ہم سب غدار ہیں (ساجد خان)

پی ڈی ایم نے گزشتہ دنوں لاہور میں حکومت کے خلاف جلسہ کیا۔ وہ جلسہ کامیاب رہا یا ناکام،یہ بحث پھر کبھی سہی لیکن اس جلسہ نے حکومت کو اپوزیشن پر تنقید کا موقع فراہم ضرور کر دیا ہے اور وہ موقع پختون رہنما محمود خان اچکزئی کی تقریر کا ایک حصہ ہے،جس میں انہوں نے عموما پنجابی قوم جبکہ خصوصا لاہوریوں پر اعتراض کیا کہ انہوں نے ماضی میں انگریز کا ساتھ دیا۔

دوسرے لفظوں میں پنجابی قوم کو غدار کہا گیا ہے۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ قوم پرست رہنما اور جماعتیں اپنی قوم کے دفاع کے لئے دوسری اقوام پر تنقید کرنا واجب سمجھتے ہیں جبکہ اپنی قوم کے لئے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانا قطعا ضروری نہیں ہوتا۔

پاکستان میں ایک عام روایت پڑ چکی ہے کہ وہ اپنی محرومیوں اور ناکامیوں کا الزام پنجابی قوم پر لگا کر خود کو مکمل طور پر بری الذمہ قرار دے دیتے ہیں۔

بلوچ قوم کو شکوہ ہے کہ ان کے علاقے سے نکلنے والی گیس سے پنجاب لطف اندوز ہوتا ہے لیکن کیا پنجاب مفت میں گیس استعمال کرتا ہے ؟
ایک پنجابی اگر گیس استعمال کرتا ہے تو وہ اس کی قیمت ادا کرتا ہے۔بجلی استعمال کرتا ہے تو اس کا بل ادا کرتا ہے لیکن کیا دوسرے صوبوں میں گیس اور بجلی کے بل اسی طرح ادا کئے جاتے ہیں جس طرح پنجاب دیتا ہے؟

کے پی کے اور بلوچستان میں آپ مہنگی ترین گاڑی چند لاکھ روپے میں خرید کر استعمال کرتے ہیں جبکہ پنجاب وہی گاڑی کروڑوں روپے میں خریدتا ہے کیونکہ پنجابی قوم کو اس پر کروڑوں روپے کا ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے،جس سے دوسری اقوام شاذ و نادر ہی واقف ہیں۔

اردو بولنے والے شکوہ کرتے ہیں کہ ہم ملک کا ساٹھ فیصد ریونیو دیتے ہیں گویا ملک ہم چلا رہے ہیں اور مزے پنجاب کر رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ریونیو آپ کی مہربانی نہیں ہے بلکہ سمندر کی مہربانی ہے،جس سے اربوں ڈالر کا کاروبار ہوتا ہے اور وہاں سے پورے ملک میں اشیاء روانہ ہوتی ہیں یعنی کہ اصل کاروبار کراچی کے باہر کا ہوتا ہے جس کا ریونیو آپ کے کھاتے میں جاتا ہے کیونکہ آپ نے اس علاقے کی اہمیت کی وجہ سے وہاں سکونت اختیار کی۔

آج اگر آپ کو چولستان منتقل کر دیا جائے اور چولستان کے شہریوں کو کراچی منتقل کر دیا جائے تو چند سالوں بعد وہ بھی یہی کہتے نظر آئیں گے کہ ہم ملک کا ساٹھ فیصد ریونیو اکٹھا کرتے ہیں۔

پاکستان کے کسی حصہ میں اردو زبان نہیں بولی جاتی تھی اور اس لحاظ سے سب سے بڑی قوم پنجابی تھی جس کا حق بنتا تھا کہ اس کی زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے لیکن اس کے باوجود ایک پردیسی زبان کو ہماری قومی زبان قرار دیا گیا لیکن پنجاب نے کبھی شکوہ نہیں کیا۔
آج پنجاب کی سیاست میں درجنوں سیاست دان ایسے ہیں جو ہجرت کر کے آئے اور آج پنجاب پر راج کر رہے ہیں لیکن کبھی انہیں نسلی تعصب کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

دوسرے صوبوں میں ایسی کتنی مثالیں موجود ہیں کہ کسی پنجابی نے الیکشن لڑا ہو اور دہائیوں سے کامیاب بھی ہوتا آ رہا ہو۔

پنجاب کے خلاف سب ایسے بات کرتے ہیں جیسے پنجاب میں نا ہی کوئی فصل کاشت ہوتی ہے اور نا ہی یہاں سے تیل یا گیس نکلتی ہے بلکہ پنجابی قوم کوئی کام کاج نہیں کرتی بس دوسری قوموں کی کمائی سے پیٹ بھر کر ڈکار مارتے ہوئے میٹھی نیند سو جاتے ہیں۔

پنجاب سے سالانہ سرجیکل اور کھیل کا سامان دنیا بھر میں برآمد کیا جاتا ہے،ملبوسات کی برآمدات ہوتی ہے جس کے لئے سمندری راستہ اختیار کیا جاتا ہے اور وہ راستہ کراچی سے گزر کر جاتا ہے،جس کی وجہ سے کراچی کے ریویو میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے،جس کو حاصل کرنے کے بعد وہ پنجاب کو ہی طعنہ دیتے نظر آتے ہیں۔
پنجاب کے تعلیمی اداروں میں دوسری اقوام کے لئے کوٹہ مختص ہوتا ہے،کیا پاکستان کے کسی حصہ میں پنجابی قوم کے لئے کوٹہ سسٹم موجود ہے؟

پنجابی قوم کے خلاف بلوچستان میں مہم چلائی گئی اور قتل و غارت کے ذریعے صوبہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ کراچی میں پنجابی قوم کے خلاف نفرت پھیلائی گئی۔

اندرون سندھ میں مہم چلائی جاتی رہی لیکن کیا کبھی پنجاب میں کسی قوم کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی گئی یا قومیت کی بنا پر کسی دوسری قوم کو ہراساں کیا گیا؟

اب ہم آتے ہیں محمود خان اچکزئی کے اعتراض پر۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ جہاں دوسری اقوام نے انگریزوں سے آزادی کی جنگ لڑی وہیں پنجاب کے متعدد سپوتوں نے بھی لڑی۔

یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے بہت سی شخصیات پنجابی تو تھیں مگر مسلمان نہیں تھیں،اس لئے انہیں ہماری مسلمان تاریخ آزادی تحریک میں وہ مقام حاصل نا ہو سکا جو ان کا حق بنتا تھا۔
جہاں پنجاب میں کچھ افراد نے انگریز راج کا ساتھ دیا وہیں پختون،بلوچ اور سندھی اقوام میں بھی متعدد افراد ایسے تھے جو انگریز کے وفادار تھے۔

یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ پنجابی قوم کو غدار کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے انگریزوں کے خلاف مغل سلطنت کا ساتھ نہیں دیا؟

کیا مغل حکمران اس سرزمین سے تعلق رکھتےتھے جو ان کی بادشاہت بچانے کے لئے خون بہایا جاتا ؟
گزشتہ چودہ صدیوں میں برصغیر تو بس مندر کا گھنٹہ ہی بنا نظر آتا ہے کہ جس کا دل کرتا تھا حملہ کر دیتا تھا۔

جہاں انگریز بیرونی غاصب تھے وہیں مغل خاندان بھی بیرونی غاصب ہی تھا پھر انگریز کا ساتھ دینے والا غدار اور مغل خاندان کا ساتھ دینے والا وفادار کس اصول کے تحت ہوا؟

برصغیر پر کسی مقامی خاندان نے حکومت کی ہی کب ہے،کبھی ترک،کبھی فارسی تو کبھی افغانی۔
انگریز سے جنگ نا کرنا اگر پنجاب کی غداری ہے تو محمود خان اچکزئی بتانا پسند کریں گے کہ محمود غزنوی اور دوسرے افغانی لٹیرے پنجاب کیسے پہنچ جاتے تھے۔

کیا خیبر تا پشاور تک،ان کو کسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا یا نہیں؟

انگریز سے جنگ نا کرنا اگر غداری ہے تو افغان لٹیروں سے جنگ نا کرنا بلکہ ان کو تقویت پہنچا کر پنجاب پر حملہ کرنے دینا بھی غداری کے زمرے میں آتا ہے۔

پنجابی اگر تاریخ میں غدار ہیں تو غدار آپ پختون بھی ہیں۔

آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ یہ پنجاب ہی ہے جہاں آپ پنجابی قوم کو برا بھلا کہتے ہیں اور وہ دل آذادی کے باوجود برداشت کر گئے ہیں۔
فرض کریں کہ کوئی پنجابی رہنما پشاور میں پختون قوم کے خلاف ایسی بات کرتا۔
کوئٹہ میں بلوچ قوم سے ایسا شکوہ کرتا۔ کراچی میں اردو بولنے والوں کے خلاف ایسے الفاظ استعمال کرتا یا سانگھڑ میں سندھی قوم کو ایسا کہتا تو اب تک ملک میں طوفان برپا ہو چکا ہوتا۔

اس صوبہ میں پنجابی قوم کی املاک جلائی جا چکی ہوتیں اور پنجابی قوم کو سرعام گالیاں دی جا رہی ہوتیں۔

جہاں آپ کو پنجاب کا بڑا پیٹ نظر آتا ہے وہیں بڑا دل ہونے کا بھی اعتراف کریں کہ پنجاب کے خلاف ہمیشہ اتنی نفرت کا اظہار کرنے کے باوجود کبھی ردعمل نہیں دیا اور ہمیشہ کھلے دل سے سب کا خوش آمدید کہا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں