ایرانی ایٹمی پروگرام کے بانی محسن فخری زادہ کا قتل

ایران کے مایہ ناز جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ دارلحکومت تہران میں ایک ٹارگٹ حملے میں اپنے محافظوں کے ہمراہ قتل کر دیئے گئے۔

یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ کسی ایرانی جوہری سائنسدان کو ایران میں ہی قتل گیا ہو بلکہ اس سے قبل بھی چند سائنسدانوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔

محسن فخری زادہ ایران کے جوہری پروگرام کے بانی تصور کئے جاتے تھے،جس بنا پر انہیں کئی سالوں سے عالمی پابندیوں کا بھی سامنا رہا ہے اور انہیں عالمی سطح پر “ایرانی بم کا باپ” بھی کہا جاتا تھا۔
اس شخصیت کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ 2018 میں اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک بیان میں انکشاف کیا تھا کہ ان کی خفیہ ایجنسیوں نے ایران کے جوہری پروگرام اور اس پر کام کرنے والے افراد کا سراغ لگا لیا ہے اور اس کے بعد کہا کہ “محسن فخری زادہ،یہ نام یاد رکھنا”
اسرائیل کا ایک واضح اصول ہے کہ وہ مشرق وسطی میں کسی ملک کو ایٹمی طاقت بنتا نہیں دیکھ سکتا خواہ وہ دوست ملک ہو یا دشمن۔

آپ اگر گزشتہ چند دہائیوں میں مسلمان سائنسدانوں کے قتل کی تفصیل دیکھیں تو آپ کو درجنوں افراد ایسے نظر آئیں گے جو اسرائیل کے ہاتھوں قتل ہوئے،ماضی میں خصوصا مصر کے سائنسدانوں کی ایک طویل فہرست نظر آئے گی اور یہ قتل عام صرف جوہری شعبہ تک محدود نہیں رہا بلکہ طب کے شعبے میں بھی جس مسلمان سائنسدان نے نام بنایا،وہ اسرائیل کے ہاتھوں قتل ہوا خواہ وہ خاتون ہی کیوں نہ تھی۔
ان سب حالات اور ماضی کے تجربات کے باوجود محسن فخری زادہ کی ناقص سیکیورٹی ایران کے لئے باعث شرم قرار دی جا سکتی ہے کیونکہ واقعہ کی تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں بلٹ پروف گاڑی میسر نہیں تھی اور حملہ آوروں نے نہایت آسانی کے ساتھ فائرنگ کر کے ایرانی قوم کا سرمایہ چھین لیا جبکہ اسرائیل نے اعلانیہ طور پر محسن فخری زادہ کو نشانہ قرار دیا ہوا تھا۔

بہت سے افراد کا ماننا ہے کہ کسی ایک شخصیت کے جانے سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ نظام قائم ہوتا ہے مگر میرا خیال ہے کہ ایک اہم شخصیت کے نقصان سے پورے نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے اور اسی لئے دشمن ٹارگٹ کرتا ہے۔
قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد ایران کی پراکسی وار پر گرفت قدرے کمزور ہوئی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دو سال قبل پاکستان کا ایک بچہ بھی قدس فورس کے سربراہ کا نام جانتا تھا مگر آج اس فورس کی سربراہی کس کے پاس ہے،یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں۔

قاسم سلیمانی کے بعد ایران کا عراق میں اثر و رسوخ کافی کم ہوا ہے جبکہ ایران کی حکومت اور پالیسی بھی وہی ہے،ادارہ بھی موجود ہے مگر صرف ایک شخص کے جانے سے حالات میں واضح تبدیلی نظر آئی ہے۔

اسی طرح محسن فخری زادہ کے جانے سے بھی ایران کے جوہری پروگرام پر بہت برا اثر پڑے گا حالانکہ موجودہ حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے نظر آ رہا تھا کہ جنوری 2021 تک کہ جب تک ڈونالڈ ٹرمپ صدارت کے عہدے پر فائز ہے،اسرائیل اور امریکہ اپنے وہ کام عجلت میں بجا لائیں گے جو شاید نئی امریکی حکومت میں ممکن نا ہوں،اس صورتحال میں ایران کو زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت تھی کیونکہ مشرق وسطی میں ایران اب اسرائیل کا واحد دشمن رہ گیا ہے۔

میرے نظر میں یہ قتل اسرائیل کی کامیابی سے زیادہ ایران کی ناکامی تصور کی جانی چاہئے کیونکہ اتنی ہائی پروفائل شخصیت کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری ایران کی تھی جس میں مجرمانہ حد تک کوتاہی برتی گئی۔

ایران نے اب بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے اور ممکن ہے کہ وہ کسی اسرائیلی سائنسدان کو قتل بھی کر دیں تب بھی اس نقصان کا ازالہ ممکن نہیں ہے کیونکہ اسرائیل اول تو ایٹمی طاقت بن چکا ہے اور وہ اس ٹیکنالوجی میں بہت آگے ہے، اب اگر اس کے چند سائنسدان مار بھی دیئے جائیں تب بھی ایران اس کے معیار تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ اسرائیل کو دنیا میں ہر شعبہ میں تعلیم حاصل کرنے کی آزادی حاصل ہے جبکہ دوسری طرف ایران کے سائنسدانوں کو دنیا میں حساس شعبوں کی تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد ہے اور وہ چند ممالک جن میں شمالی کوریا اور کچھ دوسرے ممالک شامل ہیں،ان کے تعاون سے جدید معلومات حاصل کرتے ہیں۔

محسن فخری زادہ کے قتل کے بعد یہ کہنا صحیح ہو گا کہ ایران داخلی سیکیورٹی کے حوالے سے خود اعتمادی کا شکار ہے جبکہ اسے معلوم ہے کہ وہ نا صرف امریکہ اور اسرائیل جیسے شاطر اور طاقتور دشمنوں کی نظر میں کھٹکتا ہے بلکہ عرب حکمران بھی اسے نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقع ضائع نہیں کرتے، اس لئے اب اسے خفیہ اداروں کی جدید طرز پر اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اسے بھی اسرائیل سے صلح کر لینی چاہئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں