نواز شریف، اک لاڈلا باغی.! (ساجد خان)

گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی کی طرف سے منعقدہ اپوزیشن کانفرنس میں نواز شریف کی تقریر نے ملکی سیاست میں ہلچل سی مچا دی کیونکہ وہ تقریر ضرورت سے زیادہ ہی سخت تھی اور پہلی بار خلائی مخلوق اور محکمہ زراعت جیسے اشاروں کنایوں کے بجائے براہ راست ادارے کا نام لے کر تنقید کی گئی شاید نواز شریف کی شخصیت سے اس طرح کی تقریر غیر متوقع سمجھی جا رہی تھی۔ ایک تاثر یہ بھی ابھر کر سامنے آیا کہ شریف خاندان اب نظریاتی بلکہ مزاحمتی سیاست کو اپنانے جا رہا ہے، جس کے لئے کشتیاں جلائی جا رہی ہیں مگر میرے خیال میں جماعت اسلامی اور شریف خاندان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی کا لفظ لغت میں موجود ہی نہیں ہے۔

اس کا عملی ثبوت آئی ایس پی آر کے اس بیان سے سامنے آ گیا جس میں انکشاف کیا گیا کہ سابق گورنر سندھ محمد زبیر بطور نواز شریف کے نمائندے کے آرمی چیف سے دو مرتبہ خفیہ ملاقات کر چکے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ محمد زبیر نے آرمی چیف کو یہ کہہ کر ڈرانے کے لئے تو ملاقات نہیں کی ہو گی کہ اب تم میاں صاحب کے قہر سے نہیں بچ پاؤ گے بلکہ ہمیشہ کی طرح کچھ لے دے کی بات ہوئی ہو گی جو کہ یکسر مسترد کر دی گئی۔
میاں صاحب کی تقریر ایک ہارے ہوئے جواری کے الفاظ تھے کہ جن کی بظاہر کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔

ان کی تقریر دراصل اس لاڈلے بچے کی مانند ہے جو اپنی ضد پوری کرنے کے لئے باپ کو راضی کرنے کے لئے رونا دھونا بھی کرتا ہے، منت سماجت بھی کرتا ہے اور ساتھ میں گھر چھوڑنے کی دھمکی بھی دیتا ہے۔ آسان الفاظ میں بیان کیا جائے تو ایک ایسا شخص جس کا ایک ہاتھ کسی کے بالوں میں ہے جبکہ دوسرے ہاتھ سے گھٹنا پکڑ رکھا ہے کہ نجانے کون سا داؤ کام آ جائے۔

میاں صاحب اقتدار حاصل کرنے کے لئے اور اپنے روٹھے عاشق کو منانے کے لئے تمام حربے استعمال کر رہے ہیں، یہاں تک کہ اپنے عاشق کے رقیب کی محفل میں بیٹھ کر عاشق کی چغلیاں کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے مگر عاشق ہے کہ اس کا دل اب نئے معشوق پر آ گیا ہے جو کہ زیادہ تابعدار اور احسان مند ہے۔ میاں صاحب کو اگر شکوہ ہے تو اس بات کا ہے کہ ان کے ساتھ وہی کچھ کیوں ہو رہا ہے جو وہ خود دوسروں کے ساتھ کیا کرتے تھے۔

وہ کون سا الیکشن ہے جس میں انہوں نے اسی ادارے کی مرہون منت پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل نا کی ہو۔ وہ کون سی ایسی حکومت تھی کہ جس میں وہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے نادیدہ قوتوں کے ساتھ مل کر حکومت نہیں گرائی۔

پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں صدر اسحاق خان کے ساتھ سازش کے تحت حکومت ختم کی گئی لیکن پھر خود بھی اسی صدر کے ہاتھوں معزول ہوئے۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کے دوسرے دور حکومت میں ایک مرتبہ پھر صدر مملکت کے عہدے کو حکومت گرانے کے لئے استعمال کیا اور پھر خود بھی اسی صدر کے عتاب کا نشانہ بنتے بنتے بچ گئے صرف یہی نہیں بلکہ جس ادارے کی بدولت اقتدار حاصل کیا، بعد میں ان کے ساتھ رویہ بھی حاکمانہ ہو جاتا تھا، جس کی وجہ سے نوازشریف جس طرح اقتدار میں لائے گئے، ویسے ہی اقتدار سے ہٹائے بھی گئے۔

میاں نواز شریف آج اداروں کی سیاسی معاملات میں حد سے زیادہ مداخلت کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں لیکن اگر ماضی کے حقائق کی طرف نظر دوڑائی جائے تو ہمیں میاں نواز شریف ہی وہ شخصیت نظر آتے ہیں جنہوں نے اداروں کو سیاست میں سب سے زیادہ استعمال کیا۔ آج ان کو جمہوریت مضبوط کرنے کا خیال آ رہا ہے جبکہ اسے کمزور کرنے میں سب سے زیادہ ہاتھ بھی نواز شریف کا ہی ہے۔

ایک خفیہ ادارے سے سیاسی جماعتوں میں پیسے تقسیم کروا کر پیپلز پارٹی کے خلاف اپنے حق میں انتخابی اتحاد بنوانے کا معاملہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے یا کسی منتخب وزیراعظم کو عدالت سے نااہل کروانے کی بنیاد بھی انہی کی رکھی ہوئی ہے جب وہ یوسف رضا گیلانی کے خلاف کالا کوٹ پہن کر فخریہ انداز میں پیش ہوتے نظر آتے تھے۔

آج وہ سب کچھ نواز شریف کے ساتھ ہو رہا ہے تو انہیں جمہوریت کے خلاف سازش ہوتی نظر آ رہی ہے مگر کل جب یہی سب کچھ وہ خود کرتے تھے تو شاید تب ان کے نزدیک سیاست میں سب کچھ جائز ہوتا تھا۔ میاں محمد نواز شریف کبھی نظریاتی سیاست دان بن ہی نہیں سکتے کیونکہ ان کی سیاسی تربیت ایسی ہوئی ہی نہیں۔

آج اگر وہ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام ف کے ساتھ بیٹھے نظر آتے ہیں تو ان کا مقصد جمہوریت کو مضبوط کرنا نہیں ہے بلکہ سیاسی دباؤ پیدا کر کے ایک مرتبہ پھر اقتدار حاصل کرنے کی کوشش ہے اور جوں ہی انہیں امید کی کرن نظر آئی، وہ اپوزیشن کے سب سے بڑے مخالفین میں نظر آئیں گے۔ اپنے اہداف کے لئے دوسرے کا سہارا حاصل کرنے میں شریف خاندان انتہائی مہارت رکھتا ہے اور بعد میں اسے ہی نقصان پہنچانا بھی گویا واجب سمجھتے ہیں۔

جنرل مشرف کے دور میں شریف خاندان الیکشن لڑنا تو دور، پاکستان میں قدم رکھنے کی جرآت بھی نہیں کر سکتا تھا اگر پیپلز پارٹی شریف خاندان کو پاکستان آنے کے مطالبے سے دستبردار ہو جاتی لیکن اس کے فوراً بعد ہی شریف خاندان نے چوہدری افتخار کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف تحریک شروع کر دی۔ نواز شریف کی تقریر پر امید رکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں کیونکہ میاں صاحب تب تک “اِب مار کے دیکھ” کہتے رہیں گے جب تک ان کو اپنا نہیں لیا جاتا۔

اس لئے میری نظر میں ان تِلوں میں تیل کی امید رکھنا بیکار ہے اور دونوں بھائی good cop اور bad cop کی اداکاری کر کے اپنے ووٹرز کو محظوظ کرتے ہی رہیں گے۔ شریف خاندان کی سیاست میں اقتدار اور شریف خاندان لازم و ملزوم ہیں، اس کے علاوہ انہیں کچھ منظور نہیں ہوتا۔

جب تک اقتدار حاصل نہیں ہوتا،وہ لاڈلے باغی ہی بنے رہیں گے جبکہ پاکستان کا نظام ان کے اقتدار کے آنے کی صورت میں ٹھیک ہو گا ورنہ اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں