افغانستان کی کہانی! درانی سدوزئی بادشاہت محمدزئی بارکزئی سلطنت میں کیسے تبدیل ہوئی؟ (احمد طوری)

سترھویں صدی کے ابتداء میں زیرک غلجی افغان تاجر و سیاسی رہنما میر ویس ہوتک (غلجی خلجی) (میرویس نیکہ) (1709-1747) حج سے واپس آئے تو حجاز کے علماء سے ایک فتوی بھی ساتھ لائے۔ افغان قوم کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوئے تو ایرانی حمایت یافتہ گورنر گورگین کو ساتھیوں سمیت قتل کرکے قندھار کے بادشاہ بنے۔

حاجی میرویس (نیکہ) کی ناگہانی موت کے بعد انکے بھائی عبدالعزیز بادشاہ بنے تو ناراض افغانوں نے محل پر حملہ کیا اور میرویس کے اٹھارہ سالہ نوجوان بیٹے محمود نے اپنے ہاتھوں سے چچا کا سر تن سے جدا کرکے قتل کیا اور بادشاہ بن گئے۔

میر محمود قندھار سے اُٹھے اور تاریخی افغان شہر ہرات (جو درانیوں کا نیا گڑھ تھا) سمیت ایران کے بیشتر علاقے فتح کرنے میں کامیاب ہوئے اور افغان سلطنت اصفہان تک پھیلائی۔ شاہ محمود ایران میں قتل ہوئے تو چچا زاد شاہ اشرف نے ایرانی بادشاہت پر قبضہ کیا اور شاہ محمود کے بھائی اور قندھار کے گورنر شاہ حسین نے شاہ اشرف کو قتل ذمہ دار ٹھہرا کر اعلان جنگ کر دیا۔

اب درانی اور غلجی قبائل کی پرانی لڑائی پھر شروع ہوئی۔ ساتھ میں مغل، ایرانی، روسی اور سلطنت عثمانیہ سب اس جنگ کی آگ کو ہوا دے رہے تھے اور اپنے فائدے کشید کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ احمد شاہ ابدالی (درانی سدوزئی ) نے ایرانیوں (نادر شاہ) سے مل کر 1738 میں ہوتک بابا کا قلع قمع کیا اور نادرشاہ کی سرکردگی میں قندھار، ہرات سمیت افغانستان اور ہندوستان کو روندتے ہوئے دہلی پر قبضہ کر گئے۔

احمد شاہ ابدالی نادرشاہ کی سرکردگی میں افغانستان کو روندتے ہوئے دہلی پر قبضہ کر گئے
ایرانی بادشاہ نادر شاہ ایک بغاوت میں قتل ہوئے تو ان کے جرنیل احمد شاہ ابدالی سرعت سے واپس قندھار آئے، خزانہ اور “کوہ نور ہیرا” بھی ساتھ لیتے آئے جو نادر شاہ دہلی حملے میں مغل بادشاہ سے لوٹ کر لائے تھے اور 1747 میں لویہ جرگہ کے ذریعے خود کو افغانستان کا بادشاہ منتخب کروانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس طرح افغانستان میں ھوتک غلجی قبائل سے اقتدار درانی سدوزئی میں منتقل ہوا مگر پائندہ خان محمدزئی بارکزئی کا کردار احمد شاہ ابدالی کے ساتھ ہی شروع ہوتا ہے جو منجھے ہوئے سیاست دان اور بہادر سپاہ سالار تھے۔

احمد شاہ ابدالی قندھار سے بہت بڑا لشکر لے کر کابل و غزنی کو تہہ وبالا کرتے ہوئے پنجاب، سندھ اور کشمیر میں مغلوں کو شکست دینے میں بھی کامیاب ہوئے جبکہ 1761 کے مشہور ومعروف پانی پت جھگڑے میں مراٹھا سلطنت کو بھی شکست سے دوچار کر دیا تو دہلی کے کمزور مغل بادشاہ نے ہتھیار ڈالنے میں دیر نہیں کی۔

دوسری جانب احمد شاہ ایران کے صوبہ مشہد جہاں نادرشاہ کے نواسے شاہ رُخ افشار گونر تعینات تھے پر حملہ آور ہوئے۔ جبکہ شمالی افغانستان پر قابض تاجک، اُزبک، ہزارہ اور ترکمان قبائل کو بھی تابع بنایا اور ایک عظیم افغان سلطنت کی بنیاد رکھی۔

1: احمد شاہ ابدالی کے ساتھ سب پشتون (پختون) قبائل اور غیر پشتون جیسے ہزارہ، ترکمان، تاجک اور اُزبک سب نے دل کھول کر تعاون کیا اور خوشی خوشی لشکروں میں شامل ہوئے۔ احمد شاہ بابا عظیم افغان بادشاہت قائم کرنے کے بعد 4 جون 1772 کو قندھار میں انتقال کرگئے۔

د دهلی تخت هیرومه چه را یاد کړم
زما د ښکلي پختونخواه د غرو سرونه
احمد شاہ بابا ؀ کی شاعری

احمد شاہ ابدالی (درانی-سدوزئی) کی وفات کے بعد ان کے 23 بیٹوں کے درمیان اقتدار کی جنگ شروع ہوئی اور سب سے پہلے امراء دربار خصوصاً شاہ ولی خان وزیر نے اپنے داماد اور احمد شاہ بابا کے بیٹے سلیمان شاہ کو تخت پر بٹھا کر اس کے نام خطبہ جاری کیا۔ مگر بڑے بھائی تیمور شاہ درانی نے ہرات سے قندھار آکر وزیر شاہ ولی خان کو بیٹوں اور کچھ ساتھیوں سمیت قتل کردیا اور 1748 میں تخت نشین ہوئے۔

2: تیمور شاہ لائق تھے اور وصیت بھی اسی کیلئے کی گئی تھی، طاقتور بھی تھے کہ انکی بیگم مغل خاندان سے تھی۔ شاہ ولی اور ساتھیوں کے قتل کا بہت برا اثر ہوا۔ درانی خاندان تقسیم ہوا تو تیمور شاہ نے تخت نشین ہوتے ہی دارالخلافہ کابل منتقل کیا۔

تیمور شاہ جنگ جیت گئے اور چچا عبدالخالق کو پکڑ کر آنکھیں نکال کر اندھا کر دیا

عبدالخالق جو تیمور شاہ کے چچا ہونے کا دعوی کر رہے تھے ایک بڑا لشکر لیکر قندھار سے کابل پر حملہ آور ہوئے، لیکن ان کے کچھ سردار سمیت پائیندہ خان بارکزئی تیمور شاہ سے مل گئے۔ جنگ شروع ہوئی تو کمزور تیمور شاہ جنگ جیت گئے اور چچا عبدالخالق کو پکڑ کر آنکھیں نکال کر اندھا کر دیا اور پائندہ خان بارکزئی کو سینئیر وزیر مقرر کیا۔

3: تیمور شاہ کے سرمائی دارلخلافہ پشاور میں فیض اللہ خلیل نے دھوکے سے قلعہ بالا حصار پر حملہ کردیا مگر تیمور شاہ نے کم و بیش تیس ہزار لوگوں کو قتل کرکے فساد پر قابو پالیا۔ بغاوت کے ذریعے چکمنی (څکمنې) اور دیگر قبائیل تیمور شاہ کو ہٹا کر شہزادہ سلیمان کو تخت پر بٹھانا چاہتے تھے۔

اس کے بعد ملتان پر سکھوں نے حملہ کیا تو لشکر بھیج کر سکھوں کا قلع قمع کیا اور ہزاروں سکھوں کی سر اونٹوں پر لاد کر پشاور لائے گئے۔ اسی طرح بہاولپور، سندھ اور کشمیر پر بھی حملے کرکے مطیع بنائے گئے۔ پھر واپس ہوکر ترکستان کے ساتھ جنگ و جدل ہوئی۔

4: تیمور شاہ نے تقریباً اکیس سالہ دور میں خراسان، پشاور، کشمیر، سندھ، بخارا اور قندوز تک کامیاب مہمات کئے اور بالآخر 1793 میں فوت ہوئے مگر اس سے پہلے پورا افغانستان اپنے بیٹوں میں ایسے بانٹ دیا تھا کہ قندھار میں ہمایوں درانی، ہرات میں محمود درانی، پشاور عباس درانی، کابل زمان درانی، غزنی شجاع درانی، کشمیر کوندل کو عطا کیا تھا۔

وزیر سردار پائندہ خان محمدزئی کی شاطرانہ چالوں سے کابل کے والی اور تیمور شاہ کے بیٹے زمان شاہ درانی 1793 میں تخت نشین ہوئے تو سگے بھائی شجاع کے علاوہ باقی سب بھائی کابل کے بالا حصار قلعے میں نظربند کر دیئے۔ قندھارکے والی اور بھائی ہمایوں قبائلی لشکر لئے کابل کی طرف بڑھے مگر شکست کھا کر بلوچستان کی طرف بھاگ نکلے۔ زمان شاہ نے اپنے کمسن بیٹے قیصر کو کندھار کا والی بنا دیا۔

5: زمان شاہ اندرون اپنے خاندان اور بھائیوں سے لڑ رہے تھے، ادھر بیرونی طور پر افغانستان سکڑنے لگا اور بخارا، سندھ میں تالپور، پشاور میں سکھوں، خراسان کی طرف سے قاجاروں نے قبضہ کر لیا۔ زمان شاہ سکھوں سے لڑنے پشاور پہنچے تو ادھر سے بھائی ہمایوں نے بلوچستان اور سندھ سے لشکر لیکر قندھار پر قبضہ کر لیا۔

زمان شاہ پنجاب چھوڑ کر قندھار واپس ہوئے تو بھائی ہمایوں کو (جسے ملتان میں سکھوں نے پکڑ کر حوالے کیا) پکڑ کر دونوں آنکھیں نکال کر اندھا کر دیا۔ پھر سندھ سے ہوتے ہوئے پنجاب میں داخل ہوئے اور حسن ابدال میں بڑی جنگ سکھوں سے لڑ کر کامیاب ہوئے اور سیدھا لاہور جا کر قبضہ کر لیا۔ زمان شاہ ابھی پنجاب میں مصروف تھے کہ دوسرے بھائی محمود نے ہرات میں بغاوت کر دی۔

زمان شاہ درانی احمد شاہ ابدالی کے راستے پر گامزن تھے اور ہندوستان پر بھرپور حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے کہ اسی دوران نپولین کے فرانسیسی لشکر نے مصر پر حملہ کیا اور ایک پیغام افغانستان زمان شاہ کے دربار بھی بھیج دیا جس میں انگریزوں کے خلاف اتحاد اور فرانس سے دوستی کا پیغام تھا۔

6: زمان شاہ 1798-99 میں ہندوستان پر حملے کے سلسلے میں پھر پنجاب پہنچے۔ دریائے جہلم پار کیا تو شاہ محمود کے ہرات پر حملے کی خبر ملی اور واپسی میں کئی توپیں دریائے جہلم میں بہہ گئیں جو بعد میں رنجیت سنگھ نے نکال کر پشاور بھیج دیں۔ زمان شاہ اس عمل سے اتنے خوش ہوئے کہ رنجیت سنگھ پنجاب کے گورنر تعینات کر دیئے گئے۔ جو الفنسٹن کے مطابق انگریزوں کی مدد اور ساز باز سے لاہور سمیت پشاور اور ملحقہ علاقوں پر بھی قابض ہوئے۔

7: انگریزوں کو زمان شاہ کے ہندوستان پر بھرپور حملے کی خبر پہنچی تو انگریز گونر جنرل لارڈ “ولزلی” نے سفر “جان ملکم” کے ذریعے ایران کے قاجاروں کے ساتھ ایک سٹریٹیجک معاہدہ کر لیا تاکہ زمان شاہ کو ہرات اور قندھار سمیت خراسان کی سرحدوں پر مشغول رکھیں ۔ ۔ ۔ اگر زمان شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا تو ایران کے قاجار بادشاہ افغانستان پر حملہ کریں گے۔ دوسری طرف ایران کو نپولین کے فرانسیسی لشکر اور خود زمان شاہ سے خوف تھا تو معاہدے کے مطابق اگر زمان شاہ یا فرانس نے ایران پر حملہ کیا تو برطانیہ کے بحری بیڑے اور فوج ایران کی بھرپور مدد کرے گی۔

یہی وہ وقت تھا کہ شیر میسور ٹیپو سلطان نے خط لکھ کر زمان شاہ سے مدد طلب کی مگر ایک طرف وہ اپنے مسائل میں گھرے تھے اور ساتھ انگریزوں نے بھی انہیں مصروف رکھا تھا۔

8: اگر تزویراتی نظر سے دیکھیں تو ایران اور انگریزوں نے بروقت خطرے کے پیش نظر ایک ایسا معاہدہ کیا جس سے برطانوی ہندوستان بھی زمان شاہ کے حملے سے بچ گیا اور ایران بھی زمان شاہ اور نپولین کے حملے سے بچ گئے۔

زمان شاہ نے بھائی شہزادہ شاہ ہمایوں کو اندھا کردیا تھا اور سردار پائندہ خان کو تختہ الٹنے کی سازش میں دربار میں قتل کردیا تھا۔ شہزادہ محمود اور سردار پائندہ خان کے بھائی فتح خان، دونوں ایران میں بیٹھے تھے۔ انگریزوں نے انہیں استعمال کرنے کا سوچا۔ فتح خان بھی اثر و رسوخ رکھتے تھے اور سب بھائی کافی فعال تھے، اُٹھ کر سیستان، ہرات اور قندھار پر حملہ کرکے قابض ہوئے۔

9: انگریز زمان شاہ کو قابو کرنے میں ناکام ہوئے اور زمان شاہ ایک بار پھر ہندوستان پر حملے کیلئے تیار ہوئے تو اس دفعہ انگریزوں نے وہ چال چلی جس میں پشتون ہمیشہ ہار جاتے ہیں۔ اب زمان شاہ کے بھائی محمو شاہ اور سردار فتح خان قندھار، ہرات اور سیستان سے ہوتے کابل پر حملہ آور ہوئے۔ زمان شاہ پشاور سے کابل جاتے ہوئے غزنی سے آگے مدمقابل ہوئے اور شکست سے دوچار ہو گئے۔

اب محمود شاہ نے زمان شاہ کو پکڑ کر آنکھوں میں سلائی پھرا کر اندھا کردیا۔ شاہ زمان ہندوستان (لدھیانہ) جا کر مقیم ہوئے۔ انگریزوں کا وظیفہ وصول کرتے رہے اور وہیں 1844 میں انتقال کر گئے۔

10: جولائی 1801 میں شاہ محمود تخت نشین ہوئے اور سردار فتح خان کو وزیر بنایا تو پورا افغانستان فتح خان اپنے بھائیوں میں تقسیم کرکے ایک بڑی سیاسی طاقت کے حصول میں کامیاب ہوئے جو آگے جا کر بارکزئی بادشاہت پر منتج ہوئی۔

11: محمود شاہ کو تین معاملات نے بےبس کرکے تخت سے محروم کیا، ایک درانی، سدوزئی بارکزئی آپس میں لڑتے رہے۔ سب سے پہلے شاہ شجاع، آفریدی اور دیگر قبائل ایک لشکر لیکر کابل پر حملہ آور ہوئے مگر فتح خان نے اسے شکست سے دوچار کیا۔ حالات کا فائدہ اُٹھا کر غلجی (خلجی) قبائل نے بغاوت کردی اور غزنی، قندھار اور کابل پر حملہ آور ہوئے مگر درانی اکھٹے ہوئے حتی کہ مقتول شاہ ولی کے بیٹے شیر محمد خان بامزئی کو جیل سے رہا کرکے لشکر کا سالار بنایا اور عبدالرحیم ہوتک کو شکست سے دوچار کیا، ہزاروں افراد دونوں طرف سے مارے گئے۔

ایک افواہ یہ بھی تھی کہ محمود شاہ ایران جا کر شیعہ ہوگئے ہیں۔

بعد ازاں اسی شیر محمد خان بامزئی نے شاہ شجاع، مولوی میر واعظ سید احمد، افغانیوں کو محمود شاہ کی نااہلی دیگر وجوہات کی بنا پر اکسایا۔ دیگر وجوہات میں ایک افواہ یہ بھی تھی کہ محمود شاہ ایران جا کر شیعہ ہوگئے ہیں اسلئے قزلباشوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔

حقیقت حال میں معاملہ یہ تھا کہ ایک قزلباش کا قتل ہوا تو مجرم پکڑ عدالت میں پیش کیاگیا جہاں اسے سزائے موت سنا کر پھانسی دے دی گئی۔ کابل میں مولوی میر واعظ سید احمد نے قزلباش (جو کہ شیعہ تھے) کے خلاف سنی قبائیل کو اکسایا اور قاتل کے جنازے کو جلوس کی شکل دیکر احتجاج شروع کر دیا۔ اس کے علاوہ باہر سے بھی سنی قبائل بلا کر کابل میں شیعہ سنی جنگ چھیڑ دی گئی۔ قزلباشوں کے گھر لوٹے اور بہت سے قتل کر دیئے گئے۔

یعنی جو پروپیگنڈا مغل شہنشاہ ہمایوں کے خلاف ہوا تھا، وہی شاہ محمود کے خلاف بھی کارگر ثابت ہوا مگر یہ روش رُکی نہیں۔ سو سال بعد شاہ امان اللہ کو بھی گوڈ ملا اور ملا شوربازار نے مرتد اور کافر کے فتوے لگا کر معزول کرنے پر مجبور کیا جب وہ یورپ کا کامیاب دورہ کرکے واپس ہوئے تھے، اور افغانستان میں بڑے پیمانے پر نئے منصوبوں اور اصلاحات کا اعلان کیا تو افغانستان کے شدت پسند مولویوں نے (انگریز اور نادر شاہ برادران کی مدد سے) ایک رہزن حبیب کلکانی کو تخت پر بٹھایا تھا لیکن اس پر بات بعد میں کریں گے۔

غنی خان بابا نے اپنی کتاب دی پٹھان میں غازی امان اللہ خان اور اورکزئی کے شیعہ قبائل کے ساتھ ہونیوالی نہایت درناک داستان لکھی ہے۔ اورکزئی کے زیرک شیعہ قبائل نے غازی امان اللہ خان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو عیار انگریزوں کے ایماء پر مکار مولویوں نے پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ تیسرے خلیفہ حضرت عثمان رض کے قتل میں اورکزئی کے اہل تشیع لوگ بھی شامل تھے”۔ سب کو پتہ تھا کہ حضرت عثمان رض کے وقت اسلام علاقے یعنی اورکزئی ایجنسی پہنچا بھی نہیں تھا مگر ۔ ۔ ۔ پھر کیا تھا آفریدی اور دیگر سنی قبائل نے اورکزئی میں کربلا برپا کر دی۔ شیعہ مرد، خواتین، بچے جو نظر آتے قتل ہوتے رہے، ہزاروں لوگ بےگناہ قتل ہوئے۔ جب انسان ختم ہوئے تو باغات کا رُخ کیا اور میوہ جات کے درخت کاٹے گئے اور آخر میں چنار کے درخت کاٹ کر آفریدی قبائل کے کلیجے ٹھنڈے ہوئے۔

12: شاہ محمود کے ابتدائی ڈھائی سالہ دور میں سازشیں، فساد، شورشوں، جنگ و جدل اور خانہ جنگی جاری رہی۔ شاہ شجاع جولائی 1803 میں تخت سجا کر براجمان ہوئے مگر فتح خان، کامران مرزا اور قیصر مرزا نے شاہ شجاع کی ناک میں دم کرنا شروع کر دیا جو دو دفعہ کابل اور تین دفعہ قندھار اور پھر کابل اور پشاور پر حملوں کی وجہ سے ہندوستان کی طرف دھیان نہ دے سکے۔ کشمیر، سندھ اور پنجاب ہاتھ سے نکلتے جارہے تھے۔ ایک جنگ میں شیر محمد خان بھی قتل ہوئے جبکہ محمود شاہ بارکزئی اور قزلباشوں کی مدد سے بھاگ کر پھر قندھار پر حملہ آور ہوئے اور قبضہ جمایا۔ مگر شاہ شجاع واپس آئے اور محمود شاہ کو پھر بھگا دیا۔

13: دوسری جانب سکھ اور انگریز مل گئے تھے۔ انگریز فرانسیسیوں اور روسیوں سے خائف تھے اور شاہ شجاع نے 1809 میں الفنسٹن کے ساتھ پشاور میں مذاکرات کرکے انگریزوں کے ساتھ پہلا معاہدہ کر ڈالا۔ اس کی پہلے شق تھی کہ کسی بیرونی قوت نے افغانستان کے راستے ہندوستان پر حملہ کیا تو انگریز افغانستان میں فوج داخل کرسکیں گے جبکہ دوسری شق کے مطابق افغانستان کو پابند کیا گیا کہ کسی بیرونی سفارتی مشن کو کابل میں خوش آمدید نہیں کہا جائے گا اور ساتھ ہی تیسرے شق میں کہا گیا کہ افغان رہنما ہندوستان پر حملے بند کریں گے۔

اس بار شاہ محمود نے فتح خان کے ساتھ مل کر انگریز کارڈ کھیلا اور افغانوں کو اُکسایا کہ شاہ شجاع نے افغانستان کافر انگریزوں کے حوالے کیا ہے اور کافر سکھوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ افغانی تلملا اُٹھے، شاہ محمود شاہ ایک بار پھر اُٹھے کندھار سے ہوتے ہوئے کابل فتح کیا اور پشاور آتے ہوئے شاہ شجاع کو خیبر میں آفریدی اور دیگر قبائل سمیت شکست سے دوچار کیا اور پشاور پر بھی قبضہ کر گئے۔

شاہ شجاع اپنے بھائی زمان شاہ کو لے کر پہلے رنجیت سنگھ کے دربار میں پنجاب پہنچے، جہاں احمد شاہ ابدالی کی نشانی کوہ نور ہیرا اور خزانہ سب کچھ چھین لیا گیا۔

انگریزوں کا وفد جو شاہ شجاع کے ساتھ معاہدہ کرکے ابھی راولپنڈی نہیں پہنچا تھا کہ شاہ شجاع اپنے بھائی زمان شاہ کو لے کر پہلے رنجیت سنگھ کے دربار میں پنجاب پہنچے، جہاں احمد شاہ ابدالی کی نشانی کوہ نور ہیرا اور خزانہ سب کچھ چھین لیا گیا۔ پہلے شاہ زمان خاندان سمیت اور پھر شاہ شجاع رنجیت سنگھ کی قید سے فرار ہوکر ہندوستان میں انگریزوں کے ہاں لدھیانہ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔

الفنسٹن نے زمان شاہ سے راولپنڈی میں ملاقات کی درناک کہانی لکھی ہے اور بہادر شاہ کاکاخیل نے رنجیت سنگھ کے ہاں ساتھ حرم شاہی کے قیام کی داستان لکھی ہے جب شاہ شجاع دربدر پھرتے رہے۔ حتی ملتان کے گورنر نے دروازے تک بند کردیئے وہ نہات دلسوز ہے لیکن اصل کہانی تیس سال بعد پھر شروع ہو گی جب انگریز اسی شاہ شجاع کو دوست محمد خان بارکزئی کے خلاف میدان میں اتاریں گے۔

شاہ محمود 1809 میں پھر تخت نشین ہوئے مگر افغانستان کے اندرونی اور بیرونی جھگڑے اور حالات مزید خراب ہوئے۔ ایران میں فرانسیسی اثر و رسوخ بڑھا تو دہلی میں بھی خوف بڑھ گیا اور اب افغانستان کے ذریعے فرانس اور ایران کو قابو کرنے کیلئے پشاور میں موجود شاہ شجاع سے روابط بڑھا لئے گئے۔

شاہ محمود عیاش تھے مگر فتح خان نے افغانستان کو ایک بار پھر عظیم سلطنت کے راستے پر گامزن کیا اور لشکر کشی کے بعد قبائل کی دلجوئی کرکے زخموں پر مرہم رکھتے گئے اور قوم کو ایک بار پھر اکٹھا کیا مگر چونکہ سب بھائی قدرت حاصل کرچکے تھے اور دربار میں فتخ خان کا سکہ چلتا تھا لہذا شاہ محمود کے بیٹے کامران سمیت بہت سے أمراء حاسد بن گئے اور دشمنی پر اتر آئے۔

فتخ خان نے 1813 میں کشمیر پر لشکر کشی کرکے قبضہ کیا اور بھائی عظیم خان کو گورنر بٹھایا تو اٹک میں جہانداد خان نے رنجیت سنگھ سے معاملات طے کرکے فوج بلائی۔ دوست محمد خان لشکر لیکر اٹک گئے مگر سکھ لشکر کے ہاتھوں شکست کھا کر کابل واپس ہوئے۔ فتخ خان بھی کشمیر سے اٹک آ رہے تھے مگر شکست کی خوف سے واپس ہو کر کابل روانہ ہو گئے۔

تین سال بعد 1816 میں ہرات کی صورتحال خراب ہوئی جہاں شاہ محمود کے بھائی خودمختار بیٹھے تھے۔ فیروزالدین ایک تو ایران کے حملے سے خائف تھے لیکن اس سے زیادہ فتخ خان سے خاف زدہ تھے۔ لشکر کو ہرات شہر میں داخلے سے منع کیا مگر فتح خان کو پچاس افراد کے ساتھ شہر کے اندر جانے دیا۔ ان پچاس بندوں نے ہی کام کر دکھایا۔ شہر کے دروازوں کی چابیاں حاصل کرتے ہی فتخ خان نے فیروالدین کو کابل حاضر ہونے کا حکم دے دیا۔

“دوست محمد خان بارکزئی” بادشاہ کے بھائی اور ہرات کے گورنر حاجی فیروز الدین کے گھر گھس گئے اور وہاں خواتین کے ساتھ “بدتمیزی” اور “بےعزتی” کی

فتح خان بارکزئی کے لشکر نے قاجاروں کو زبردست شکست سے دوچار کیا مگر ہرات میں ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔ وزیر فتح خان کے بھائی “دوست محمد خان بارکزئی” بادشاہ کے بھائی اور ہرات کے گورنر حاجی فیروز الدین کے گھر گھس گئے اور وہاں خواتین کے ساتھ “بدتمیزی” اور “بےعزتی” کی، زیورات سمیت گھر لوٹ لیا اور کشمیر بھاگ گئے۔

چونکہ پشتونوں میں گھر اور خواتین پر حملے کو سنگین جرم مانا جاتا ہے لہذا شاہ محمود نے کامران کے ذریعے اپنے چہیتے وزیر فتخ خان کی دونوں آنکھیں نکلوا کر اندھا کر دیا۔ بعد میں ہولناک اور وحشیانہ طرز عمل اختیار کرکے کھال کھینچی، پھر جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے قتل کر دیا۔ اس طرح دشمنی کی بنیادیں مزید گہری ہو گئیں جس نے آگے جا کر افغانستان کی تاریخ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

14: فتح خان کے اٹھارہ بھائی خبر سن کر آپے سے باہر ہو گئے اور دوست محمد خان (جو اس نئے جھگڑے کی بنیاد بنے تھے) عظیم خان سمیت کشمیر سے اور دوسرے بھائی بھی غزنی، قندھار، بلوچستان، بامیان اور پشاور سے لشکر لیکر کابل پر ہر طرف سے حملہ آور ہوئے اور دارالحکومت پر قبضہ کر گئے۔ شاہ محمود کو غزنی کی طرف دھکیل دیا گیا جہاں سے ہرات کی طرف بھاگے اور وہیں حکومت کرتے رہے۔ شاہ محمود اور فیروز دین کے درمیان حکومت پر جھگڑا ہوا اور کامران نے اُٹھ کر دونوں کو قتل کرکے قصہ تمام کر دیا۔

15: ادھر کابل میں تیمور شاہ کے بیٹے علی شاہ درانی ایک سال کیلئے بادشاہ بنائے گئے مگر ایوب شاہ درانی نے اُٹھے اور اپنے ہی بادشاہ بھائی کو موت کے گھاٹ اتار کر تین سال تک مزید لڑتے رہے۔ پنجاب سے پشاور تک انگریز اور سکھ قبضے کوشش کررہے تھے اور ہندوستان سے ایک مولوی سید احمد بریلوی بھی میدان میں کود پڑے۔ افغانستان میں دوست محمد خان کے 1826ء میں تخت نشینی تک فساد، سازشوں، جنگ و جدل، قتل و غارتگری اور لوٹ مار کا بازار گرم رہا۔

16: کشمیر میں بھی فتح خان نے سنگین غلطی کی جہاں فتح حاصل کرنے کیلئے رنجیت سنگھ سے مدد لی۔ وہ فی الوقت تو اپنے بھائی محمد عظیم خان کو کشمیر کا گورنر بنانے میں کامیاب ہوئے مگر رنجیت سنگھ نے ہی بالآخر کشمیر پر قبضہ جما لیا۔

17: حکمران خود اپنے فائدے کیلئے بڑے بڑے قبائل اور قبائلی سرداروں سمیت مذہب اور مسلک کا بے دریغ استعمال کرتے رہے

یوں احمد شاہ ابدالی (درانی سدوزئی) کی عظیم افغان بادشاہت بارکزئی افغان سلطنت میں تبدیل ہوئی۔ ایسی قتل و غارت کی داستان پڑھ کر آپ یقین کریں گے کہ زمان شاہ، شاہ محمود اور شاہ شجاع بھائی ہیں؟ اور جو قبائل ان جنگوں میں استعمال ہو کر قتل و غارتگری کرتے رہے، میں دانستہ ان کا نام نہیں لینا چاہتا کہ یہاں خالصتا تاریخ پر ہوئی بحث مبادا کوئی اور رخ نہ اختیار کر لے۔

دیکھا گیا ہے کہ بعض لکھاری دھڑلے سے بادشاہوں حتی ملکوں کے جھگڑے اور ناکامیاں کسی ایک قبیلے کے کھاتے میں ڈالتے نظر آتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکمران خود اپنے فائدے کیلئے بڑے بڑے قبائل اور قبائلی سرداروں سمیت مذہب اور مسلک کا بے دریغ استعمال کرتے رہے، جس میں لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں۔

حوالہ جات:

1: افغانستان د تاریخ پہ تګلوري کې۔ میر غلام محمد غبار
2: واقعات درانی- منشی عبدالکریم، ترجمہ میر وارث علی سیفی۔ ص ۵۵، ۶۲
3: پختانہ د تاریخ پہ رنڑا کے۔ بہادر شاہ کاکا خیل۔ ص ۶۹۹ سے ۷۰۸ تک
4: د کابل سلطنت۔ الفنسٹن۔ پشتو ترجمہ حسن کاکڑ ص ۵۴۹
5: واقعات درانی- منشی عبدالکریم، ترجمہ میر وارث سیفی۔ ص ۶۴ تا ۹۵
6: د افغانستان لنڈ تاریخ۔ عبدالحئ حبیبی۔ پشتو ترجمہ محمد داؤد: ص ۲۹۶
7: تاریخ افغانستان۔ والکر اردو صفحہ ۱۳
8: د کابل سلطنت۔ الفنسٹن۔ پشتو حسن کاکڑ ص ۵۹۳
9: تاریخ افغانستان۔ والکر اردو صفحہ ۱۳
10: مختصر تاریخ افغانستان۔ پروفیسر حمیداللہ: ص ۱۳۶- باب زمان شاہ
11: مختصر تاریخ افغانستان۔ پروفیسر حمیداللہ: ص ۱۳۵- باب زمان شاہ ۔
12: د افغانستان لنڈ تاریخ۔ عبدالحئ حبیبی۔ پشتو محمد داؤد: ص ۳۰۵
13: غنی خان۔ دی پٹھان۔ انگریز صفحہ ٤٨، ٤٩
14: پشتو ترجمہ صفحہ ۸۱ تا ۸۳
15: مختصر تاریخ افغانستان۔ پروفیسر حمیداللہ: ص ۱۳۶- باب زمان شاہ
16: پختانہ د تاریخ پہ رنڑا کے۔ بہادر شاہ کاکا خیل۔ ص ۳۳۰ تا ۷۴۶
17: مختصر تاریخ افغانستان۔ پروفیسر حمیداللہ: ص ۱۳۹ تا ۱۵۰ باب زمان شاہ


احمد طوری (فرضی نام) ایک سوشل ایکٹوسٹ ہیں جو سیاسی امور، سماجی و معاشرتی مسائل، تاریخ اور پشتون علاقوں کے معاہدات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں