خوش فہمی (نرجس کاظمی)

پتہ نہیں ہم لوگ کس خوش فہمی کا شکار ہیں۔ میرے منہ میں خاک مگر چند روز پہلے اسلام آباد میں ہزاروں مولوی عوام کا اجتماع اور پھر مولانا خادم رضوی کے جنازے پہ بقول شخصے لاکھوں لوگوں کا مجمع اوپر سے کورونا کے بارے میں پیشن گوئی کی جا رہی ہے کہ اس بار کورونا انتہائی مہلک و جان لیوا شکل میں سامنے آرہا ہے۔

میں اپنے گھر والوں اور ملنے جلنے والوں سے ایک ہی بات کہہ رہی۔ سردی نہیں بھی لگتی تو بھی سویٹر پہنیں کوشش کریں اس سردی میں کسی کو ٹھنڈ اور بخار کی شکایت نہ ہو۔ کوشش کریں ہلکا سا زکام بھی نہ لگے۔ اگر کوئی معمولی سی بھی تکلیف میں مبتلا ہوا اس کے بچاو کی گارنٹی نہیں۔

کچھ دن قبل ہمارے آفس کے سویپر کی بیوی ڈائریا اور قے ہونے سے دنیا سے جاچکی ہے۔ ذرا سوچیں ایک جوان عورت کیلئے کس قدر معمولی مرض ہے یہ۔ کسی بھی دوا کی ایک آدھ خوراک لینے سے ہی آرام آجاتا ہے۔ ابھی تو سردیاں سہی سے شروع بھی نہیں ہوئیں۔مگر اس معمولی بیماری نے اس خاتون کی جان لے لی۔ نہ جانے کون کون سے معمولی امراض موت کی صورت ہمیں دبوچنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔

ارے۔۔! ان خاتون کو بھی چھوڑیں مولانا صاحب کو کیا ہوا تھا ہاں۔۔! گھر والے کہتے ہیں چند روز سے معمولی بخار تھا۔۔۔سنا تم لوگوں نے ۔۔۔۔؟؟؟معمولی بخار ہی تھا۔۔۔کیا ہوا پھر۔۔۔؟؟؟مولانا صاحب گئے۔۔۔جی ہاں گزر گئے ۔۔۔کیا ہوا تھا؟؟؟۔۔۔ معمولی بخار۔۔۔۔معمولی بخار نا۔۔۔۔۔؟؟؟

انہیں بھی چھوڑو اب آو چند روز قبل اسلام آباد میں ہوئے دھرنے کی طرف کورونا کوئی ایٹم بم نہیں کہ پھٹے گا اور پوری دنیا میں شور برپا ہوجائے گا۔ پہلے اجتماعات میں بم دھماکے ہوتے تھے۔۔۔۔یہ ایک کھلا ثبوت ہے دہشت گردی کا۔۔۔۔اور کوئی نہ کوئی کالعدم تنظیم ذمہ داری بھی قبول کر لیتی ہے۔

مگر کورونا وائرس ہوا میں تحلیل کردینے کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ اور کون بے وقوف ہوگا جو اس کی ذمہ داری قبول کرے گا جب کام چپ چپیتے یعنی خاموشی سے ہوجائے تو۔۔۔؟؟؟

میں تو اسلام آباد و راولپنڈی میں اجتماع دیکھتے ہی سوچ میں پڑ گئی تھی۔ وال پہ تو کچھ نہ لکھا مگر گھر خوب شور مچایا کہ موسم کی شدت کی آمد ہے اور یہاں دہشت گردی ہونے والی ہے۔ اللہ خیر کرے۔ اور ساتھ ہی مولانا صاحب کے انتقال نے میری روح تک کو کپکپا دیا۔ اور جب سے ان کا جنازہ دیکھا ہے کہ لاکھوں لوگ شرکت کر رہے یقین مانیں خون کے آنسو رو رہی۔ اللہ کرے یہ میرا وہم ہی ہو۔ کہ کورونا جیسا ہتھیار مولانا کے جنازے پہ استعمال نہ کیا گیا ہو۔میں سچ کہہ رہی اگر تو ان دونوں مقامات پہ کورونا کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا ہے تو سمجھ لیں اس بار یہ سردی ہماری مسجدوں ہمارے مدرسوں کو ویران کردے گی۔ شغل لگانا الگ بات ہے۔ مذاق اڑانا بلکل الگ چیز ہے۔ مگر ہم کبھی بھی یہ نہیں چاھیں گے کہ ہماری غریب عوام دردناک موت کا شکار ہوں۔ارے کون کم ظرف اچھے گا ہماری عبادت گاہیں ویران ہوں۔۔۔؟؟؟

مولانا صاحب کے انتقال کی خبر سوشل میڈیا پہ اپ لوڈ کرنے والوں کو سوشل میڈیا والوں کی طرف سے وارننگ اور دھمکی دی گئی۔یہ ایک خاموش وارننگ تھی۔۔۔۔تو کیا موت خاموش نہیں ہوسکتی۔۔۔۔؟؟؟ دہشت گردی خاموشی سے نہیں کی جاسکتی۔۔۔۔۔؟؟؟

میرے ذہن میں اس وقت بہت کچھ چل رہا ہے دماغ میں ٹیسیں اٹھ رہی ہیں الفاظ بے ربط ہو رہے ہیں ۔۔۔مگر مجھے لکھنا ہے۔۔۔مجھے بتانا ہے۔۔۔میری بصیرت مجھے جو کچھ دکھا رہی ہے۔۔۔ بتا رہی ہے۔۔۔ آپ تک پہنچانا ہے۔ کہیں میری بات رہ نہ جائے۔ میں اپنے رب سے دعا کرنا چاھتی ہوں کہ میرے مولا یہ سردیاں سکون کی گزار دے۔

بس چند ہی دنوں میں سورج کی روشنی مردہ ہونی شروع ہوجائے گی۔دھند پھیلنے لگے گی یہ دھند اور سردی کی شدت کورونا کی خوراک ہے طاقت ہے۔۔۔۔ مان لو موت کی زبان ہے۔۔۔۔جو لپاٹے بھرتی، سب کچھ چاٹ جانے کیلئے بے چین ہے۔۔۔ آسمان پہ چھائے بادل اور بڑھتی ہوئی ٹھنڈک موت کا الارم ہے کہ بجنے کو ہے۔۔۔۔ سمجھ لو اللہ کا عذاب ہے قہر ہے جو ہم پہ ٹوٹ جانے کو بے قرار ہے۔۔۔۔۔اب کی بار سردی نہیں ۔۔۔موت کی سردمہری ہے۔۔۔۔بلکل بے حس بے جان۔۔۔۔چھوٹے ، بڑے ،امیر، غریب ۔۔۔۔کسی کی پرواہ نہیں کرتی چاٹ جاتی ہے روحوں کو۔۔۔

دعا کریں اپنے رب سے چاہے بھگوان سے ہی بنتی کرلیں ارے کوئی یسوع مسیح ع! کو پکار لے اے بدھا ! کہاں ہے تو کہ تیرے بندے کس مصیبت، کس عذاب میں مبتلا ہونے جارہے ہیں۔ سب پکارو اپنے اپنے خداوں کو رحم مانگو، کرم مانگو۔ ارے! گڑگڑاو کہ کسی کی ہی آواز آسمانوں کے پار پہنچ جائے۔ جہاں زمینوں کے باسیوں کے خدا بستے ہیں۔ جو بپھر رہے ہیں ہمارے اعمال انہیں مشتعل کئے ہوئے ہیں۔ جو موت ہم پہ مسلط کرنے جارہے ہیں۔۔۔۔۔ رحم کا لفظ جن کے کتاب کے ورقوں سے ایسے ہی نوچ کے پھینک دیا گیا ہے، جیسے ہمارے دلوں سے انسانیت ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے نوچ کر پھینک دی ہے۔۔۔۔۔ اے میرے مولا رحم۔۔۔۔اے میرے پروردگار ہم گنہگاروں کو بخش دے۔۔۔۔اے بار الہی! تو رحیم تو کریم

اپنا تبصرہ بھیجیں