اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کی بڑھتی قربتیں…! (حاجی محمد لطیف کھوکھر)

اسرائیل کے غاصبانہ قیام کے بعد متحدہ عرب امارات تیسرا عرب ملک بن گیا ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات باضابطہ طورپر قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔نیز یہ خلیج کی چھ عرب ریاستوں میں پہلا ملک ہے جس نے ایسا اقدام اٹھایا ہے یہ فیصلہ اچانک یا عجلت میں ہرگز نہیں کیا گیا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین خفیہ سفارتی و دفاعی تعلقات برسوں سے قائم چلے آرہے تھے بس ان تعلقات کا اعلان آج کیا گیا ہے اس اعلان سے سب سے زیادہ نقصان فلسطینیوں کو ہوگاکیونکہ اِس معاہدہ میں فلسطین کے لئے کچھ بھی موجود نہیں ہے، سوائے اس کے کہ ان پر اسرائیل کی جانب سے ہونے والے منظم ظلم و ستم میں کچھ مزید اضافہ کردیاجائے یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس معاہدہ کے ثمرات کے نتیجہ میں متحدہ عرب امارات کی حکومت کو کیا کچھ حاصل ہوگا؟ جیسا کہ اِس معاہدہ کے بعد متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے ترجمانوں کی جانب سے بڑھ چڑھ کر بلند وبانگ دعوے کیئے جارہے ہیں ۔ جبکہ اسرائیل کا ماضی تو یہ بتاتا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ولی عہد اور حقیقی طور پر حکمرانی کرنے والے شیخ محمد بن زید کے لئے یہ معاہدہ ایک جوئے سے کم نہیں ہے ، سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل جس طرح مصر اور ترکی کے ساتھ اپنے کئے گئے معاہدوں سے مکر گیا تھااگر ایسی ہی کوئی ملتی جلتی صورت حال متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی اختیار کرنے کی کوشش کی گئی اور اسرائیلی وزیر اعظم یتن یاہومعاہدہ میں درج اہم ترین شرط جیسے مغربی کنارے کو مزید الحاق نہ کرنے کے وعدے سے مکر گئے تو اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی یہ”سیاسی حرکت” اماراتی شیخ کے لیے کس حد تک شرمناک ہوگی ،اس کا فی الحال انداز ہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ حقیقت تو یہی ہے کہ اسرائیل اپنے قیام کے بعد ہی مسلسل فلسطینی زمینوں پر قبضے اور یہودی بستیاں آباد کرتا چلا آرہا ہے اور دنیا بھر سے یہودیوں کو ان بستیوں میں آباد اور ان فلسطینی اراضی پر سربلند دیواریں اور آہنی تاریں اور حفاظتی ٹاور بنا کر انہیں محفوظ کیا جارہا ہے جبکہ اسرائیلی بستیوں کے لئے سینکڑوں سالوں سے مقیم فلسطینیوں کے گھروں، دکانوں اور آبادیوں کو زبردستی بلڈوز کیا جاتا ہے اور انہیں شدید جانی و مالی مشکلات کاسامنا رہتا ہے جبکہ مسمار گھروں کے ملبہ پر بیٹھے لاچار فلسطینی گھرانوں کی تصاویر بھی شائع ہوتی رہتی ہیں۔ غزہ، غرب اردن کی بستیوں پر یہ قیامت ڈھائی جا رہی ہے اور اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کو گزشتہ ساٹھ ستر سال میں لگام نہیں دی جاسکی۔ متعدد ذرائع کے مطابق متحدہ عرب امارات کی عوام میں بھی اِس فیصلہ کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتاہے اب وہ الگ بات ہے کہ یو اے ای کی عوام اس طرح سے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار نہیں کرسکتے جس طرح کی سہولت دیگر ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کو حاصل ہے ، یاد رہے کہ گزشتہ کئی برس سے متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کی خفیہ تنظیم موساد کے ساتھ مل کر اپنے شہریوں کی جاسوسی کیلئے زبردست قسم کا نظام تشکیل دیا ہوا جس کی مدد سے اسرائیل دشمن خیالات کا اظہار کرنے والوں کی کڑی چھان بین کی جاتی ہے اور اکثر بیشتر انہیں گرفتار کرکے سخت سے سخت سزائیں بھی دے دی جاتی ہیں لیکن ان تمام تر حفاظتی انتظام کے باوجود بھی متحدہ عرب امارات کی سرکار کو خدشہ ہے کہ اسرائیل نواز پالیسیوں کے خلاف ان کی عوام کے اذہان میں ایک لاوا پک رہا ہے جوکسی بھی وقت آتش فشاں پہاڑ کی طرح پھٹ کر سب کچھ اپنے ساتھ بہاکر لے جاسکتاہے ۔اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں سفارتی اعتبار سے مضبوط کرنے میں جہاں امریکہ کا ہاتھ موجود ہے وہاں مشرق وسطیٰ کی موجودہ معاشی صورتحال بھی اسے اسرائیل کے قریب لانے پر مجبور کررہی ہے جبکہ دوسری جانب یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان پائی جانے والی ”پراکسی وار”بھی اسرائیل کو غیر معمولی فائدہ پہنچارہی ہے ،بلا شبہ اس وقت امریکہ کا مشرق وسطیٰ کی سیاسی و معاشی صورتحال پر مکمل کنٹرول ہے اور ایسے میںمشرق وسطیٰ کے حوالے سے امریکہ کا نام نہاد ”امن منصوبہ ” اسرائیل کو کس قدر سفارتی تقویت فراہم کرسکتا ہے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے جبکہ امریکی حلقوں بالخصوص اسرائیلی میڈیا کے حوالے سے یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ عرب ممالک میں سے ممکنہ طور پر” بحرین ” وہ اگلا ملک ہوگا جو اسرائیل کو تسلیم کرنے جارہا ہے لیکن ان خبروں میں کتنی صداقت ہے اس بارے میں فی الوقت کچھ نہیں کہا جاسکتا تاہم اس حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ کے داماد اور وائٹ ہائوس کے مشیر جیرڈ کشنر دعویٰ کررہے ہیں کہ عرب ممالک کی ایک قطار ہے جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں، معاملہ کچھ یوں ہے کہ اگلے برس مارچ میں اسرائیل میں نئے انتخابات ہونے جارہے ہیںاور ان انتخابات میں اسرائیل کے موجودہ وزیر اعظم نیتن یاہو کو ممکنہ طور پر کامیابی دلانے کے لئے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے تاکہ اسرائیل کی مشرق وسطیٰ میں بالا دستی قائم کرنے کے امریکی منصوبے کا تسلسل قائم رکھا جاسکے اب ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عرب ممالک ایک ایک کرکے اسرائیل کو تسلیم کرلیتے ہیںتو ایسے میں دیگر اسلامی ممالک کہاں کھڑے ہوں گے جبکہ فلسطینی ریاست کا تحفظ اور بیت المقدس کی آزادی کا فلسفہ ہر ایک مسلمان کے جذبہ ایمانی کا خاصہ ہے ۔ اسرائیل سپر پاور امریکہ کے دبائو کے ذریعے عرب علاقوں پر اپنے موجودہ غاصبانہ قبضے کو عرب حکمرانوں سے تسلیم کروا رہا ہے جیسے ہی اس نے یہ ہدف حاصل کر لیا تو پھر گریٹراسرائیل کا قیام اس کے لئے شاید کوئی مشکل کام نہ رہے۔دور حاضر میں امت مسلمہ کا اصل مسئلہ بلکہ المیہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایسا جاندار اور مئوثر ادارہ یا فورم موجود نہیں جو مسلمانوں کے دلی جذبات کی صحیح ترجمانی کا حق ادا کرتے ہوئے باطل قوتوں کا سامنا کر سکے۔ بعض عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں اپنی عوام کی شدید مخالفت کا خوف ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی جھولی میں بیٹھ کر یہ سارا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں