ایران اور ترکی اتحاد۔۔۔دشمن کی نظر میں…!(ساجد خان)

گزشتہ ہفتے اسرائیل کی مشہور اخبار “دی یروشلم پوسٹ” نے ترکی اور ایران کی قربت پر ایک تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ دونوں ممالک مختصر عرصے میں نہایت تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آتے نظر آ رہے ہیں جبکہ اس اتحاد سے شیعہ سنی اختلاف ایک افسانہ محسوس ہو رہا ہے۔ مزید لکھتے ہوئے کہا کہ ایران اور ترکی اتحاد ایک قدرتی نظر آتا ہے کیونکہ ان دونوں ممالک کے مفادات کافی حد تک مشترکہ ہیں۔

دونوں ممالک ہی غیر عرب ہیں،کرد قوم کے معاملے پر ان کا موقف ایک ہی ہے،دونوں ممالک چاہتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ سے امریکی اثر و رسوخ ختم کیا جائے اور دونوں ممالک کے دشمن سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہیں جبکہ حماس اور اخوان المسلمین کی حمایت پر بھی دونوں ایک ہی پلیٹ فارم پر نظر آتے ہیں۔

ترکی کی خواہش ہے کہ اس کا لبنان میں اثر و رسوخ قائم ہو اور سعودی اثر و رسوخ کم کیا جائے جبکہ ایران کا پہلے ہی لبنان میں مضبوط اثر و رسوخ قائم ہے لہذا وہ چاہ رہا ہے کہ سعودی عرب کی جگہ ترکی کو لبنان میں متعارف کروایا جائے۔

اردگان ایک زمانے میں سعودی بلاک کا اہم ممبر تھا اور عرب حکمرانوں نے ترکی میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی تھی لیکن جلد ہی اردگان کو احساس ہونا شروع ہوا کہ عرب حکمران دوستی کے بجائے غلامی کی پالیسی پر عمل کرتے ہیں لہذا اس نے دوری اختیار کرنا شروع کر دی جس سے اختلافات بڑھتے چلے گئے۔

ترک ایران کی خبر جہاں مسلم امہ کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا ہے وہیں مسلم امہ کے پرانے ٹھیکیدار بلاک کے لئے خطرے کی گھنٹی بھی ہے اور وہ اس بلاک کو کمزور کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے نظر آ رہے ہیں۔

اسرائیلی اخبار کے تجزیہ میں جو اہم بات کی گئی،وہ یہ تھی کہ جب سے دونوں ممالک قریب آنا شروع ہوئے ہیں مسلم امہ میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل و غارتگری انتہائی کم ہوئی ہے۔
اس بات میں حقیقت ہے کہ جوں ہی ترکی نے سعودی بلاک سے رشتہ ختم کیا ہے،شام اور عراق میں بدامنی کافی حد تک کم ہوئی ہے گو کہ شام کے کچھ علاقوں پر ترکی اور ایران میں اختلاف موجود ہے مگر اسے طاقت اور خون خرابے سے ختم کرنے کے بجائے مذاکرات کے ذریعے ختم کرنے پر بھی اتفاق ہے۔

یہ ایک نہایت اچھی کاوش ہے کیونکہ امت مسلمہ میں اہل تشیع کی تعداد پچیس سے تیس کروڑ تک ہے اور اتنے بڑے طبقے کو آپ نظر انداز کر کے آگے نہیں بڑھ سکتے بلکہ صرف تباہی ہی مستقبل ہو گا،اس لئے دونوں بڑے طبقوں کا اختلاف کے باوجود متحد ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اب اس سوال کا جواب کہ جب دوسرے مسلم ممالک میں شیعہ سنی اختلاف کم ہوا ہے تو پھر پاکستان میں تیزی کیوں آ رہی ہے۔

اس کے لئے آپ کو پاکستان میں سعودی سفیر کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
سعودی وزارت خارجہ نے حال ہی میں پاکستان میں تعینات سفیر نواف بن سعید المالکی کو سب سے متحرک سفیر کے اعزاز سے نوازا ہے۔ اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کی سرگرمیاں کس حوالے سے ہوں گی کیونکہ اس کے نتائج آپ کے سامنے آ چکے ہیں۔

پاکستان کی شدید خواہش ہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے ترک ایران بلاک میں شامل ہو جائے مگر پاکستان میں سعودی لابی اس قدر مضبوط ہے کہ وہ اس پالیسی کو ناکام کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

دوسری طرف چین بھی پاکستان کے موجودہ حالات سے خوش نہیں ہے اور وہ پاکستان میں انتہا پسندی کا خاتمہ چاہتا ہے کیونکہ وہ پاکستان کو کاروباری نظر سے دیکھتا ہے اور کاروبار میں انتہا پسندی کی ہرگز گنجائش نہیں ہوتی بلکہ پہلی شرط ہی امن ہوتا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی بار شدید خواہش پیدا ہوتی نظر آ رہی ہے کہ ریاست غلامی سے نجات حاصل کر کے ایک آزاد ملک بن جائے مگر پاکستان کی اہمیت کے پیش نظر کوئی بھی اسے اتنی آسانی سے ہاتھ سے نہیں جانے دے گا۔
امریکہ کے موجودہ حالات میں دو بڑے دشمن ہیں،چین اور ایران۔

سعودی عرب کا سب سے بڑا دشمن ایران ہے۔
آپ اسے بدقسمتی کہیں یا خوش قسمتی کہ دونوں ممالک کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں،اس لئے امریکہ اور سعودی عرب کی شدید خواہش ہے کہ وہ اپنی اجارہ داری کی جنگ براستہ پاکستان لڑیں۔

جو کہ اب ناممکن نظر آ رہا ہے کیونکہ موجودہ قیادت چالیس سال پہلے کی غلطی دہرانے کے ہرگز حق میں نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لئے ملک میں حالات خراب کئے جا رہے ہیں اور اب یہ جنگ لڑنا بہت تک ناممکن نظر آتی ہے کیونکہ اگر ایران کمزور ہوا تو اس میں سب سے پہلے مضبوط شورش بلوچ اور کرد اکثریتی علاقوں میں شروع ہو گی،جس کا براہ راست اثر پاکستان کے بلوچستان پر پڑے گا۔
دوسری طرف پاکستان نے اور چین نے بلوچستان کو ایک کاروباری مرکز بنانے کا خواب دیکھ رہا ہے،اس لئے کوئی بھی ملک بلوچستان میں حالات خراب ہونے کی طرف جانے کا رسک نہیں لے سکتا۔
پاکستانی قوم کو بھی موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھنا ہو گا کہ وہ کس اتحاد میں جانا چاہتے ہیں۔

اس بلاک میں جہاں ہمیں گزشتہ چار دہائیوں سے سوائے انتہا پسندی اور خون خرابے کے کچھ نہیں ملا یا اس اتحاد کی طرف جہاں عقائد کے اختلافات کے باوجود ایک امت کی طرح رہنے کا سلیقہ سکھایا جا رہا ہے۔

اگر پاکستانی قوم پاکستان اور مسلم امہ کو یکجا دیکھنا چاہتی ہے تو اسے اس مسئلہ پر یکجا ہو کر فیصلہ کرنا ہو گا کہ ملک میں جاری حالیہ کشیدگی میں کس کے ساتھ کھڑے ہونا ہے،فرقہ وارانہ اختلافات بڑھانے والوں کے ساتھ یا ختم کرنے والوں کے ساتھ۔

جب تک ہم بحیثیت قوم اپنے واضح مؤقف کے ساتھ ریاست کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے تب تک پاکستان یوں ہی غلامی کی زندگی گزارتا رہے گا۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں