کرنل کی بیوی….! (ساجد خان)

ہم راولپنڈی لالہ زار رہتے تھے۔ ہماری گلی میں کرنل صاحب رہنے کے لئے آ گئے۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جسے ہم نے “بڑا بونگا” کے تخلص سے عزت بخشی کیونکہ چھوٹا بونگا ہمارے دوست کا چھوٹا بھائی ہوا کرتا تھا۔ کرنل صاحب کے گھر کے سامنے کافی بڑا خالی پلاٹ تھا، ہم سڑک پر پچ بنا کر کرکٹ کھیلتے تھے۔

ایک دن کالج سے واپس آیا تو پوری ٹیم اکٹھی تھی اور منہ لٹکے ہوئے تھے۔

دیکھا تو کرنل صاحب کے گھر کے باہر پھول بوٹے لگے ہوئے تھے اور ساتھ میں ایک چھوٹی سی باڑ لگی ہوئی تھی اور کرنل کی بیوی نے اعلان کر دیا تھا کہ اب یہاں کوئی کرکٹ نہیں کھیلے گا کیونکہ یہ اپن کا علاقہ ہے خیر ہم نے دوبارہ پج بنائی اور کرکٹ کھیلنے لگ گئے، بونگا بھی ہمارے ساتھ کھیلتا تھا لہٰذا اسے بھی ٹیم میں شامل کر لیا۔

کرنل کی بیوی تھوڑی تھوڑی دیر بعد باہر آئے، کبھی تلملا کر گھر چلی جائے اور کبھی رعب سے کہے میرے بوٹوں کو کچھ ہوا تو تم لوگوں کی خیر نہیں۔

دو چار دن تو یوں ہی چلا، ایک دن کالج سے واپسی ہوئی تو سڑک کی دوسری جانب بھی باڑ لگی ہوئی تھی جو کہ کافی بڑی تھی یعنی کہ ہمارا کھیلنا مکمل بند۔

بونگا اتنا ب چ نکلا کہ باپ کے ساتھ کھڑے ہو کر ہمیں دیکھ کر کھی کھی کر رہا تھا اور پھر ہمیں مخاطب ہو کر کہا اب کھیل کر دکھاؤ۔

میرا ایک یار غار دوست تھا گوشی، ہم دونوں راولپنڈی اسلام آباد کے تمام بڑے ہوٹلوں میں مفت کی شادیاں بھی کھایا کرتے تھے۔ اس نے کہا ساجد بھائی انتقام لینا بنتا ہے۔ میں نے کہا ہم کر بھی کیا سکتے ہیں،ایک تو کرنل اور دوجا کرنل کی بیوی اس سے بھی سخت۔

ہم سویلین لوگ اس سرحد کو بھلا کیسے پار کر پائیں گے مگر وہ بضد رہا کیونکہ اس کا اپنا بھائی میجر جبکہ تایا اور پھوپھا بریگیڈیر تھے، اس لحاظ سے وہ آدھا سویلین تھا جس کی وجہ سے اسے جوش آنا فطری عمل تھا۔

فیصلہ ہوا کہ ٹھیک رات کو تین بجے میں گھر سے آؤں گا اور پھر اس کو اتار لیں گے۔
پلان تیار ہو گیا، نقشہ بن گیا اور یوں وہ رات کو وقت پر پہنچ گیا۔ سوسائٹی کے دو گارڈز ہوا کرتے تھے جو ساری رات چکر لگاتے رہتے تھے۔ ایک گارڈ ہماری گلی میں آتا تھا اور باڑ کے نزدیک پہنچ کر سیٹی بجاتا تھا اور دوسرا گارڈ عین اس کے سامنے دوسری گلی میں پہنچ کر سیٹی بجاتا تھا۔

دونوں گلیوں کے درمیان کیونکہ خالی پلاٹ تھا تو وہ ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے۔
اب میں، شاہد اور گوشی ہم تینوں ٹیرس پر پہنچے اور گھڑی سامنے رکھ کر ٹائم نوٹ کرنے لگے کہ ایک گارڈ کتنے وقت میں باڑ کے پاس پہنچتا ہے۔

وہ گارڈ کیونکہ چکر لگاتے ہوئے ایک مقام پر اکٹھے ہو جاتے تھے لہٰذا پانچ سات منٹ گپ شپ میں لگ جاتے تھے۔ ہم نے پہلے وقفہ وقفہ سے وہ باڑ کھولی اور واپس آ گئے۔ پھر باڑ کو اکٹھا کر کے گھر میں رکھا اور دوبارہ ٹیرس پر جا کر بیٹھ گئے کہ کہیں گارڈز کو شک تو نہیں ہوا۔

گارڈ آیا اور باڑ نا ہونے کی وجہ سے آگے چلتا گیا اور پھر سیٹی ماری۔ دوسرا گارڈ بھی ایسے ہی آگے ہی نکل گیا،ہم سمجھ گئے کہ انہیں خیال ہی نہیں آ رہا کہ یہاں باڑ ہوا کرتی تھی۔ آخر دونوں ریٹائرڈ جو تھے۔

خیر ہم نے ملازم کو اٹھایا اور اسے سختی سے تلقین کی کہ تم نے صبح اٹھ کر سب سے پہلا کام یہی کرنا ہے کہ پائپ لگا کر چھڑکاؤ کر دینا تاکہ نشانات مٹ جائیں۔
اگلے دن صبح کالج چلے گئے۔

واپس آ کر ہم نے باڑ ڈگی میں ڈالی اور ایک کباڑیہ کو شاید 270 روپے کی بیچ دی۔
تین سینڈوچ اور ایک کوک خریدی اور گھر آ کر پارٹی کی۔

اگلے دن کالج سے واپسی ہوئی تو پولیس کی گاڑی کھڑی نظر آئی، پھٹ کر ہاتھ میں آ گئی کہ کرنل تو بڑا ب چ نکلا، اب تو ہم پکے گھوڑے لگ گئے۔

گھر کے قریب پہنچا، گیٹ کھولنے کے لئے گاڑی سے نکلا ہی تھا تو مجھے کسی نے پکارا۔
تیری پین دی سری، لگتا ہے کرنل نے ہمارے نام بھی پولیس کو دے دیئے ہیں۔

مڑ کر دیکھا تو پولیس افسر آتا دکھائی دیا، قریب آیا تو یاد آیا کہ یہ تو اکثر ابا جی کو ملنے آیا کرتا ہے۔

اس نے کہا خان صاحب ہیں؟ میں نے کہا نہیں وہ تو دفتر ہیں۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا حسن بھائی کوئی ضروری کام تھا؟ بولا کہ نہیں بس یہاں تفتیش کے لئے آیا ہوا تھا تو سوچا سلام کر لوں۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ میں نامزد مجرم نہیں ہوں۔ میں نے معصوم بن کر پوچھا کوئی چوری ہو گئی ہے کیا؟

اس نے کہا ہاں

کرنل صاحب کی کسی نے باڑ چوری کر لی ہے اور ڈی آئی جی صاحب کا حکم ہے کہ تفتیش کی جائے۔ ڈی آئی جی کا نام سنا تو پھٹ کر ہاتھ میں آ گئی بس فیصلہ کیا کہ اعتراف جرم کر لوں۔ میں نے کہا حسن بھائی ایک بات بتاؤں؟ ہاں بولو۔ وہ باڑ ہم نے کھولی ہے۔ اس نے چیختے ہوئے کہا اوئے پانچ لاکھ کی باڑ کھول کر کی کہاں۔

میں نے کہا بھائی قسم سے اتنی مہنگی نہیں تھی، یقین نہیں آتا تو کباڑی سے پوچھ لیں کہ صرف 270 روپے کی بکی ہے۔

اس نے کہا کہ کرنل نے تو درخواست میں پانچ لاکھ قیمت لکھی ہے اور خود ڈی آئی جی سے ملاقات کر کے درخواست دی ہے۔
اب میں میسنا بن کر اس کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔

اس نے کہا کہ چوری کیوں کی،پیسوں کی ضرورت تھی؟ میں نے سارا واقعہ مرچ مصالحہ کے ساتھ سنا دیا اور کہا کہ بونگا ہمیں طعنے دیتا تھا اس لئے۔

اس نے ہنستے ہوئے کہا کہ بونگا کون ہے ؟
میں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ جو کرنل کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس نے فوراً کہا اوۓ اشارے مت کر۔

خیر اس نے کہا کرنل کی ایسی کی تیسی، فکر مت کرو۔ یہ بس بھاگتا ہی رہے گا۔

کرنل نے ب کا بہت زور لگایا لیکن پانچ لاکھ کی باڑ 270 روپے میں بک چکی تھی۔
ایک دن بونگا میرے پاس آیا اور کہا یار ساجد یہ تو مجھے پتا ہے کہ باڑ تم لوگوں نے ہی اتاری تھی، اب بات پرانی ہو گئی ہے، مجھے صرف یہ بتا دو کہ اتنی وزنی باڑ تم لوگوں نے اٹھائی کیسے۔

میں نے بونگے کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے گھر چلا گیا۔

میں ریٹائرڈ تھوڑی تھا کہ بہکاوے میں آ جاتا۔
کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ جس طرح مجھے یہ واقعہ یاد آ جاتا ہے، اسی طرح بونگے کو بھی یاد تو آتا ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں