وڈا افسر (نرجس کاظمی)

یہ 1935ء سے 1940ء کا دور ہے سر سید احمد خان ، قائداعظم ،علامہ اقبال جیسے پڑھے لکھے  بے شمار نمایاں مسلمانوں کا شہرہ لئے ہر گلی ہر محلے ہر گاوں میں گھوم رہا ہے۔ جہاں مسلمانوں کی انگریزی تعلیم کے فوائد سے آگاہی ایسے ہی ہے جیسے مقبوضہ ہندوستان میں اپنے حق کیلئے آگے بڑھنا اور کوئی کارنامہ انجام دینے کی دھن دماغ پہ سوار کرنا۔انہی شخصیات سے متاثرہ شخصیات میں سے ایک اپنی دھن کے پکے میرے نانا جی کے بھائی بھی تھے۔

 پس میرا یہی نانا اپنے سیدھے سادے دیہاتی والدین کیساتھ بیٹھا کہتا ہے میں بڑا آدمی بنوں گا بے جی آپ دیکھنا آپ کا بیٹا ایک دن ہندوستان ریلویز کا ایک وڈا افسر بنے گا۔ میرے پڑ دادا ایک گہری نظر اپنے جوان سپوت پہ ڈالتے ہیں ایک لمبا سانس چھوڑ کے کہتے ہیں ” پتر وڈے لوکاں دیاں وڈیاں گلاں۔چل آ میرے نال مجاں نوں پٹھے پوا” ( بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہیں بیٹا چل آ کے میرے ساتھ بھینسوں کو چارہ ڈال) وہ زخمی نظروں سے اپنی ماں کو تکتا ہے۔ ماں ہڑبڑا کر چولہے میں سلگتی لکڑیوں کو پھونکیں  مارنے لگتی ہے۔نوجوان خاموشی سے سر جھکا کر باپ کے پیچھے چل پڑتا ہے۔ 

رات کو لالٹین کی لو نیچی کئے وہ کتابوں میں مگن ہے ماں مٹی کے پیالے میں بھری ہوئی لسی لا کر بیٹے کی طرف بڑھاتی ہے اور اس کے خوبصورت ریشمی بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتی ہے شاہ پتر آدھی رات ہو گئی ہے، پڑھ ،پڑھ کے دماغ میں خشکی کر لے گا، لےیہ لسی پی لے۔ نوجوان خاموشی سے لسی کا پیالہ لیتا ہے اور پھر کہتا ہے:” بے جی ! مجھے کالج جانا ہے پڑھنا ہے۔ وڈے شاہ جی مانتے نہیں ہیں۔” 

بے جی جلدی سے کہتی ہیں۔” ارے ! تجھے کس نے کہا وہ نہیں مانتے اور ہم کوئی بھوکے ننگے تھوڑی ہیں جو تیرا خرچ نہ اٹھا سکیں ہاں تھوڑی بہت تنگی تو ہر کسی کیساتھ ہے۔ اصل میں تیرے شاہ جی کے دوستوں کے سب بچے دو چار جماعتوں کے بعد ہی نوکری پہ لگ جاتے ہیں تو آ کے تیرے باپ کے سامنے ڈینگیں مارتے ہیں کہ تو اتنا کیوں پڑھا رہا ہے  میرا پتر دیکھ کلرک لگ گیا ہے حوالدار لگ گیا ہے۔اتنے نوٹ کما رہا ہے اور تیرا پتر نکما پڑھائی ہی نہیں چھوڑتا، اپنے باقی بھائیوں کی طرف دیکھ تیرا بڑا بھائی (میرے نانا) نیوی میں ہے دیکھ دنیا جہاں کی سیر کرتا ہے اور تیری بھتیجی (میری امی) کیلئے ون سونیاں شیواں لے کے آتا ہے میموں والے کپڑے پہنتی ہے تیری بھتیجی۔ اس جوان کا چہرہ میری امی کے نام پہ کھل جاتا ہے بے جی ہماری صغری ہے ہی بہت پیاری پوری میم لگتی ہے فضل بھائی نے بھی تو کوئی کسر نہیں چھوڑی اپنی لاڈو کے لاڈ اٹھانے میں ۔گلابی سی گڑیا ہے میری بیٹی،کیسا پیارا ہنستی ہے اور جب میں سکول سے آتا ہوں تو ہمک ہمک کے میرے پاس آنے کی کرتی ہے۔ ہاں پتر میں بھی یہی کہہ رہی تو نوکری پہ لگ جا پھر میں تیری بھی شادی کردوں گی اور اپنی صغری جیسے خوبصورت پوتے پوتیاں پالوں گی۔شاہ سر جھٹک کے حتمی لہجے میں بولتے نہیں بے جی پہلے پڑھائی اور نوکری پھر شادی۔ بے جی ان کا حتمی فیصلہ سن کے کہتیں۔ٹھیک ہے  پتر  پھر ہمت نہ ہار تو پڑھ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے اور چھوٹے شاہ کا گلابی چہرہ کھل کر گلاب ہوجاتا ہے۔ 

وقت گزرتا رہا اب وہ ہمارے ننھیالی خاندان کے ہونہار نوجوانوں میں شمار ہونے لگا۔ اس کی دوستی کا معیار جدا ہونے لگا۔ شہر کے مہذب اور پڑھے لکھے خاندانوں میں اٹھنا بیٹھنا ہوا۔ ہماری پر نانی اور پر نانا کا سر فخر سے بلند ہونے لگا۔ سب کو فخریہ انداز میں بتایا جانے لگا کہ شاہ ماشاء اللہ گریجویشن کر رہا ہے۔اچھے اور پڑھے لکھے گھروں سے رشتوں کی کمی نہ رہی مگر  نوجوان کے سر پہ ایک ہی دھن مجھے اپنی تعلیم مکمل کرنی ہے اور ریلوے کا بڑا افسر لگنا ہے۔

خدا، خدا کرتے گریجویشن کا مرحلہ سر ہوا۔ ساتھ ہی ریلوے میں آفیسرز کی آسامیاں آگئیں۔ نوجوان نے اپلائی کردیا۔ اتنے پڑھے لکھے جوان اس دور میں تھے ہی کہاں بس جھٹ سے  سلیکٹ کر لیا گیا۔

آج شاہ بہت ہی خوبصورت لگ رہا تھا چٹی سفید شرٹ کے ساتھ کالی پینٹ پہنے ،سر پہ بال سلیقے سے جمائے شیشے سے اپنے وجود پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالی اور اپنی وجاہت پہ خود ہی مسکرا دیا پلٹا تو پیچھےماں ہاتھوں پہ آنچل ڈالے اپنے خوبرو اور جوان بیٹے کو نظر نہ لگنے کی دعا مانگ رہی تھیں۔ روشن ماتھے پہ بوسہ دیا۔ باپ نے فخر سے کاندھا تھپکا پھر بھینچ کر سینے سے لگایا  زور دار پیار کیا۔ مجیاں نئیں سانبھنیاں، اٹاں نئیں ڈھونیاں، افسر لگنا اے افسر( بھینسیں نہیں سنبھالنی، اینٹیں نہیں ڈھونیں۔ بس افسر لگنا ہے افسر) اس ڈائیلاگ پہ باپ بیٹے کا قہقہہ بلند ہوتا ہے۔کمرے سے باہر نکلتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ سارا خاندان ریلوے سٹیشن تک جانے کیلئے تیار کھڑا ہے انٹرویو لاہور ہے شام تک واپس آجائے گا تو پھولوں اور مٹھائیوں سے استقبال کرنا یہ کیا آپ سب ابھی سے لے آئے۔ اڈے شاہ جی ہنس پڑے

ایک بزرگ آگے بڑھے اور بولے “وے شاہ! اتنی بڑی خوشی آئی ہے خاندان میں  تو کیا ہے چلنے دے سب کو ساتھ اور یہ مٹھائی اور ہار بھی ہیں پتر کیلئے شام کو اور آجائیں گے ابھی یہ تو قبول کرو۔ شاہ کا چہرہ تھا کہ خوشی سے کھلا پڑتا تھا اتنا پیار، اتنی محبت، اتنا خلوص، واقعی آج سارے گلے شکوے دور کر دئیے خاندان والوں نے۔اسی جھرمٹ میں گھر والوں سے رخصت لی۔ ٹرین پہ سوار ہوتے ہوئے خاندان والوں  کو دیکھ کر ہاتھ ہلانا شروع کیا اور اس وقت تک ہاتھ ہلاتا رہا جب تک ان کے زور زور سے لہراتے بازو نظر آتے رہے۔ جب یہ منظر معدوم ہوا تو آ کر سیٹ پہ بیٹھ گئے اور سوچنے لگے۔

کتنا مشکل مرحلہ تھا خاندانی مخالفتیں کہ اتنا پڑھ کر کیا کرو گے۔دوستوں اور اہنے ہم عمر ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے کزنز کی نوٹوں سے بھری ہوئی جیبیں اور اپنی جیبیں خالی ہونے پہ طعنے۔  اوئے ہمارے تو چھ، چھ بچے ہوگئے یہ تو بڈھے ہو کے ہی ویاہ کرے گا یا پھر کب پڑھے گا کب کمائے گا۔

شاہ جی کم گو تو پہلے سے ہی تھے اب الگ تھلگ سے بھی ہو گئے تھے۔ ایک طرف تو خاندان والوں کا یہ رویہ تو دوسری طرف اسی خاندان کے باشعور بزرگوں کی پر شفقت تھپکی کہ واہ ہمارا پتر تو بڑا ہی قابل ہے ماشاء اللہ بڑا افسر بن کے خاندان کا نام روشن کرے گا۔اچھا کیا پتر جو ابھی تک شادی نہیں کی ورنہ کہاں پڑھ پاتے۔ یہ الفاظ دل میں ٹھنڈ ڈال دیتے۔ 

آج یہی لوگ ہیں جو مجھے انٹرویو کیلیے روانہ کرنے آئے تھے کیسے قلیوں اور ٹی ٹی سے آنکھیں نکال نکال کے جھگڑ رہے تھے۔ ایک دفعہ انٹرویو دے کے آ لینے دو پھر  ہمارا شاہ تمہارا وڈا افسر بن کے تم سب کو سیدھا کردے گا ۔ ٹی ٹی اور ریلوے کا دوسرا عملہ جو اس ہجوم کو کنٹرول میں کرنے کی تگ و دو میں مصروف تھا۔ کبھی شاہ کی طرف دیکھتا اور کبھی پھر ان دیہاتیوں سے کھپنے میں مصروف ہو جاتا کہ برائے مہربانی نظم برقرار رکھیں۔

وہ یہ سب سوچ کر دھیرے سے مسکرا دیا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ مناظر تیزی سے پیچھے کی طرف بھاگ رہے تھے۔ اور ذہن بھی بہت دور ماضی میں پیچھے کی طرف دوڑتا جا رہا تھا۔ کن بڑی شخصیات کی تقاریر تھیں جن میں نوجوانوں کو جدوجہد اور تعلیم کی تلقین کی گئی تھی جنہیں اس نے نصیحتوں کی صورت پلے باندھ لیا تھا۔

ریل نے بل کھایا نظروں کے سامنے والی  لمبی اور بھاری بوگیاں سامنے آگئیں۔ ایک ردھم ، ایک ترتیب سے بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے ٹریک پہ تیزی سے اگے  بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ یہ زندگی ریلوے ٹریک جیسی ہی تو ہے، بوگی اگر پٹڑی سے اتر جائے تو ریل تباہ۔ میں نے بھی خود کو ٹریک پہ رکھا جیسا میرے رہنماوں نے کہا ویسا کیا، ڈی ٹریک نہ ہوا آج  میری جدوجہد کے نتیجے کا دن ہے۔

اب ٹرین آہستہ ہو چکی تھی، سٹیشن پہ رکنے ہی والی تھی۔ وہ خیالات سے چونکا اور جلدی سے اٹھ کر ٹرین کے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ 

دن بہت مصروف رہا۔ گورے افسروں کے انٹرویو اور  کاغذی کاروائیوں میں دن کیسے گزرا پتہ ہی نہیں چلا ۔افسران کے تعریفی کلمات۔we proud of you gentleman جیسے حوصلہ بڑھاتے الفاظ، شاندار لنچ۔وہ سب کا شکریہ ادا کرتا ریلوے سٹیشن کی طرف روانہ ہوا۔

شام کا مجلگا اندھیرا پھیل رہا تھا۔ وہ شاید لیٹ ہو چکا تھا ٹرین دھیرے دھیرے چلنا شروع ہو گئی تھی سمجھو چھوٹنے ہی والی تھی۔ اگر ٹرین چھوٹ جاتی تو ساری رات سٹیشن پہ ہی گزارنی پڑتی۔ اور بے صبری کا یہ عالم تھا کہ دل اڑ کر گھر پہنچنے کو مچل رہا تھا۔ 

وہ تیزی سے ٹرین کی طرف بڑھا، پھر دوڑ کر چلتی ٹرین کے کنارے لگا ڈنڈہ پکڑ، ایک پاوں ٹرین پر اور ایک پلیٹ فارم پر، ہلکا سا جھٹکا لے کر سوار ہونے ہی والا تھا کہ اچانک پاوں پھسلا، جھٹکے سے ڈنڈہ بھی ہاتھ سے چھوٹ گیا چلتی ٹرین نے جیتا جاگتا  خوبصورت وجود اپنے پہیوں میں لپیٹ لیا۔ ہئے بے جی، ہئے شاہ جی کے نام کی سسکاری۔ اور ساتھ ہی سارے چہرے سارے رشتے نظروں سے معدوم ہوگئے۔ ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ موت کی زردی چہرے پہ کھنڈ گئی۔  

پلیٹ فارم پہ شور مچ گیا زنجیر کھینچی گئی ٹرین رک گئی ہر طرف چیخ و پکار ہئے! نا جانے کس کا قیمتی لعل تھا۔ ہائے کتنا خوبصورت جوان تھا۔ ارے پتہ کرو کون ہے یہ بدنصیب ریلوے کا عملہ آگے بڑھا  جیبوں کی تلاشی لی گئی ساتھ موجود کاغذات کھنگالے گئے۔ پتہ لگا نوجوان آج ہی ریلوے کا وڈا افسر بھرتی ہوا تھا۔ پہلے گورے افسروں کو اطلاع دی گئی۔ انہوں نے ہی میت کی واپسی کا کام  احسن طریقے سے انجام دیا۔ میت بذریعہ ٹرین روانہ کی جا چکی تھی۔روانہ کرنے والا وہ  باوقار مگر مغرور نظر آنے والا گورا افسر جو چند گھنٹے پہلے اپنے گورے ساتھیوں کے سامنے اس جیتے جاگتے نوجوان کی تعریف کر رہا تھا۔ کہ ہمیں ایسے پڑھے لکھے اور قابل  ہندوستانی جوانوں کی سخت ضرورت ہے۔

اپنے انکھوں میں آنے والے آنسووں کو رومال سے نفاست سے صاف کرتے ہوئے ٹرین کی طرف دیکھنے لگا۔ جو اب نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی مگر  مدھم  آواز ابھی تک سنائی دے رہی تھی۔ گورے افسر نے ٹھنڈی آہ  بھری اور شکستہ قدموں سے واپس روانہ ہوگیا۔  

اپنا تبصرہ بھیجیں