کیونکہ وہ مشرق وسطیٰ میں بسے مزدور کی طرح پیسہ پاکستان میں کماتا ہے مگر اس کے بچے اور خاندان امریکہ، برطانیہ یا آسٹریلیا یا دیگر ممالک میں زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے اور وہ یہاں سے پیسہ کما کر باہر ملک بھیجتا ہے جہاں ان کا خاندان بہترین زندگی گزار رہا ہوتا ہے اور وہیں سرمایہ کاری کرتا ہے۔ یہ بھی جب دیکھتے ہیں کہ وہ اب کمانے کے لائق نہیں رہے یا انہیں مواقع میسر نہیں ہیں تو وہ مشرق وسطیٰ کے پردیسی کی طرح بوری بستر لپیٹتا ہے اور پاکستان سے اپنے وطن روانہ ہو جاتا ہے۔ اس طبقے میں سب شامل ہیں، سیاستدان ہوں کہ سرکاری افسران، کاروباری حضرات ہوں کہ صحافی۔ سب اس وقت تک پاکستان کے ساتھ اس وقت تک محبت کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں جب تک کہ انہیں پاکستان میں مال کمانے کا موقع ملتا رہے، جوں ہی یہ امید ختم ہوتی ہے، پاکستان سے محبت بھی ختم ہو جاتی ہے۔

میاں محمد نواز شریف کی مثال آپ کے سامنے ہے، جن کے بچے پاکستان کے شہری ہی نہیں ہیں اور ساری سرمایہ کاری برطانیہ میں ہے جبکہ کمایا یہاں تھا، مریم نواز بھی تب تک پاکستان کی شہری ہیں جب تک انہیں سیاست میں کچھ امید نظر آتی ہے۔ سلمان شہباز شریف بھی سرمایہ سمیت برطانیہ سدھار گئے اور نواز شریف خود بھی پاکستان میں صرف حکمرانی کرنے کے لئے آتے ہیں، جیسے ہی اقتدار ہاتھ سے جاتا ہے، اپنے وطن برطانیہ لوٹ جاتے ہیں اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ عیش کی زندگی گزارتے ہیں۔

چیف جسٹس صاحبان کی مثال لے لیں۔
چوہدری محمد افتخار تھا یا میاں ثاقب نثار۔ تب ایسا لگتا تھا جیسے انہوں نے ہی نہایت محنت مزدوری کر کے پاکستان کی ایک ایک اینٹ رکھ کر ملک بنایا ہے، اس لئے ملک کی سب سے فکر بھی ان کو ہی ہے مگر آج وہ کہاں ہیں۔ چوہدری صاحب اپنے بیٹے ڈان ارسلان افتخار کے ساتھ برطانیہ کی ٹھنڈی فضاؤں میں ہم بیوقوفوں پر ہنس رہے ہوں گے۔ ثاقب نثار بھی شاید امریکہ میں اپنے بیٹے یا بیٹی کے ساتھ چین کی زندگی گزار رہے ہوں گے لیکن غدار وہ ہیں جن کی پچھلی اور اگلی نسلیں اسی سرزمین پر رہتی آ رہی ہیں۔

گزشتہ پچیس سال کے آرمی چیف کی بات کریں تو آپ کو ایک بھی پاکستان میں رہتا نظر نہیں آئے گا، سب امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا سے سعودی عرب تک بسے نظر آئیں گے جبکہ سابق آئی ایس آئی چیف جنرل پاشا نے ریٹائرمنٹ کے فوری بعد ہی متحدہ عرب امارات کو اپنا وطن بنایا حالانکہ یہی صاحب ملک میں اپنی من پسند سیاسی جماعت کو اقتدار میں لانے کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ کم از کم اپنے پسندیدہ حکمران جس کو ہر جائز ناجائز طریقے سے اقتدار فراہم کیا، اس کی حکومت میں کچھ عرصہ رہتے تو سہی۔ یہ سب شخصیات اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے تو اپنی شان کے لئے کچھ بھی کر سکتے تھے۔
اپنی غلطیاں چھپانے کے لئے قانون سازی کی جاتی رہی ہے اور پاکستان میں رہنے والوں کو ان سے اختیارات سے تجاوز کرنے پر سوال کرنے سے روکنے کے لئے سزائیں مقرر کی جا رہی ہیں لیکن وہ خود کل کہاں ہوں گے؟ امریکہ، برطانیہ یا دوبئی۔

جنرل عاصم باجوہ کی مثال لے لیں، کل تک ہر ایک پاکستانی شہری کو غدار اور ایجنٹ کے القابات دیتے رہے جبکہ اپنے بچے امریکہ بھیج دیئے لیکن ان غداروں کے بچے آج بھی پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ ان کی سرمایہ کاری بھی یہیں ہے اور جینا مرنا بھی یہیں ہے جبکہ عاصم باجوہ صاحب کی سرمایہ کاری امریکہ میں مگر عہدے پاکستان میں ہیں لیکن ان سے سوال کرو تو ان کا مورال ڈاؤن ہونے شروع ہو جاتا ہے۔ مورال نا ہوا بلڈ پریشر ہو گیا کہ چوری پکڑے جانے پر کم ہو جاتا ہے۔ جب ان لوگوں نے پاکستان میں رہنا ہی نہیں ہوتا تو پھر یہ لوگ اپنی مرضی اور پسند کے قوانین ہم پر کیوں تھونپتے ہیں؟

ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہماری ملکی پالیسی پردیسی بناتے ہیں جنہیں معلوم ہوتا ہے کہ نا ہی انہوں نے اس ملک میں رہنا ہے اور نا ہی ہماری اگلی نسلوں نے، اس لئے انہیں پالیسی بناتے وقت ملک یا قوم کی بھلائی عزیز ہی نہیں ہوتی۔ ملک میں امیر ممالک کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے فرقہ واریت پھیلائی جاتی ہے۔ فرقہ وارانہ انتہا پسند تنظیموں کی حمایت کی جاتی ہے، انہیں سرکاری وسائل پر طاقتور بنایا جاتا ہے کیونکہ انہیں علم ہوتا ہے کہ ہمارے بچے تو یہاں رہتے ہی نہیں ہیں کہ انہیں ان شرپسند عناصر سے کوئی خطرہ ہو، یہ تو ان کا مسئلہ ہے جنہوں نے اس ملک میں رہنا ہے کیونکہ ہم تو اس منصوبے کو کامیاب بنانے کی اجرت لے کر امریکہ میں بچوں کے ساتھ محفوظ زندگی گزار رہے ہوں گے۔ یہ پردیسی طبقہ جب تک ہمارے ملک پر قابض رہے گا، ملک میں بہتری آنے کے امکانات صفر ہیں۔ یہ طبقہ ہٹے گا تب ہی ملک کی بہتری کے لئے کچھ اچھا ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں