تم سب گستاخ ہو اور ہم سب واجب القتل ہیں (ساجد خان)

جب گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ممتاز قادری نے قتل کیا تو گویا ایک مسلک اچانک سے جلال میں آ گیا۔

اس واقعہ کے بعد وہ فرقہ جو ملک کا پرامن طبقہ سمجھا جاتا تھا تشدد پسند ہوتا چلا گیا۔

میں نے ممتاز قادری کے واقعے کے آغاز میں ہی کہا تھا کہ یہ گروہ ہمارے معاشرے کے لئے طالبان سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ہر شہر اور قصبے میں بلکہ ہر محلے اور گلی میں موجود ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ انہوں نے میری بات کو سچ ثابت کر کے دکھایا۔

تب میری فرینڈ لسٹ میں ایسے کچھ دوست شامل تھے جو ممتاز قادری کے معاملے پر بہت حد تک جذباتی ہو جایا کرتے تھے۔

میں ان کے ساتھ اکثر و بیشتر بحث مباحثے میں صرف ایک بات کہا کرتا تھا کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ ممتاز قادری غازی اور ہیرو ہے جبکہ سلمان تاثیر گستاخ تھا میں تمھارے اس نظریے کا احترام کرتا ہوں لیکن ایک کام کرو کہ سلمان تاثیر کو بیشک گستاخ کہو لیکن ممتاز قادری کو قوم کے سامنے ہیرو بنا کر پیش مت کرو کیونکہ جو تم لوگ کرنے جا رہے ہو ایک وقت آئے گا کہ تمھیں خود بھی ان حالات سے خوف آئے گا۔ وہ میری بات نا سمجھ سکے یا شاید میں ہی صحیح سے نا سمجھا سکا۔

بالی ووڈ کی ایک فلم تھی “رام جانے” جس میں شاہ رخ خان ایک غنڈہ بنا ہوتا ہے۔

وہ ایک طویل عرصے کے بعد اپنے آبائی علاقے میں واپس آتا ہے جہاں اس کے بچپن کے دوست نے ایک فلاحی ادارہ بنایا ہوتا ہے جس میں لاوارث بچوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔

شاہ رخ خان کے ٹپوری اسٹائل کو دیکھ کر بچے اس سے متاثر ہونے لگ جاتے ہیں اور اسی طرح کی زندگی اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فلم کے اختتام پر شاہ رخ خان کو پھانسی کی سزا سنا دی جاتی ہے اور پھانسی سے ایک روز قبل اس کا دوست اس سے ملاقات کرتا ہے اور اس کی منت سماجت کرتا ہے کہ جب تم پھانسی کے پھندے کی طرف جانے لگو تو بہادری اور اسٹائل مت دکھانا کیونکہ سب بچے تمھیں اپنا آئیڈیل مان رہے ہیں اور اس کے بعد وہ بھی تمھاری طرح غلط راستے پر چل پڑیں گے جبکہ میں انہیں ایک اچھا انسان بنانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ شاہ رخ خان اس کی التجا پر ہنسنے لگ جاتا ہے۔
اگلے دن جب اسے پھانسی کے لئے لے جایا جا رہا ہوتا ہے تو تمام بچے راستے میں کھڑے اس کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ ان کا ہیرو کس طرح دلیری سے موت کو گلے لگائے گا۔

جوں ہی شاہ رخ خان ان کے سامنے سے گذرنے لگتا ہے تو وہ فوراً گڑگڑانے لگ جاتا ہے کہ مجھے پھانسی مت دو۔

مجھ سے غلطی ہو گئی مجھے معاف کر دو۔
دوست اور بچوں کو کہتا ہے کہ وہ مجھے بچا لیں۔
چیختا اور چلاتا ہے لیکن جوں ہی وہ بچوں سے دور ہوتا ہے تو فوراً ہی ہنسنے لگ جاتا ہے اور دلیری کے ساتھ پھانسی چڑھ جاتا ہے لیکن دوسری طرف بچوں کے ذہن میں جو اس کا امیج بنا ہوا تھا وہ یہ سب دیکھ کر مایوس ہو جاتے ہیں اسے ایک بزدل انسان سمجھنے لگ جاتے ہیں ان کے دل میں جو اس کا مقدس بت بنا ہوا تھا وہ کرچی کرچی ہو جاتا ہے اور اس کے بعد دوبارہ اچھی زندگی گزارنے لگ جاتے ہیں۔

یہ دیکھنے میں ایک فلم کی کہانی ہے لیکن ہمارے معاشرے کے لئے ایک سبق تھا۔

ممتاز قادری کے معاملے پر بھی یہی غلطی کی گئی کہ ممتاز قادری کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا۔
جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر شخص ممتاز قادری بننے کا خواب دیکھنے لگ گیا بس کسی کو گستاخ قرار دینے کی کمی ہوتی تھی اور وہ غازی بننے میں دیر نہیں کرتا تھا۔

بہاولپور میں ایک طالب علم نے اپنے ہی پروفیسر کو گستاخ قرار دے کر قتل کر دیا حالانکہ اس معلم کے باقی طلباء گستاخی کے الزام کو غلط قرار دیتے رہے۔

پشاور میں خالد نامی نوجوان نے ایک قادیانی کو عدالت میں قتل کر دیا۔

ان دنوں وہ خود کو کم عمر ثابت کر کے سزا میں کمی کروانے کی تگ و دو کر رہا ہے۔

اس کے بعد ایک سیکیورٹی گارڈ نے ساتھی سیکیورٹی گارڈ کو مذہبی بحث کے دوران گستاخ قرار دے کر قتل کر دیا۔

کل ایک بینک میں تعینات سیکیورٹی گارڈ نے منیجر پر توہین رسالت کا الزام لگا کر قتل کر دیا جبکہ مقتول کی پروفائل سے وہ عاشق رسول اور ایک اچھا مسلمان ثابت ہوتا ہے۔

آپ نے بھی شاید ایک بات نوٹ کی ہو گی کہ جو شہرت اور عزت ممتاز قادری کو ملی،وہ بہاولپور کے غازی کو نہیں ملی اور جو عزت پشاور کے خالد غازی کو ملی تھی وہ خوشاب کے غازی کو بالکل بھی نہیں ملی۔

میرے بہت سے دوستوں نے خالد کی تصویر اپنی پروفائل پکچر لگائی تھی۔

میری ان کے ساتھ کئی دن تک بحث ہوتی رہی مگر وہ اپنے مؤقف پر قائم رہے لیکن آج وہی دوست سیکیورٹی گارڈ کے خلاف پوسٹس کرتے نظر آ رہے ہیں۔

چند ماہ میں ایسا کیا ہو گیا۔

کیا وہ اچھے مسلمان نہیں رہے یا ان کی نظر میں گستاخی جائز ہو گئی ؟

ایسا نہیں ہے وہ اب بھی اتنے ہی اچھے مسلمان ہیں جتنے کل تھے بس فرق یہ پڑا ہے کہ انہیں احساس ہونے لگ گیا ہے کہ اس معاملے کو لوگ اب ذاتی اختلافات میں بھی استعمال کرنے لگ گئے ہیں۔

یہ ہونا تھا بلکہ یہی کچھ ہونا تھا۔ کاش کہ تب ہم لوگ بھی اس فلم کے کردار کی طرح عقل استعمال کر لیتے اور معاشرے کے لئے مفت میں ہیرو بننے کا آسان راستہ ہموار نا کرتے تو شاید آج بہت سے مقتولین اور قاتلوں کی زندگیاں یوں برباد نا ہوتیں۔

آج ہر شخص خوشاب کے واقعہ پر حیرت زدہ ہے کہ ہم کس راستے پر چل پڑے اور پریشان ہے کہ اس سب کا انجام کیا ہو گا۔

سیکیورٹی گارڈ نے منیجر کی جو گستاخی بیان کی کہ اس کا عقیدہ تھا کہ انبیاء کرام کچھ طاقت نہیں رکھتے بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔

اب کوئی اسے بیشک گستاخی سمجھے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ مسلمانوں کے ایک فرقے کا یہ عقیدہ ہے اور فرقے بنتے ہی تب ہیں جب کسی کو کسی عقیدے سے اختلاف ہوتا ہے۔

اب ایک فرقے کے نزدیک یہ عقیدہ گستاخی سمجھا جاتا ہے جبکہ دوسرے فرقے کے مطابق توسل کا عقیدہ شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ اب اس طرح تو ہر شخص ہی دوسرے کے عقیدے کے مطابق گستاخ یا مشرک اور واجب القتل قرار پائے گا۔

کیا ہم سب ایک دوسرے کو مارنے کے لئے نکل پڑیں اور غازی بن جائیں؟

اب یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ ایک سیکیورٹی گارڈ کے پاس دین کا کتنا علم تھا کہ اسے محسوس ہوا کہ یہ عقیدہ گستاخی کے زمرے میں آتا ہے اور اس کی سزا موت ہے۔

کیا اب ہمارے معاشرے میں ہر شخص ہی مفتی اور مجتہد بن چکا ہے کہ وہ جب چاہتا ہے واجب القتل کا فتویٰ دے کر سزا بھی دے دیتا ہے۔
ہم کس راہ پر چل پڑے ہیں۔

مغرب جب ہمیں اسی بنیاد پر انتہا پسند قرار دیتا ہے تو اس میں ہمارا کردار بھی شامل ہے۔
یورپ میں مسلمان قوم کو انتہا پسند کہا جا رہا ہے جبکہ ہم ان کے گلے کاٹ کر کہتے ہیں کہ ہم پرامن ہیں ہم پر انتہا پسندی کا الزام مت لگاؤ۔
اسلام مخالفین سے زیادہ تو ہم خود اپنے کردار سے اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔

ہمیں اس بات کا اعتراف کرنے میں ذرا بھی عار محسوس نہیں کرنی چاہئے کہ نبی کریم رحمت العالمین تھے مگر ان کی امت زحمت العالمین بن چکی ہے۔

جس کے ہاتھوں خود مسلمان بھی محفوظ نہیں رہے۔

ہم اس حد تک خود کے لئے خطرناک ہو چکے ہیں کہ گزشتہ دنوں پنجاب کے علاقے ظفروال میں ایک شخص نے کسی کو گولی مار دی۔

جب اس سے پوچھا گیا کہ ایسا کیوں کیا تو اس نے کہا وہ مجھے ایسے لگتا تھا جیسے وہ دجال ہو۔
یعنی کہ ہم ایک دوسرے کو عقائد کی بنا پر تو واجب القتل قرار دے ہی رہے تھے۔

اب شکل و صورت سے بھی واجب القتل قرار پائے جا رہے ہیں۔

ہم کسی غیر مسلم سے کیا شکوہ کریں جب ہم خود ہی اپنے کرتوتوں سے اسلام کے گستاخ بنتے جا رہے ہیں۔

وہ مذہب جس میں انسانی زندگی کا تحفظ حرمت کعبہ سے افضل قرار دیا گیا ہے ہم نے اس کو کتنا سستا کر دیا ہے کہ پانی کی طرح خون بہانے پر تل گئے ہیں۔

بس بہت ہو چکا اب ہمیں ان وحشی درندوں کو اسلام کا نام استعمال کر کے قتل و غارتگری کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔

ہمیں اب اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔

اب ہمیں قاتل کو ہیرو بنانے کے بجائے اس کے عمل کو غلط قرار دینا چاہئے تاکہ ہماری نئی نسل اس خطرناک سوچ سے محفوظ ہو سکے۔

رحمتِ سیدِ لولاک پہ کامل ایمان۔
اُمتِ سیدِ لولاک سے خوف آتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں