امریکہ انتخابات اور خانہ جنگی کے منڈلاتے بادل…! (ساجد خان)

گزشتہ امریکی انتخابات کے بعد میں نے ان شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا کہ امریکہ میں اگر مستقبل قریب میں خانہ جنگی نا بھی ہوئی تب بھی قوم میں اس حد تک واضح تقسیم ہو جائے گی جو برصغیر میں 1947 سے قبل مسلمان اور ہندو قوم میں تھی۔

جب حالات اس نہج پر پہنچ جائیں تو پھر صرف کسی ایک واقعہ کے رونما ہونے کا انتظار ہوتا ہے کہ کب یہ آتش فشاں پھٹ جائے۔

آج اگر ہم امریکہ کے حالات پر نظر ڈالیں تو ہمیں ایسے حالات پیدا ہوتے نظر آتے ہیں۔

سفید فام طبقہ اپنے علاوہ کسی دوسرے شہری کو دیکھنا بھی برداشت نہیں کر رہا۔
گزشتہ دو برسوں میں امریکہ میں شہریوں کی جانب سے اسلحہ خریدنے کا ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

سفید فام طبقہ گروہوں کی صورت میں مسلح ہو کر سڑکوں پر آزادانہ مارچ کرتا نظر آتا ہے اور مخالفین کو دھمکا رہا ہے۔
دوسری طرف سیاہ فام طبقہ بھی گروہ کی شکل میں مسلح ہو کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہے یعنی کہ جنگ کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں بس جنگ کے لئے طبل بجنے کا انتظار کیا جا رہا ہے اور یہ حالات، عدم تحفظ کا احساس ٹرمپ دور حکومت میں دیکھنے میں آیا ہے۔ امریکی میڈیا اور تجزیہ کار بھی موجودہ حالات کو خانہ جنگی کی طرف اشارہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔

میری نظر میں اس سال کے آخر میں ہونے والے انتخابات امریکی تاریخ کے بالکل مختلف اور انتہائی اہم ہوں گے جہاں مخالف جماعت سے اختلاف کے بجائے نفرت ہو گی اور انتخابی نظام پر مکمل طور پر عدم اعتماد ہو گا۔

اس سال انتخابی مہم کا آغاز ہوتے ہی دونوں جانب سے نفرت میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سفید انتہا پسند افراد کی مکمل حمایت کرتے نظر آ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام افراد کے مارے جانے کے واقعات میں بھی افسوس ناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

حال ہی میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں اپنے حمایتیوں کو انتخابات کے دوران دو مرتبہ ووٹ ڈالنے پر زور دیا ہے یعنی دوسرے لفظوں میں دھاندلی کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،جس کے بعد اس بیان پر سخت عوامی ردعمل آنے کے بعد ٹویٹر نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے اس متنازعہ ٹویٹ پر فلیگ چسپاں کر دیا ہے۔

ان بیانات سے واضح نظر آ رہا ہے ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست کا خوف ہے تبھی وہ کسی بھی حالت میں دوبارہ منتخب ہونا چاہتا ہے۔

دوسری طرف مخالف امیدوار جو بائڈن بھی نہایت خوبصورتی سے مہم کو آگے بڑھا رہا ہے اور اس مہم میں زیادہ تر زور ٹرمپ حکومت کی کرونا وائرس سے نبٹنے کی کمزور پالیسی اور ہلاک شدگان فوجی اہلکاروں کے خلاف ہرزہ سرائی کو زیادہ نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ گزشتہ انتخابات کی طرح اس مرتبہ بھی خواتین کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ پر جنسی ہراسانی کے الزامات سامنے آ رہے ہیں۔

جس سے ٹرمپ ٹیم کافی پریشان نظر آ رہی ہے اور اس وقت دفاعی پوزیشن پر صفائیاں پیش کرتی نظر آ رہی ہے۔
گزشتہ انتخابی مہم کے دوران بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں ہیلری کلنٹن کی پوزیشن زیادہ مضبوط نظر آ رہی تھی اور تجزیہ کاروں کی اکثریت ہیلری کلنٹن کو فیورٹ قرار دیتے نظر آ رہے تھے مگر اس دوران چند ایسے واقعات ہوئے جس سے ڈونلڈ ٹرمپ حیران کن طور پر فاتح قرار پایا۔

انتخابی مہم کے دوران ہیلری کلنٹن کا ای میل کے اکاؤنٹ ہیک ہونا اور انتہائی خفیہ معلومات کے سامنے آنے سے ہیلری کلنٹن کو سخت سیاسی نقصان پہنچا مگر اس کے فوراً بعد ہی ایف بی آئی کا انکوائری شروع کر کے ہیلری کلنٹن کی تفتیش کرنا بھی شکست کی ایک اہم وجہ تھی۔
ایف بی آئی کے ان اقدام کو امریکی دانشوروں نے منظم دھاندلی قرار دیتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ جب ریاستی ادارے متنازعہ ہونا شروع ہو جائیں تو وہ قوم کی تباہی کا آغاز ہوتا ہے،دانشور طبقہ کا مؤقف تھا کہ ایف بی آئی نے غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا اور بلواسطہ طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی ہے۔

ایک الزام یہ بھی تھا کہ ہیلری کلنٹن کا ای میل اکاؤنٹ روسی ہیکرز نے روسی حکومت کے ایما پر کیا تھا کیونکہ روس چاہتا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوں۔
الیکشن نتائج کے فوراً بعد ہی دھاندلی کے الزامات سامنے آنا شروع ہو گئے اور ایک بار پھر روس پر الزام عائد کیا گیا کہ اس نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو ہیک کر کے نتائج میں ردوبدل کی گئی۔جس کی تحقیقات بھی شروع ہوئی مگر ٹرمپ انتظامیہ کی مسلسل مداخلت کی وجہ سے تحقیقات کسی واضح نتیجے پر نا پہنچ سکی۔

ان انتخابات میں بھی ڈیموکریٹک امیدوار جو بائڈن کی پوزیشن بہتر نظر آ رہی ہے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ مہم سے بھی زیادہ کمزور نظر آ رہے ہیں،اس کے باوجود تجزیہ کار کوئی بھی حتمی فیصلہ دینے سے کترا رہے ہیں کیونکہ ان کے سامنے ماضی کی مثال موجود ہے اور کچھ خدشات بھی سامنے آ رہے ہیں جیسا کہ بذریعہ ڈاک ووٹ ڈالنے کے فیصلے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے محکمہ ڈاک میں بڑے پیمانے پر تقرر و تبادلے کئے جا رہے ہیں جبکہ دونوں جانب سے دھاندلی کے خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ ہر صورت میں دوبارہ منتخب ہونا چاہتا ہے اور اس کے لئے وہ کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کرے گا اور کسی بھی جماعت کی فتح پر دنگے فسادات شروع ہونے کے خدشات بھی ہیں۔
حال ہی میں متحدہ عرب امارات اور دوسرے مسلمان ممالک کی طرف سے اسرائیل سے تعلقات بحال کرنا بھی ٹرمپ کی انتخابی مہم کا حصہ ہے کیونکہ امریکی سیاست میں اسرائیل نواز یہودی لابی نہایت مضبوط ہے اور ہر امیدوار یہ کوشش کرتا ہے کہ ان کی خوشنودی حاصل کی جائے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی قوم کے سامنے خود کو ایک پرامن صدر کے طور پر بھی لانا چاہتا ہے کہ جس نے اپنے دور حکومت میں کوئی نئی جنگ شروع نہیں کی بلکہ دنیا میں امن و دوستی قائم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسرا دور حکومت جہاں امریکہ کے لئے خطرناک ہو گا وہیں دنیا کے لئے بھی خوفناک ثابت ہو گا کیونکہ اس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹرز کو خوش کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی اور وہ ہر وہ کام کر سکتا ہے جو اسے اچھا لگے گا بالکل اسی طرح جس طرح ہندوستانی وزیراعظم نریندرا مودی نے اپنے دوسرے دور حکومت کے آغاز میں ہی انتہائی سخت فیصلے کئے ہیں۔ جس میں کشمیر کی آزادی سلب کرنے اور اسے علیحدہ ریاست کے بجائے ہندوستان کا قانونی حصہ بنانے اور مسلمانوں کے خلاف متنازع قانون سازی کی گئی۔

ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنے دوسرے دور حکومت میں دنیا کے امن کے لئے اسی طرح خطرناک ہو گا لیکن بہت سے گروہوں کے لئے فائدہ مند بھی ثابت ہو گا خصوصاً روس،اسرائیل اور سعودی اتحاد کے لئے۔
اس لئے اس کو کامیاب بنانے کے لئے ایک بار پھر خفیہ ہاتھ متحرک ہو گئے ہیں۔
مائیکروسافٹ نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ روسی ہیکرز گزشتہ انتخابات کی طرح ایک دفعہ پھر متحرک ہو گئے ہیں اور وہ حالیہ انتخابات میں بھی مداخلت کر سکتے ہیں۔

اس طرح کے خدشات الیکشن ہارنے والی جماعت اپنے دفاع میں بھی استعمال کر کے نتائج ماننے سے انکار کر سکتی ہے،یہاں تک امریکہ میں اعلیٰ سطح پر یہ بحث ہوتی نظر آ رہی ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ نے شکست کے بعد نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تو اسے وائٹ ہاؤس سے کیسے بیدخل کریں گے۔

ان سب حالات و واقعات کے بعد یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ امریکہ میں بھی تیسری دنیا کے ممالک جیسی سیاست پیدا ہوتی جا رہی ہے جو امریکہ کو اندرونی طور پر کھوکھلا کرنے کے لئے کافی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ سویت یونین بن چکا ہے اور یہ تقسیم صرف کسی بڑے معاشی بحران کا انتظار کر رہی ہے۔

آپ کو یاد ہو گا کہ گزشتہ امریکی انتخابات کے دوران میں نے اکثر یہ بات کہی تھی کہ اگر پوری دنیا بھی امریکہ کے خلاف ہو جائے تب بھی اس کو کمزور نہیں کیا جا سکتا ہے اور اگر کوئی ملک امریکہ کو کمزور کر سکتا ہے تو وہ خود امریکہ ہے۔

میں نے تب بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کی تھی کیونکہ مجھے یقین تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کے لئے انتہائی موزوں شخص ہے لیکن یہیں میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسرا دور حکومت دنیا کے لئے تباہی ثابت ہو گا کیونکہ بدقسمتی سے دنیا کا طاقتور ملک امریکہ،مشرق وسطیٰ کا طاقتور ملک سعودی عرب اور برصغیر کا طاقتور ملک ہندوستان پر انتہائی مغرور،خود پسند اور جذباتی افراد کے ہاتھوں میں اقتدار آ گیا ہے اور یہ ٹرائیکا دنیا کے امن کے لئے نہایت خطرناک ہے۔

اس لئے میرا نظریہ یہی ہے کہ ڈیموکریٹک امیدوار جو بائڈن بھی اچھا نہیں ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ سے کم برا ضرور ہے،اس لئے اس کا جیتنا نہایت ضروری ہے ورنہ اگلے چار برسوں میں مشرق وسطیٰ کا نقشہ انتہائی خوفناک ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں