مسیحا انسانیت حضرت محمد عربیۖ اور ریاست مدینہ (شیخ نسیم زاہدی)

”اے محبوب ۖ ہم نے آپ کا ذکر آپکے لیے بلند کردیا ۔القرآن”رب تعالیٰ نے جناب حضرت رسولۖ کو سارے جہانوں،سارے زمانوں اور سارے انسانوں کے مسیحا انسانیت بناکر بھیجا ،بے شک آپ سارے جہانوں،سارے زمانوں اور سارے انسانوں کے لئے مجسمہ رحمت ہیں۔تاریخ انسانی کے اندر آپ ۖسے اعلیٰ وارفع،سراپا اخلاق،پارسا اور برگذیدہ کسی انسان نے جنم ہی نہیں لیا ۔آپ ۖکی ساری زندگی اول تا آخر خالص تاریخی زندگی ہے ،کہیں قیاس یاروایت یا خوش اعتقادی یا شک وشبہ کی گنجائش نہیں ۔دنیا کے بڑے آدمیوں کے حالات چھپے ہوئے ہیں اور بعض کے متعلق تو یہ شک ہے کہ وہ ہوئے بھی ہیں یا کہ نہیں لیکن آپ ۖ کی زندگی کا ہر ایک صفحہ روز روشن کی طرح چمک دار ہے ۔زندگی کے واقعات ایک طرف ،آپۖکے اقوال ،حرکات ،مزاج اور خیالات غرض کہ چھوٹی چھوٹی باتیں تک محفوظ ہیں۔آپ ۖ وہ مذہبی،سیاسی ،علمی،سماجی اور ادبی شخصیت ہیں جن کے متعلق کوئی شبہ نہیں ہوسکتا۔محمدرسول اللہۖجب مبعوث ہوئے تو مکہ میں تن تنہا تھے حضرت رسول عربیۖ کے پاس اللہ تعالیٰ کی نصرت اور بے سروسامان ارادوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔کوئی فوج نہیں تھی ۔کوئی پولیس نہیں تھی ۔کوئی سیاسی پارٹی نہیں تھی ۔حمایتیوں کا کوئی جتھا نہیں تھا ۔آپ ۖ کے قبیلے والے بھی آپ کے ہمنوا نہیں تھے حتیٰ کہ آپ ۖ پر جان چھڑکنے والے شفیق چچا بھی آپ ۖ کی دعوت پر ایمان لانے کو تیار نہیں تھے ۔ ایسی سرد سنسان تنہائی میں آپ ۖ صرف اللہ تعالیٰ پر ناقابل تسخیر ایمان اور اپنے عظیم کردار کے بل بوتے پر اٹھے اور محض 23برس کی مدت میں آپ ۖ نے کفر ،شر ،بدعت ،تو ہمات اوت تعصبات سمیت سارے جاہلانہ رویوں اور روایتوں کے سفینے ڈبو دیے۔آپ ۖ نے اونٹوں کے چرواہوں کا تزکیہ نفس کیا ۔انکی انفرادی اور اجتماعی زندگی بدلی اور انہیں ایک موحد ،منظم ،مہذب اور انقلابی قوم بنادیا دیا جو ساری دنیا میں سب سے زیادہ ممتاز اور محترم قوم کی حیثیت اختیار کر گئی ۔پھر آپ ۖ نے اپنی بصیرت سے ایسی ماڈل اسلامی حکومت قائم کر دکھائی جس کی قیامت تک مثال نہیں ملے گی ۔جس میںمسلمان تو مسلمان غیر مسلم شہری بھی پوری طرح آزاد تھے ۔انہیں باوقار زندگی کے تمام حقوق حاصل تھے اور وہ اسلام کے زیر سایہ جان ،مال اور آبرو کے تحفظ کے ساتھ نہایت امن اور سکون کی زندگی بسر کرتے تھے ۔رسول کریم ۖ نے ایک پست قوم کو خاک سے اٹھا کر افلاک کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔رسول کریم ۖ نے افراد کی تہذیب وتربیت اور فلاحی معاشرے کی تاسیس وتشکیل کے لیے جن اصولوں کو بنیاد بنایا وہ ہی تھے جو خود آپ ۖ کی سیرت مطہرہ کا جوہر تھے ۔یہ اصول وآداب درج ذیل ہیں 1۔اللہ ہی الٰہ واحد ہے ۔وہی ملجا وماویٰ ہے ۔تمام امور ومعاملات میں اسی کی طرف رجوع کیا جائے گا۔2۔محمد ۖ اللہ کے آخری رسول ہیں ۔پوری نوعِ انسانی کی ہدایت انہی کے اسوہ حسنہ کی پیروی میں مضمر ہے ۔انکی سیرت کا ہر پہلو کا میابی اور سرفرازی کی معراج ہے۔3۔قرآن کا دائرہ کار قرآن واسنت کے اصول و ضوابط تک محدود ہے۔4۔عقل وخرد کی موشگافیوں کے کے مقابلے میں شریعت محمدی ۖ ہی قابل ترجیح ہے ۔جس سے فطرت کے مقاصد کی نگہبانی ہوتی ہے ۔5۔سرکشی اور جہالت کے مقابلے میں علم وبصیرت کو رہنما بنایا جائے گا جس کی بدولت اخلاقی اقدار پروان چڑھتی ہیں ۔6۔سفاکی اور چالاکی کے مقابلے میں عدل وانصاف کا پرچم بلند رکھا جائے گا جس کی بدولت امن اور آشتی کا معاشرہ قائم ہوتا ہے ۔7۔حرص اور ہوس پرستی کے مقابلے میں رزق حلال کے لیے محنت کے دروازے کھولے جائیں گے جن کی بدولت استغنا کا درجہ حاصل ہوتا اور انسانی حقوق کا بول بالا ہوتا ہے ۔8۔غربت وافلاس کے خاتمے کے لیے وصولی زکوة کا نظام قائم کیا جائے گا ۔زکوة اسلامی اقتصادیات کی اساس ہے ۔اس کی بدولت اسلامی اخوت اور انسانی ہمدری کے اعلیٰ اوصاف پیدا ہوتے ہیں ۔9۔افتراق وانتشار کے اسباب ختم کرکے اجتماعیت کو فروغ دیا جائے گا جس کی بدولت فرد اور معاشرے کو استحکام نصیب ہوتا ہے ۔ نظام حکومت چلانے کے لیے آئین اور قوانین کا نفاذ ،حکمران بے لاگ انتخاب ،مستعد انتظامیہ ،دفاع عدلیہ ،نظام مالیات ،تعلیم او ر صحت عامہ کے لیے ماہر افسران اور اہلکاروں کا انتخاب شرط لازم کی حیثیت رکھتا ہے ۔حضرت رسول کریم ۖ نے ان تمام شعبوں کے لیے جامع اصول و ضوابط وضع فرمائے ۔اس طرح جو سلطنت معرض وجود میں آئی تاریخ بتاتی ہے کہ اسکی معنوی آفاقیت کی وجہ پوری دنیا اس کی شیدائی بن گئی ۔اسلامی سلطنت یا خلافت کی نمایاں خوبیاں درج ذیل ہیں ۔حکم الٰہی کا نفاذ ،شعائر اسلام کی حرمت ،نظام میں اجتماعیت ،نفاذ قانون میں برابری ،خواتین کے حقوق کی حفاظت اور انکی تعظیم وتکریم ،غلاموں کے حقوق کی پاسداری،بڑوں کی عزت ،بچوں پر شفقت دوستوں سے مودت ،دشمنوں سے مروت ۔غریبوں سے معاونت ،امیروں کی خیرخواہی ،اہل خانہ سے حسن سلوک ،ایثار میں سبقت ،محبت میں خلوص ،انکسار میں عزیمت ،احسان میں پردہ داری ،ارادوں میں پختگی ،معاملات میں صدق ووفااور نرمی ،عدل و انصاف کی ترویج ،امن واستحکام میں سبقت ،شرف انسانی کی تعظیم اور حفاظت ،افراد کی اسلامی تربیت ،حقوق وفرائض کی ادائیگی میں وفا شعاری ،خیالات میں حسن ظن اور رواداری ،ناگو ار معاملے پر بردباری ،جنگ وجدل میں اور عصبیت کا خاتمہ ،ثقافت میں دینی اقدار کا نور ،تعلقات عامہ میں محبت اور خلوص کی آبیاری ،سیاست میں سچائی ،اقتصادی ومعاش میں میانہ روی ،معاہدات میں ایفائے عہد کی پاسداری ،عبادت وریاضت میں اعتدال ،سیادت میں خدمت ودرد مندی ،ضیافت میں فیاضی ۔یہ تھی ریاست مدینہ ۖ ایک فلاحی اسلامی ریاست جس میں انسان تو انسان جانوروں کے بھی حقوق تھے ۔اگر ہم حقوق انسانی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں یقینا نظر آئے گا کہ اسلام سے پہلے انسان ظلم اور تاریخی میں ڈوبا ہوا تھا ،حق و انصاف کا وجود ہی نہیں تھا ۔سابقہ قوانین سے یہ بات واضح طور پر عیاں ہے کہ اُس زمانے میں حق ”طاقت” کا نام تھا ،اس لیے ہر طاقتور ہر قسم کے حقوق کا مالک ہوتا تھا اور کمزور کے سارے حقوق طاقتور کے مباح ہوتے تھے ۔انسان کو آزادی حاصل نہ تھی ،بلکہ اس زمانے میں ”غلامی کا قانون”مشہور ومعروف تھا ۔اسی طرح کاروبار کی کوئی ضمانت نہ تھی ،عورتوں کے حقوق پامال ہورہے تھے ۔معاشرے میں انکا کوئی مقام نہ تھا ۔آج ہم انسانی معاشرے کے ان پہلوئوں اور مسائل پر روشنی ڈالیں گے جن کے بارے میں اسلام کی نہایت غلط تعبیر وتشریح کی جارہی ہے اور فی زمانہ یہ موضوعات پوری دنیا میں زیر بحث ہیں ۔اسلام چودہ صدیاں قبل بنی نوع انسان رشد وہدایت دینے کے لیے آیا اور مسیحا انسانیت جنا ب حضرت رسول عربی ۖ کو معبوث فرمایا گیا لیکن آج بھی مسیحا انسانیت جناب حضرت رسول کریم ۖ کا اسوئہ حسنہ تمام دنیا کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے ۔انفرادی اور اجتماعی سطح پر انسانی زندگی کے ہر پہلو میں کئی گنا تبدیلی آنے کے باوجود آپ ۖ کے سوا ء کسی اور شخصیت کی زندگی نمونہ حیات ہے نہ اسلام کے سوا ء کوئی مذہب کامل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں