سعودی عرب کا کمال اتا ترک (ساجد خان)

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان خبروں میں رہنے کا فن جانتا ہے۔

صحافی جمال خاشوگی کا قتل ہو یا یمن پر حملہ، بہت سے متنازعہ واقعات میں شہزادہ سلمان ہمیشہ سرفہرست رہے ہیں لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ان کی طبیعت میں ٹھہراؤ آتا نظر آ رہا ہے اور شاید وہ بھانپ گئے ہیں کہ دنیا میں اپنا مقام بنانے کے لئے پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا۔

ان کے اقدامات سے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ ریاست اور مذہب کو علیحدہ کرنے کا انقلابی کام کرنے جا رہے ہیں۔

سب سے پہلے انہوں نے ماضی کی غلطی کا اعتراف کیا کہ سعودی عرب نے مغرب کی ایماء پر دنیا بھر میں وہابیت کو فروغ دیا، جس کے بعد انہوں نے ملک بھر میں انتہا پسند علماء کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا۔

کچھ عرصہ پہلے “عرب نیوز” کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے معیشت اور سیاحت پر تفصیلی گفتگو کی، جس میں انہوں نے بتایا کہ ہماری کوشش ہے کہ ہم تیل پر دار و مدار کم سے کم کر دیں اور ملک میں بیرونی سرمایہ کاری اور سیاحت کے حالات پیدا کریں۔

اس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں کمیونزم سے لڑائی میں ہمارے ملک میں انتہا پسندی کو پروموٹ کیا گیا۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ مسلم امہ میں انتہا پسندی کی وجہ سے نا صرف جانی نقصان پہنچا بلکہ معاشی نقصان بھی ہوا اور کیونکہ سعودی عرب اسلام کا ایک مرکز ہے، اس لئے تمام انتہا پسند تنظیموں کی کوشش رہی ہے کہ وہ اس سرزمین پر اپنے پنجے مضبوط کریں، اس کی اہم وجہ یہی تھی کہ اس سرزمین پر ہر رنگ و نسل کے افراد مذہبی اجتماعات میں اکٹھے ہوتے ہیں لہٰذا ان کے لئے دنیا بھر میں اپنی سوچ پھیلانے کے لئے یہی سرزمین اہم تھی۔

محمد بن سلمان نے کہا کہ اگر میں اسامہ بن لادن ہوتا تو میں سب سے زیادہ توجہ سعودی عرب کو ہی دیتا۔
انہوں نے اپنی بات بڑھاتے ہوئے کہا کہ اب اگر ہمارے ملک میں انتہا پسندی ہو گی تو ہم کیسے کسی سیاح کو کہہ سکتے ہیں کہ آپ ہمارے ملک میں چھٹیاں منانے کے لئے آئیں یا ایسے ماحول میں ایک بیرونی سرمایہ کار سرمایہ کاری کرے گا،اس لئے ہمیں ان کے مطابق ماحول دینا پڑے گا۔ ان کی دلچسپی کے لئے سیاحتی مقامات بنانے پڑیں گے جو کہ مالدیپ یا دوسرے ممالک کی نقل نا ہوں ورنہ سیاح نہیں آئیں گے،اس لئے ہمیں کچھ نیا بنانا پڑے گا۔

شرعی قوانین کے حوالے سے جواب دیا کہ ہماری احادیث کی کتب میں ہر قسم کی احادیث موجود ہیں، ضعیف بھی ہیں،واحد راوی بھی ہے اور متواتر بھی ہیں، اب کسی کیس میں واحد روایت کی بنا پر سزا دینا صحیح نہیں ہو گا لہٰذا اب شرعی فیصلے صرف قرآن اور متواتر احادیث کی روشنی میں ہوں گے۔

ٹیکس کے معاملے پر کہا کہ ہم نے پانچ سے دس فیصد ٹیکس ضرور عائد کیا ہے لیکن جوں ہی دنیا کرونا جیسی وباء سے نکل آئے گی تو ٹیکس کی شرح میں کمی کرتے جائیں گے اور جو پیسہ ہمیں حاصل ہو گا، وہ ہم اعلیٰ تعلیمی اداروں پر خرچ کریں گے کیونکہ اس وقت ہماری تین سے چار یونیورسٹی ایسی ہیں جو عالمی معیار کے مطابق پہلی پانچ سو میں آتی ہیں اور یہ رینکنگ کچھ بھی نہیں ہے،میں چاہتا ہوں کہ ہماری یونیورسٹی پہلی دس بہترین میں شمار ہو اور اگر پہلی بیس یا تیس میں بھی ہوں تب بھی برا نہیں ہے۔

محمد بن سلمان روز اول سے ہی دوبئی سے متاثر تھا اور چاہتا تھا کہ وہ بھی سعودی عرب کو ایسے ہی سیاحتی ریاست بنائے گو کہ اسی خواہش کی وجہ سے بن سلمان بہت سے معاملات میں متحدہ عرب امارات کے ہاتھوں استعمال بھی ہوا۔

جس میں یمن پر حملہ اور قطر کا محاصرہ بھی شامل ہے لیکن اس سب کے باوجود ایک بات تو واضح ہے کہ اگر یہ شخص اگلے دس سال تک حکمران رہا تو یہ سعودی عرب کو بالکل ہی بدل دے گا خواہ وہ تبدیلی ہمیں پسند آئے یا نا آئے۔

سب سے پہلے تو اس نے ان قوانین کا خاتمہ کیا جو اسلام کے نہیں بلکہ سعودی ملاؤں کے اختراع تھے جیسے خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی۔ بلدیاتی انتخابات میں خواتین کو حصہ لینے کی اجازت دی۔

گاڑی چلانے کی اجازت دی گئی اور خواتین کا محرم کے بغیر سفر کرنے کی اجازت بھی محمد بن سلمان نے ہی دی۔

حال ہی میں مکہ المکرمہ اور مدینہ منورہ میں غیر مسلم افراد کو داخل ہونے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔

دوسری طرف میوزیکل کنسرٹ کی نا صرف اجازت دی گئی بلکہ سرکاری طور پر عالمی شہرت یافتہ گلو کاروں کو مدعو بھی کیا گیا۔

ہم ان اقدامات پر جتنا بھی اعتراضات کریں لیکن سعودی نوجوان نسل میں محمد بن سلمان کی مقبولیت بہت بڑھی ہے، جس نے گھٹن زدہ ماحول میں خاطر خواہ کمی کی ہے اور شاید یہ تبدیلی مسلم امہ کے لئے مثبت ہی ہو کیونکہ اس سے قبل دنیا بھر میں انتہا پسندی کو سعودی سرپرستی حاصل رہی ہے خصوصاً پاکستان انتہا پسندی کے معاملہ میں دو روایتی حریف سعودی عرب اور ایران کا اکھاڑہ بنا رہا۔

سعودی عرب بدل رہا ہے اور اس کے حکمرانوں کو اندازہ ہو گیا ہے کہ ہم ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں لہٰذا اب ہمیں ماضی کی غلطیوں کو سدھارنا چاہئے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ مشرق وسطیٰ سدھر جائے گا مگر ہم مزید دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔

انتہا پسندی اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اب لاشوں کی تدفین کو بھی توہین سمجھا جا رہا ہے۔ کیا ہم بھی انتہا پسندی کی وباء سے چھٹکارا پا سکیں گے۔

ایسا ممکن ہے اگر ہم پر بھی محمد بن سلمان جیسا سخت اور اکھز مزاج حکمران حکومت کرے جو بعض معاملات میں سفاک بھی ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں